پورا وزیرستان مسلح افراد کے نرغے میں ہے، حتیٰ کہ آرمی یا ایف سی کی کانوائے، بغیر کرفیو کے نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ بقول ایک قریبی دوست، جو حساس ادارے کے فیلڈ آپریشن کے ماہر ہیں، کہتے ہیں کہ وہ پچھلے دو ماہ سے اپنے کیمپ سے باہر نہیں نکل پا رہے، بس کیمپ کے اندر سے حکام کو الٹی سیدھی رپورٹس دے رہے ہیں۔
بنوں کا ذکر نہ ہی کریں تو بہتر ہے، آپ کو حالیہ دھماکوں سے اندازہ ہو گیا ہوگا۔ لکی مروت اور ڈی آئی خان تو مکمل طور پر ان مسلح افراد کے ہاتھوں یرغمال ہیں، بلکہ اب تو مسلح دھڑے پختونخوا اور پنجاب کے سنگم تونسہ کو کراس کرکے ڈیرہ غازی خان تک پہنچ چکے ہیں۔
کرک، جہاں 9/11 کے بعد امن و امان نمایاں تھا، آج انہی مسلح شدت پسندوں کے ہاتھوں یرغمال ہے۔ میرے گاؤں میں شام ڈھلے ستر مسلح افراد نے پورا پولیس تھانہ اڑا دیا۔ کرک کی سرحدیں میانوالی سے ملتی ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں مسلح شدت پسند موجود ہیں۔ کوہاٹ، ہنگو، اور پاراچنار تک انہی مسلح شدت پسندوں کی حکومت ہے، بلکہ تحریک طالبان آج کل اپنے پریس ریلیز میں انہی علاقوں کو امارات سے جوڑ رہی ہے۔ خیبر ایجنسی، باجوڑ، دیر، اور چترال میں کم و بیش یہی صورتحال ہے۔
اب ذرا بلوچستان کی طرف آتے ہیں، جہاں ستر فیصد علاقوں پر مسلح علیحدگی پسندوں کی اجارہ داری ہے۔ بہت جلد سندھی قوم پرست جماعتیں، جو آئے روز قومی شاہراہوں کو بند کرکے سراپا احتجاج ہوتی ہیں کہ فوج اپنی زمینوں کے لیے دریائے سندھ سے پانی کی نکاسی کرکے سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے، بلوچ علیحدگی پسند ان کو ساتھ شامل کرنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
پنجاب میں تحریک لبیک کے انتہا پسند نظریات اتنے حاوی ہو چکے ہیں کہ بھرے مجمع میں کسی کو بھی توہینِ رسالت کا مجرم قرار دے کر سڑکوں پر انصاف کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا حالات دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستان کے حالات افغانستان سے زیادہ دگرگوں ہیں۔ افغانستان میں امریکی قبضے کے بعد اتنی شدت پسندی کم از کم میں نے تو نہیں دیکھی۔ ہلمند کے بھی ایسے حالات نہیں دیکھے، حالانکہ گوریلا جنگ پورے افغانستان میں لڑی جا رہی تھی، مگر مخصوص اوقات اور حالات میں۔ میں نے چار روز سے زیادہ قندھار اور کابل شاہراہ کو بند ہوتے نہیں دیکھا، جبکہ لکی مروت تا ڈی آئی خان شاہراہ پر کھلم کھلا طالبان گشت کرتے دیکھتا ہوں۔ اور شام ڈھلے ناکے لگا کر شناختی کارڈ چیک کئے جاتے ہیں۔
پختونخوا اور بلوچستان میں شناختی کارڈ چیک کیے جا رہے ہیں، اور پختونخوا کے کچھ علاقوں میں پولیس کو بھتہ دیتے ہوئے پایا گیا ہے تاکہ ان کی جان کو تحفظ حاصل ہو۔
بلوچستان میں جنگ بہت تکنیکی طریقے سے لڑی جا رہی ہے۔ ایک طرف مسلح علیحدگی پسند بین الاقوامی میڈیا کو دکھانے کے لیے شہروں پر قبضہ کر لیتے ہیں، دوسری طرف سول سوسائٹی کی خواتین اپنے پیاروں کی تصاویر لے کر سڑکوں پر بیٹھ جاتی ہیں تاکہ دنیا کی ہمدردی حاصل کی جا سکے۔ بظاہر وہ اپنا مقدمہ جیت چکے ہیں، جس کا ثبوت یہ ہے کہ بلوچ سول سوسائٹی کی ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نوبل ایوارڈ کے لیے نامزد ہو چکی ہیں۔
کل پوری ٹرین کو یرغمال بنا کر جس طرح دنیا کو دکھایا گیا کہ آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ کس حد تک جا سکتے ہیں، وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام حالات میں عوام اور حکومت کہاں کھڑے ہیں؟۔ عوام کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اور پختونخوا میں کم از کم ساٹھ فیصد عوامی رائے عمران خان کی گرفتاری کے بعد مکمل طور پر فوج کے خلاف ہو چکی ہے۔ چنانچہ کافی جگہوں پر، جہاں فوج کے لیے “سول ہیومن انٹیلیجنس” معلومات فراہم کرنے کا ایک بڑا ذریعہ تھی، وہاں کے لوگ اب بددل ہو کر خود کو ایک طرف کر چکے ہیں اور مسلح شدت پسندوں اور فوج کے درمیان اس لڑائی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ بلوچستان میں عوام نے حساس اداروں کے ہاتھوں اغوا، ماورائے عدالت قتل کو خود دیکھا ہے، سو ان کے دلوں میں فوج کے لیے شدید نفرت ہے۔ انہوں نے بھی ریاست کو ایک طرف رکھ کر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے، کیونکہ فوج گولی مار رہی ہے اور علیحدگی پسند انہیں شناخت دینے کی بات کر رہے ہیں۔
سندھ میں عوام کو جتنا ذلیل سندھ کی سیاسی جماعتوں نے کیا ہے، اتنی ذلت شاید ہی کبھی ان کے نصیب میں آئی ہو۔ ان کی زمینوں پر قبضہ، وڈیروں کے ذریعے غریب عوام کو قابو میں رکھنا تاکہ ان کا ووٹ بینک سلامت رہے، ایسے میں زین شاہ جیسے قوم پرست رہنما ان غریب سندھیوں کو یہ باور کرا رہے ہیں کہ سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے۔ پختونخوا اور بلوچستان کے حالات دیکھ کر سندھ میں بھی مزاحمتی تحریکیں جنم لے رہی ہیں، جو مستقبل میں بلوچ اور سندھو دیش کے بیانیے کے لیے افرادی قوت فراہم کریں گی۔
طورخم پر افغانستان کے ساتھ لڑائی جاری ہے۔کابل کی مذہبی حکومت اس لڑائی کو ڈیورنڈ لائن پر قبضے کے بیانیے میں بدل کر پاکستان کے سات کروڑ پشتونوں کی ہمدردی حاصل کر رہی ہے۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش کے گرفتار رہنما کو امریکہ کے حوالے کرکے ڈونلڈ ٹرمپ سے شاباشی حاصل کرنے والے شہباز شریف کو کیا حاصل ہو رہا ہے؟ گزشتہ رات لاس اینجلس سے ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانی سفیر کا قصہ تو کوئی اور کہانی سنا رہا ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ خود دوست بنانے کے بجائے دشمن بنانے کے فارمولے پر عمل پیرا ہے، جو خود امریکہ کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان، امریکہ کا ساتھ دیکر کر کیا کمزور پوزیشن لے رہا ہے؟
ایک عام فوجی کے گھر والے اپنے بچوں کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھ جائیں۔ اب تو پورے پاکستان میں منظور پشتین کے بیانیے پر سرگوشیاں ہو رہی ہیں: “ان حالات کے ذمہ دار ہمارے محافظ ہی ہیں۔”
ایسے میں کیا فوج کے لیے آسان ہوگا کہ گولہ بارود کی زبان میں ریاست کی رٹ بحال رکھی جا سکے، یا مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر ناراض قوتوں کو قائل کیا جا سکے؟

میرا جواب ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں