کشف المحجوب سے انتخاب (2)-محمد ثاقب

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “کشف المحجوب” کے مقدمے میں لکھتے ہیں

ایک پتھر کو آئینے کی صورت میں نہیں ڈھالا جا سکتا خواہ بہت سے ماہر کاریگر بھی کوشش کرتے رہیں لیکن ایک زنگ آلود آئینہ اگر پالش کیا جائے تو چمک اٹھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پتھر کی اصل، تاریکی ہے اور آئینے کی اصل روشنی ہے۔ کسی چیز کی اصل (ذات)، مستقل ہوتی ہے ، جب کہ اس کی صفت عارضی ہوتی ہے جسے بقا نہیں ہوتی۔

پس میں نے یہ کتاب اِس لیے تصنیف کی ہے کہ اُن دلوں کو صیقل کرے جو اگر چہ حجاب غینی میں گرفتار ہیں لیکن اُن کے دلوں میں نور حق کا سرمایہ موجود ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے کی برکت سے ان سے حجاب اٹھ جائے گا اور وہ معانی کی حقیقت کی راہ پائیں گے ، لیکن جن کے وجود کا غیر ہی انکار حق اور ار تکاب باطل کا مجموعہ ہے، وہ لوگ نشانات حق کی موجودگی کے باوجود حق کی طرف راہ نہ پائیں گے۔ نعمت عرفان عطا ہونے پر اللہ کا شکر واجب ہے

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب “کشف المحجوب” کے باب اثباتِ علم میں فرماتے ہیں

جان لو کہ علوم بہت زیادہ ہیں اور عمر بہت کم ہے۔ اس لیے ہر شخص پر تمام علوم سیکھنا فرض نہیں۔ مثلاً علم فلکیات، علم طب، علم حساب اور طرح طرح کی صنعت و حرفت کے سارے علوم حاصل کرنا، ہر شخص کے لیے ضروری نہیں، بس یہ کہ ان علوم میں سے اتنا حصہ کافی ہوتا ہے جو شریعت پر عمل کرنے سے) سے متعلق ہو، مثلاً ستاروں کے متعلق علم (علم فلکیات) سے اتنا جانتا بھی کافی

ہے کہ رات (شب بیداری) کے وقت کا پتہ چل سکے۔ ایک عام آدمی کے لیے علم طب میں سے اتنا جانا کافی ہے جس سے وہ مختلف بیماریوں سے بچ سکے ، اسی طرح حساب کتاب میں سے بھی اتنا علم چاہیے

جس سے وہ وراثت و عدت کے احکامات جان سکے۔

پس! اتنا علم فرض ہے جس سے عمل درست ہو سکے۔

اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کی مذمت فرمائی ہے جو غیر نافع علم سیکھتے ہیں۔ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” اور وہ سیکھتے ہیں جو اُنھیں نقصان دیتا ہے اور نفع نہیں دیتا ہے۔

رسولِ کریم ﷺ نے اس سے پناہ مانگتے ہوئے فرمایا ہے: ”میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں، ایسے علم سے جو نفع نہ دے۔

جان لینا چاہیے کہ تھوڑے علم کے ساتھ بھی زیادہ عمل کیا جاسکتا ہے۔ لازم ہے کہ عمل، علم   کے ساتھ منسلک و متصل ہو۔

حضرت ابراہیم بن ادھم بیان کرتے ہیں کہ میں نے راستے میں ایک پتھر پڑا ہوا دیکھا، اُس پر لکھا ہوا تھا : ” مجھے پلٹا کر پڑھو۔“ میں نے اسے پلٹا، اُس پر لکھا ہوا تھا: ” تم جو جانتے ہو ، اُس پر تو عمل نہیں کرتے ، پھر اُس علم کی طلب کیوں کرتے ہو جسے تم جانتے ہی نہیں۔ “اِس سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ تم جانتے ہو ، اس پر عمل پیرا ہو جاؤ تا کہ اُس (علم پر عمل کرنے)کی برکت سے تمھیں وہ بھی عطا کیا جائے جو تم نہیں جانتے۔

بندے کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور اُس کی معرفت کے بارے میں ضرور علم ہونا چاہیے۔

اپنے وقت کے علم کا حصول بھی بندے پر فرض ہے، تاکہ جب (عمل کا) وقت آئے تو ظاہر و باطن میں اُس کے کام آسکے۔

بایزید بسطامی فرماتے ہیں

میں نے تیس برس خوب مجاہدہ کیا لیکن علم اور اُس پر عمل کرنے سے زیادہ کوئی چیز مجھے مشکل نہیں لگی۔

حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کبریائی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں

صفات الہی کے متعلق علم یہ ہے کہ تم جان لو کہ اُس کی صفات اُس کی ذات کے ساتھ موجود

ہیں۔ یہ صفات خود خدا نہیں ہیں اور نہ ہی اُس کی ذات کا جزو ہیں، بلکہ یہ صفات اُس کی ذات کے ساتھ قائم ہیں، اور وہ ذات از خود قائم و دائم ہے ( یعنی اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ موجود ہے لیکن اُس کی ذات

ان صفات کی وجہ سے قائم نہیں بلکہ وہ از خود قائم ہے)، مثلاً علم، قدرت، حیات، ارادہ، سمع و بصر ، کلام اور بقا

کی وجہ سے اس کی ذات قائم نہیں بلکہ وہ بذات خود قائم ہے)۔

درج بالا صفات الہی پر درج ذیل آیات سند ہیں

بے شک وہ جانتا ہے جو کچھ سینوں میں ہے۔ (علم)

اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔(قدرت)

وہ زندہ ہے ، اس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ ” (حیات)

اور وہ سب سننے اور دیکھنے والا ہے۔“ ( سمع و بصر )

وہ جو چاہتا ہے کر گزرتا ہے۔“(اراده)

اُس کا قول حق ہے۔(کلام)

اور تمھارے رب کا چہرہ باقی ہے۔(بقا)

حضرت حاتم الاصم فرماتے ہیں کہ میں نے چار علم اختیار کیے اور سارے جہان سے میری جان چھوٹ گئی۔ لوگوں نے پوچھا: ” وہ کون سے علوم ہیں ؟

حاتم نے فرمایا: ”ایک یہ کہ میں نے جان لیا کہ اللہ تعالی کا مجھ پر حق ہے جسے میرے سوا کوئی اور ادا نہیں کر سکتا، چنانچہ میں اُس حق کی ادائیگی میں مشغول ہو گیا۔ دوسرا یہ کہ میں نے جان لیا کہ میر ارزق طے شدہ ہے، اسے زیادہ کرنے کی لالچ اس میں اضافہ نہیں کر سکتی، چنانچہ میں اپنے رزق میں اضافے کی طلب سے بے فکر اور مطمئن ہو گیا۔ تیسر اعلم یہ کہ میں نے جان لیا کہ میرا ایک طلبگار ہے جسے موت کہتے ہیں، میں اُس سے بھاگ نہیں سکتا۔ پس! اُس کے لیے میں تیار رہتا ہوں۔ آخری اور چوتھی بات یہ کہ میں نے جان لیا کہ حق تعالیٰ ہر حال میں مجھ پر مطلع (باخبر) ہے، چنانچہ میں اُس سے شر مساری محسوس کرتا ہوں اور وہ کام نہیں کرتا جو مجھے نہیں کرنے چاہئیں۔ جب بندہ یہ جان لیتا ہے کہ اُس کی ہر چیز حق تعالیٰ کی نگاہ میں ہے تو وہ ایسے کام نہیں کرتا جو بروزِ قیامت اُس کے لیے باعث شرمندگی ہوں۔“

فقر اور مال و دولت میں سے بہتر کون ہے، اس نکتے کو خوبصورتی سے بیان کرتے ہوئے لکھا۔

حقیقت کے مقام پر فقر سلیمان علیہ السلام، غنائے سلیمان علیہ السلام کی مانند ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے انتہائی صبر کے متعلق کہا گیا: ”نعم العبد“ کیا ہی خوب بندہ ہے۔) اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت کے قیام کے متعلق بھی یہی فرمایا گیا: “نعم العبد (کیا ہی خوب بندہ ہے۔) پس! جب

رحمان کی رضا حاصل ہو گئی تو فقر سلیمان، غنائے سلیمان کی مانند ہو گیا۔

میں نے استاذ ابو القاسم القشیری سے سنا

“لوگوں نے فقر اور غناء کے بارے میں کافی گفتگو کی ہے اور ہر کسی نے اپنے لیے کسی ایک کو اختیار کیا ہے، لیکن میں اپنے لیے وہی انتخاب کرتا ہوں جسے حق تعالیٰ نے میرے لیے منتخب کیا ہے۔ وہ مجھے ہر مقام پر محفوظ رکھے، کہ اگر وہ میرے لیے امیری پسند کرے تو میں غافل و تارک نہ ہو جاؤں ، اور اگر وہ میرے لیے فقیری پسند کرے تو میں لا لچی اور باغی نہ ہو جاؤں۔“

پس اغناء ایک نعمت ہے جس میں غفلت ایک آفت و مصیبت ہے، اور فقر بھی ایک نعمت ہے جس میں حرص ایک آفت ہے۔ در حقیقت فقر اور غناء دونوں نیک اور ایک ہیں۔ بس ان میں یہ ہمارا طرز عمل ہے جو اختلاف کا باعث ہے۔ فقیری، غیر سے دل کا فارغ ہونا ہے ،جب کہ امیری غیر کے ساتھ مشغول ہوتا ہے۔ جب فراغت حاصل ہو گئی تو نہ فقر، غناء سے افضل ٹھہرا، اور نہ غناء ہی فقر

سے بہتر ثابت ہوا۔

صوفی کی صفات بیان کرتے ہوئے حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں۔

صوفی وہ ہے کہ جب ہوتا ہے تو اُس کا کلام اُس کے حال کی حقیقت بیان کرتا ہے۔ صوفی وہ نہیں کہتا، جو وہ نہیں ہوتا (صوفی کی گفتگو قیل و قال نہیں بلکہ حال ہوتی ہے)۔ جب وہ خاموش ہوتا ہے تو اس کے معاملات اس کے حال کی ترجمانی کرتے ہیں اور دنیا داری سے لا تعلقی اُس کے حال کو بیان کرتی ہے۔ مراد یہ کہ اُس کی گفتار صحیح بنیاد پر استوار ہوتی ہے اور اُس کا کردار تمام تر تجرید ہوتا ہے (یعنی اس کا کر دار دنیا کی آلودگی سے مکمل پاک ہوتا ہے)۔ جب وہ کلام کرتا ہے تو اُس کا قول سر اسر حق ہوتا ہے اور

جب وہ خاموش ہوتا ہے تو اس کا عمل سر تا پا فقر ہوتا ہے۔

جنید بغدادی کہتے ہیں:

تصوف وہ صفت ہے جس کے ساتھ بندے کو قیام ہے۔

ذُوالنون مصری فرماتے ہیں

صوفی وہ ہے کہ جب کلام کرے تو اُس کے کلام سے حقائق

واضح ہوں اور جب وہ خاموش ہو تو اُس کے وجود کا انگ انگ

علائق دنیا (دنیاداری) سے قطع تعلقی کا اعلان کرے۔

کسی نے اس عربی شعر میں کیا خوب کہا ہے

شمس و قمر کی روشنی جب باہم مل گئی تو ان کے

ملنے سے صفائے محبت اور توحید کی مثال بن گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(جاری ہے)

Facebook Comments

محمد ثاقب
محمد ثاقب ذہنی صحت کے ماہر کنسلٹنٹ ہیں جو ہپناتھیراپی، لیڈرشپ بلڈنگ، مائنڈفلنس اور جذباتی ذہانت (ایموشنل انٹیلیجنس) کے شعبوں میں گذشتہ دس برس سے زائد عرصہ سے کام کررہے ہیں۔ آپ کارپوریٹ ٹرینر، کے علاوہ تحقیق و تالیف سے بھی وابستہ ہیں اور مائنڈسائنس کی روشنی میں پاکستانی شخصیات کی کامیابی کی کہانیوں کو دستاویزی شکل دے رہے ہیں۔ معروف کالم نگار اور میزبان جاوید چودھری کی ٹرینرز ٹیم کا بھی حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply