• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (پہلی قسط) – کامریڈ فاروق بلوچ

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (پہلی قسط) – کامریڈ فاروق بلوچ

عہدِ انقلاب

ادب کا سب سے بلند منصب محض جمالیاتی اظہار نہیں، بلکہ اس کا بنیادی فریضہ یہ ہے کہ وہ فکر کے دھاروں کو ایک دوسرے کے مقابل لا کر انسانی ذہن کو نئے سوالات اور نئے امکانات سے روشناس کرائے۔ اقبال کی نظم “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” بظاہر ایک شعری مکالمہ ہے، مگر حقیقت میں یہ استعمار، جمہوریت، اشتراکیت، مذہب، اور سرمایہ داری جیسے متصادم نظریات پر ایک گہرا فکری تبصرہ ہے

یہ نظم 1936 میں لکھی گئی— جب پہلی جنگِ عظیم کے بعد دنیا ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی تھی، مگر یہ عہد استحکام کا نہیں، بلکہ انتشار، شکستگی اور بےیقینی کا تھا۔ پرانی سلطنتیں بکھر چکی تھیں، مگر نئی سرحدیں ابھی مکمل واضح نہ تھیں۔ یورپ میں قوم پرستی نے جنم لیا، ورسیلز معاہدے نے فاتحین کی تسکین اور مفتوحین کے اضطراب کو مہمیز دی، اور دنیا ایک ایسے عالمی نظام کی تلاش میں سرگرداں رہی جس میں جنگ کا اعادہ نہ ہو—مگر یہ تلاش خود ایک نئے تصادم کی بنیاد بن گئی۔

1929ء کی معاشی کساد بازاری نے سرمایہ دارانہ نظام کو لرزا دیا، ادھر سوویت یونین میں اشتراکی معیشت کا تجربہ ایک نئے ماڈل کے طور پر ابھرا، اور دوسری طرف فاشزم نے یورپ میں اپنی جڑیں مضبوط کر لیں۔ ہٹلر اور مسولینی نے مغربی جمہوریت کے کھوکھلے وعدوں کو چیلنج کیا، اور جرمنی، اٹلی، اور جاپان کی عسکریت پسندی نے دنیا کو ایک اور جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔ نظم مذکورہ کی ابتداء کا ایک شعر یوں ہے کہ:

“کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں”

اسی دوران، تہذیب و تمدن کی زمین بھی ہل چکی تھی۔ جدیدیت (Modernism) نے ادب، فن، اور فلسفے میں اپنے نقوش ثبت کیے۔ ٹی ایس ایلیٹ، جیمز جوائس اور ورجینیا وولف نے ایک ایسی دنیا کو قلم بند کیا جو جنگ کی ہولناکیوں سے نڈھال تھی۔ نوآبادیاتی دنیا میں آزادی کی تحریکیں شدت اختیار کر رہی تھیں؛ ہندوستان میں گاندھی کا عدم تشدد، ترکی میں اتاترک کی اصلاحات، اور مصر میں سامراج مخالف جذبات نے ایک نئے عالمی منظرنامے کی بنیاد رکھ دی۔ مگر ان تمام تبدیلیوں کے باوجود، تاریخ کی تحریر میں لہو کی روشنائی شامل ہونا ابھی باقی تھی۔ نظم میں ایج ابلیسی مشیر کے مکالمے کا شعر یوں ہے کہ:

“اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام”

1939ء میں جرمنی کے پولینڈ پر حملے کے ساتھ ہی وہ شعلہ بھڑک اٹھا، جس کے انگارے 1918ء سے دبی چنگاریوں کی صورت میں موجود تھے۔ دنیا نے پہلی جنگ سے کوئی سبق نہ سیکھا تھا، سو اب تاریخ ایک بار پھر خود کو دہرانے کو تھی—اور اس بار قیمت کہیں زیادہ بھیانک ہونے والی تھی۔ اقبال کی نظم مذکورہ کی ابتدائی اشعار میں ایک ہوں ہے کہ

“اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں”

یہ پس منظر اقبال کی نظم کو محض ایک شعری کاوش کے بجائے ایک فکری مکالمہ بناتا ہے۔ لیکن یہ مکالمہ، اپنی ساخت میں، بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف پرولتاریہ کے مقدمے کو مکمل طور پر بیان نہیں کرتا بلکہ ایک نیم مذہبی، نیم اخلاقی، اور نیم سیاسی بیانیے کے اندر رہ کر مزاحمت کی ایک مبہم تصویر پیش کرتا ہے۔

یہ مضمون اس نظم کے بنیادی نکات کو مارکسی تنقید کی روشنی میں جانچنے کی کوشش کرے گا، اور یہ واضح کرے گا کہ جہاں اقبال سرمایہ داری کے بعض پہلوؤں پر گہری تنقید کرتے ہیں، وہیں وہ اس کے حقیقی متبادل کے طور پر پرولتاریہ کی سیاسی و معاشی آزادی کو پیش نہیں کرتے۔

ابلیس بطور نظام: استعاراتی یا حقیقی قوت؟

اقبال کی نظم میں ابلیس محض ایک مذہبی شخصیت نہیں، بلکہ وہ ایک استحصالی نظام کی علامت ہے۔ اس کے مکالمے پڑھنے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ دنیا میں طاقت، سیاست، معیشت، اور سماجی کنٹرول کے تمام پہلوؤں کو ایک خاص نقطۂ نظر سے دیکھ رہا ہے:

“میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں”

یہاں اقبال سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں کے پیچھے چھپی ہوئی سازشوں کو ابلیس کی حکمتِ عملی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ لیکن مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو یہ ایک بنیادی مغالطہ ہے۔ سرمایہ داری کا استحصال کسی شیطانی قوت کی سازش کا نتیجہ نہیں، بلکہ یہ خود ایک سماجی اور تاریخی عمل ہے، جو مادی تضادات کے تحت پیدا ہوتا ہے۔

مارکسی نقطۂ نظر سے سماج کی ساخت طبقاتی کشمکش سے تشکیل پاتی ہے، اور سرمایہ داری اس کشمکش کا ایک مخصوص مرحلہ ہے۔ یہاں کوئی ماورائی ابلیس نہیں جو دنیا کے سیاسی نظاموں کو کنٹرول کر رہا ہو—بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کس طبقے کے ہاتھ میں طاقت ہے، اور وہ اسے کیسے استعمال کر رہا ہے۔

اقبال کے یہاں سرمایہ داری کی تشریح میں یہ مسئلہ موجود ہے کہ وہ اسے محض ایک خارجی سازش کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ مارکسی نقطۂ نظر سے یہ نظام انسانی محنت کے استحصال اور ذرائع پیداوار پر قبضے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے، نہ کہ کسی شیطانی منصوبہ بندی کے نتیجے میں۔

جمہوریت: استحصال کی نئی شکل یا عوام کی آزادی؟

اقبال کی نظم میں جمہوریت پر شدید تنقید کی گئی ہے:

“ہوں مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو کیا اس سے خطر
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر”

یہ تنقید جزوی طور پر درست ہے، کیونکہ مغربی جمہوریت بنیادی طور پر بورژوا جمہوریت ہے، جہاں طاقت اور فیصلے چند سرمایہ داروں اور اشرافیہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ لیکن اقبال یہاں یہ وضاحت نہیں کرتے کہ اس کے متبادل کے طور پر وہ کیا نظام چاہتے ہیں۔

مارکسی نقطۂ نظر سے جمہوریت کی دو بنیادی شکلیں ہوتی ہیں:
1. بورژوا جمہوریت – جس میں بظاہر عوام کو ووٹ کا حق دیا جاتا ہے، مگر اصل اختیار سرمایہ دار طبقے کے پاس رہتا ہے۔
2. پرولتاریہ کی آمریت – جس میں مزدور طبقہ اقتدار اپنے ہاتھ میں لے کر ذرائع پیداوار پر قابض ہوتا ہے، اور سرمایہ داری کو ختم کرتا ہے

اقبال سرمایہ داری اور جمہوریت کے تضاد کو محسوس کرتے ہیں، مگر وہ اس سے آگے نہیں بڑھتے۔ ان کی تنقید محض اس سطح تک محدود رہتی ہے کہ مغربی جمہوریت ایک فریب ہے، لیکن وہ یہ نہیں بتاتے کہ پرولتاریہ اور محنت کش عوام کی حقیقی نجات کس میں ہے۔ اس کے برعکس، مارکس، اینگلز، اور لینن یہ واضح کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت کا اصل متبادل ایک ایسا نظام ہے جس میں پرولتاریہ ریاستی طاقت پر قابض ہو کر استحصالی طبقے کو ختم کرے، اور ایک غیر طبقاتی سماج کی بنیاد رکھے۔

مذہب اور تقدیر کا مسئلہ: استحصال کی نظریاتی بنیاد

اقبال کی نظم میں ابلیس اپنے ایک مشیر کے ذریعے کہتا ہے:

“میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے مجبوروں کو سمجھایا مزاجِ کار کا”

یہاں ایک گہرا نکتہ بیان ہوا ہے: مذہب کو اکثر مظلوم اور پسے ہوئے طبقات کے ذہن کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ شاعرِ نظم کے بقول:

“ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعئ پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام”

مارکس نے اسی حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا تھا:
“مذہب مظلوم کی آہ ہے، بے دلوں کا دل ہے، اور ایک بے روح صورتِ حال کی روح ہے۔ یہ عوام کے لیے افیون ہے۔”

اقبال یہاں اس نکتے کو محسوس تو کرتے ہیں، مگر وہ اٗس وقت کے مذہب کو مکمل طور پر ایک استحصالی ہتھیار کے طور پر رد نہیں کرتے۔ وہ خود مذہب کے احیاء کی بات کرتے ہیں، مگر یہ واضح نہیں کرتے کہ وہ مذہب کو ایک سیاسی قوت کے طور پر دیکھ رہے ہیں یا محض ایک روحانی تحریک کے طور پر۔

مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو مذہب کو ذاتی عقیدے کے طور پر اپنانا چاہیے، مگر جب اسے ریاستی طاقت، سیاست، اور معیشت کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے، تو یہ استحصالی قوتوں کا ایک ہتھیار بن جاتا ہے۔

نتیجہ: پہلے مکالمے کا خلاصہ

1. اقبال کی نظم میں ابلیس کو ایک ماورائی سازش کار کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جبکہ حقیقت میں سرمایہ داری ایک تاریخی عمل کا نتیجہ ہے، نہ کہ کسی خارجی شیطانی قوت کی سازش۔

2. اقبال مغربی جمہوریت پر تنقید تو کرتے ہیں، مگر وہ پرولتاریہ کی آمریت کے نظریے تک نہیں پہنچتے۔
3. اقبال یہ تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب کو استحصال کے لیے استعمال کیا گیا، مگر وہ خود مذہب کے سیاسی استعمال کی حمایت بھی کرتے ہیں، جو ایک فکری تضاد ہے۔

julia rana solicitors london

یہ پہلی قسط اس بحث کو ابتدائی فکری بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اگلی قسط میں ہم پرولتاریہ کے نقطۂ نظر سے اقبال کے متبادل نظام کا تجزیہ کریں گے، اور امت مسلمہ کے تصور کو مارکسی تنقید کی روشنی میں دیکھیں گے۔
جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply