جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملہ/ ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

جعفر ایکسپریس پر دہشت گرد حملہ پاکستان کی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور ملکی سیکیورٹی پالیسیوں کی آزمائش کی ایک بڑی مثال ہے۔ یہ سانحہ جہاں سیکیورٹی کی کمزوریوں کو نمایاں کرتا ہے وہیں سیکیورٹی فورسز کی بہادری اور قربانیوں کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس جب بولان کے علاقے میں پہنچی تو دہشت گردوں نے ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا کر ٹرین کو روک دیا اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ اس حملے میں ٹرین ڈرائیور زخمی ہوگیا لیکن اس نے حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹرین کو واپس سرنگ میں لے جانے کی کوشش کی، مگر دہشت گردوں نے ٹرین کو چاروں طرف سے گھیر کر تقریباً 400 مسافروں کو یرغمال بنا لیا۔
اس واقعے کے بعد پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپریشن شروع کیا، جس کے نتیجے میں اب تک 155 یرغمالیوں کو بحفاظت بازیاب کرا لیا گیا اور 27 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ آپریشن میں احتیاط کی جا رہی ہے کیونکہ دہشت گردوں نے خودکش بمباروں کو عورتوں اور بچوں کے قریب بٹھا رکھا ہے تاکہ انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کیا جا سکے۔
یہ سوال اٹھتا ہے کہ جعفر ایکسپریس جیسی اہم ٹرین کو چلانے سے پہلے سیکیورٹی اقدامات کیوں نہیں کیے گئے؟
کیا انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اس حملے کی پیشگی اطلاع نہیں ملی تھی؟
خواتین اور بچوں کو یرغمال بنانے کی روش کو روکنے کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جا سکتی ہے؟
گورنر سندھ نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے غیر معمولی بہادری کا مظاہرہ کیا اور سینکڑوں مسافروں کی جانیں بچائیں۔ مسافروں نے بھی پاک فوج اور ایف سی اہلکاروں کی تعریف کی کہ انہوں نے اپنی جان پر کھیل کر انہیں بچایا۔ اس واقعے کے بعد راولپنڈی ریلوے اسٹیشن پر ہیلپ ڈیسک قائم کی گئی تاکہ متاثرہ افراد کے متعلق معلومات فراہم کی جا سکیں۔
یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ پاکستان کو اپنی سیکیورٹی پالیسی میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
تمام مسافر ٹرینوں کے ساتھ سیکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی یقینی بنائی جائے۔
دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے جدید انٹیلیجنس سسٹم متعارف کرایا جائے۔
دہشت گرد حملوں کے دوران عوام کو محفوظ رہنے کے لیے ضروری تدابیر سکھائی جائیں۔
دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت کارروائی کی جائے، ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مؤثر اور فوری اقدامات کیے جائیں۔
یہ سانحہ ایک بڑا قومی المیہ ہے، جس میں معصوم جانوں کا نقصان ہوا۔ اس واقعے سے سبق حاصل کر کے سیکیورٹی پالیسیوں میں ایسی تبدیلیاں لانا ضروری ہیں جو مستقبل میں ایسے کسی بھی حملے کو روک سکیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی
*رحمت عزیز خان چترالی کا تعلق چترال خیبرپختونخوا سے ہے، اردو، کھوار اور انگریزی میں لکھتے ہیں۔ آپ کا اردو ناول ''کافرستان''، اردو سفرنامہ ''ہندوکش سے ہمالیہ تک''، افسانہ ''تلاش'' خودنوشت سوانح عمری ''چترال کہانی''، پھوپھوکان اقبال (بچوں کا اقبال) اور فکر اقبال (کھوار) شمالی پاکستان کے اردو منظر نامے میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں، کھوار ویکیپیڈیا کے بانی اور منتظم ہیں، آپ پاکستانی اخبارارت، رسائل و جرائد میں حالات حاضرہ، ادب، ثقافت، اقبالیات، قانون، جرائم، انسانی حقوق، نقد و تبصرہ اور بچوں کے ادب پر پر تواتر سے لکھ رہے ہیں، آپ کی شاندار خدمات کے اعتراف میں آپ کو بے شمار ملکی و بین الاقوامی اعزازات، ورلڈ ریکارڈ سرٹیفیکیٹس، طلائی تمغوں اور اسناد سے نوازا جا چکا ہے۔ کھوار زبان سمیت پاکستان کی چالیس سے زائد زبانوں کے لیے ہفت پلیٹ فارمی کلیدی تختیوں کا کیبورڈ سافٹویئر بنا کر عالمی ریکارڈ قائم کرکے پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کرنے والے پہلے پاکستانی ہیں۔ آپ کی کھوار زبان میں شاعری کا اردو، انگریزی اور گوجری زبان میں تراجم کیے گئے ہیں، اس واٹس ایپ نمبر 03365114595 اور rachitrali@gmail.com پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply