ہمارے ہاں انگریزی کا لفظ لیجنڈ یعنی داستان کی حد تک معروف, بالکل ہی درست استعمال نہیں ہوتا یعنی ہر اس شخص کو جو آپ کو یا کچھ کو پسند ہو لیجنڈ بلکہ لیونگ لیجنڈ یعنی حیات داستانی کردار قرار دے ڈالتے ہیں۔
ہاں البتہ عبدالستار ایدھی، ڈاکٹر ادیب رضوی، فیض احمد فیض جیسے لوگوں کو داستانی حیثیت دینا غلط نہ ہوگا۔ اسی طرح کئی شخصیات ہیں جنہیں قریب قریب لیجنڈ کہہ دیا جائے تو حرج نہیں ہوتا ویسے ایسا کہنے سے لگتا ہے کہ ان کے فنا ہونے کی دعا کی جا رہی ہو اسی لیے میں اپنی ایک پسندیدہ شخصیت سرمد صہبائی کو زندہ داستانی کردار نہیں کہوں گا۔
ان کی شاعری تو باکمال ہے ہی لیکن ڈرامہ نویسی اور نثر نگاری میں بھی ہمیشہ منفرد رہے ہیں مگر انفرادیت کو برقرار رکھنے یا منفرد مانے جانے کی غرض سے اس ناول میں کچھ سماجی حدود سے تعرض کھٹکتا ہے۔ یہ میں سرمد بھائی کا انگریزی میں لکھا اور کینیڈا میں چھپا ناول Blessed Curse پڑھ کے لکھ رہا ہوں۔
دیکھیے ہئیت مقتدرہ یعنی اسٹیبلشمنٹ کے مذموم کردار / اگر ایسا ہے، سے تنفر تو کسی بھی حساس، محب وطن، ملک دوست اور انسانیت کی بھلائی کے خواہاں فرد کا ایک فطری ردعمل ہوتا ہے۔ اس کے علانیہ یا خفی اظہار کا نہ صرف اسے حق ہوتا ہے بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اس کا فریضہ ہوتا ہے ایسا کرے۔
ملک میں رہتے ہوئے علامتی طور پر سب سے پہلے ایسا اظہار قابل احترام و تعظیم ڈاکٹر انور سجاد مرحوم نے ضیاءالباطل کے عہد میں بستے ہوئے ناول ” خوشیوں کا باغ ” رقم کر کے کیا تھا، ناول پہلے بھارت میں شائع ہو سکا تھا اور آمر کے قتل کے بعد ملک میں بھی شائع ہوا۔
بہت عرصہ بعد میرے مرغوب نثر نگار اور تجزیہ گو محمد حنیف نے A Case Of Exploding Mangoes کے عنوان سے علامتی ناول لکھا جو پہلے انگلستان سے چھپا، پھر ہمارے ہاں بھی شائع ہوا لیکن جب سید کاشف رضا نے اس کا اردو ترجمہ کیا تو قومی زبان میں شائع شدہ ناول کے شائع شدہ سارے نسخے نامعلوم افراد نے دکانوں سے اٹھوا لیے۔
سرمد بھائی کا ناول بھی علامتی ہے، کردار علامتی ہیں ماحول حقیقی۔ پیر نور گنجو کی خواہش مندی، بے بسی، مایوسی سبھی کو بہت اچھی طرح مندرج کیا ہے۔ فوج کے سربراہ اور انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ کو جس طرح بیان کیا گیا وہ پرویز مشرف اور اس دور کے ایجنسی چیف ہیں لیکن پڑھتے ہوئے جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید ذہن میں آتے ہیں شاید صرف میرے ہی ذہن میں۔
سینیمیٹو گرافک انداز میں لکھے گئے اس ناول میں انگریزی ادق بھی ہے اور بہت سے مقامات پر بازاری بھی جسے آپ عوامی یا سلینگ کہہ لیں تو بھی غلط نہ ہوگا اور بہت سے الفاظ اور فقرے اردو یا پنجابی میں بھی ہیں۔ کہیں کھٹکتے ہیں کہیں نہیں، بلاشبہ یہ میرا ذاتی احساس ہے۔
سرمد صہبائی نے ایک اصلاح Erecto-imperialism وضع کی ہے یعنی مبنی بر ایستادگی عضو تناسل سامراج کہ ناول کے تین بڑے کرداروں کا مطمع Hedonism یعنی تعیش پرستی ہے اور جیسے ہمارا ایک مرحوم دوست کہا کرتا تھا کہ دنیا بلکہ کائنات کی اہم ترین شے ” کھپا ” یعنی ہول مطلب سوراخ ہے ویسے اس ناول میں اہم ترین قضیب یعنی پینس کو گردانا گیا ہے۔
کہتے ہیں کہ ہر ناول میں کچھ اپنا آپ بھی شامل ہوتا ہے تو مجھے نہ ہوتے ہوئے بھی سرمد بھائی ان کرداروں کے بیچ بیٹھے خاص انداز سے سگریٹ پیتے، گلاس اٹھاتے، گاہے سنجیدہ رہتے گاہے معنی خیز انداز میں مسکراتے اس خیال میں شمولیت کرتے دکھائی دیے۔
جو بات بالکل غیر ضروری رہی وہ یہ کہ گنجو کی قبر سے ابھرے مہیب قضیب کو راکٹ بنا کے انہوں نے اس کا رخ بعد از قیامت جہان کی جانب کر دیا، مستزاد یہ کہ عزرائیل اور اسرافیل علیہ الصلاتہم کو ماڈرن اینکر پرسن بنا کے پوڈکاسٹنگ میں مصروف بیان کیا گیا۔
کروڑوں مسلمانوں کے لیے قرآن کی رو سے تمام انبیاء ، الہامی کتب اور ملائکہ کو تسلیم کیا جانا اور قدر کرنا جزو ایمان ہے اور استہزاء کرنے والوں کو قرآن نے مطئون کیا ہے بلکہ کڑی سزا دیے جانے کی بار بار گواہی دی گئی ہے۔
سرمد بھائی مجھے پیارے ہیں اور میں ان کو موجود لکھنے والوں میں اپنے لیے چند ایک قابل قدر افراد میں جگہ دیتا ہوں، شکر ہے وہ امریکا میں مقیم ہیں اور دوسرا شکر یہ کہ پاکستان میں مولویوں کو انگریزی نہیں آتی اور اگر معدودے چند کو آتی بھی ہے تو وہ انگریزی کتابیں خاص طور پر انگریزی ناول کہاں پڑھتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں