ہمارے کلچر کا بڑا حصہ زبان سے نکلنے والے فنون لطیفہ جیسے شاعری، ڈراما، تبلیغ اور داستان گوئی سے تعلق رکھتا ہے۔ ڈیجیٹل الفاظ اور جملوں سے پرے ادب کی ایک پوری الگ دنیا موجود ہے۔ ہم ادب کو اسلوب اور اپج، گہرائی اور موزونیت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہمارا ادبی فہم، زبان کے مجموعی تاثر نہ کہ جزوی الفاظ پر مبنی ہوتا ہے۔ ہومر کی اوڈیسی یا ایلیٹ کی ویسٹ لینڈ جیسی نظموں میں ایک انسانی شخصیت جیسے اوصاف ہوتے ہیں۔ ہمارے دماغ کا ایک بڑا حصہ سماجی روابط سے متعلق ہے جس میں دوسرے لوگوں سے میل جول اور سماجی حلقوں میں رہنا سیکھنا شامل ہے۔ دماغ اور اعلیٰ حیوانات کے سماجی گروہ کے حجم میں دیکھی جانے والی ہم بستگی (کوریلیشن) اس امکان کو جگہ دیتی ہے کہ بڑے دماغ کا ارتقاء بنیادی طور پر سماجی مسائل سے نمٹنے کیلئے ہوا ہے۔ دوسروں کو اپنے جیسا سمجھنے کی ہماری صلاحیت بطور سماجی حیوان ہمارے وجود کا بنیادی جزو ہے۔
کمپیوٹر انجینئر ڈینی ہیلیس نے پچیس سال پہلے (1988 میں) ایک خوشگوار مفروضہ پیش کیا جس کا عنوان تھا ’’ذہانت بطور ایک ایمرجنٹ رویہ یا جنت کی موسیقی‘‘۔ وہ ایک کہانی سناتا ہے تاکہ یہ بتائے کہ انسان کے ارتقاء میں موسیقی، قوت گویائی سے پہلے کیسے پیدا ہوئی ہوگی۔ وہ کہتا ہے، ’’پچیس لاکھ سال پہلے کا ذکر ہے کہ زمین پر سیدھا چلنے والے بندر رہتے تھے۔ نوجوان بندر، جیسا کہ آج بھی ہیں، دوسروں کی نقل کرنے کا رجحان رکھتے تھے۔ خاص طور پر وہ آوازوں کی نقل کرتے تھے۔ آوازوں کے کچھ سلسلے زیادہ دہرائے جانے لگے جنہیں میں گانوں سے عبارت کروں گا۔ یہ گانے باقی بچ گئے، ان میں بہتری آئی اور انکا ایک دوسرے سے مقابلہ ہوا اور مخصوص بقاء کے قانون کے تحت ان میں سے بہترین گانے باقی رہ گئے۔ گانوں کے مابین مقابلے کی ایک کامیاب ترکیب یہ تھی کہ کسی گانے میں ایسی شے ڈھونڈی جائے جس سے اس کو دہرایا جا سکے۔ جب گانوں میں اختصاص پیدا ہوگیا تو ایک بندر دوسروں کے گانے پر توجہ دینے اور مختلف گانوں میں فرق کرنے کے قابل ہوگیا۔ ایک گانے کو سن ایک چالاک بندر مفید معلومات نکال سکتا تھا۔ گانوں کا فائدہ اٹھانے کے قابل ہونے کے بعد ان میں باہمی مفاد کا رشتہ قائم ہونے لگا۔ مفید معلومات کے تبادلے کے ذریعے گانوں نے انکے بقا کو بہتر بنایا۔ یوں انہوں نے گانے یاد رکھنے، دہرائے جانے اور انہیں سمجھنے سے اپنے بقا کو بہتر کیا۔ ارتقاء نے بندروں اور گانوں کے مابین شراکت داری کو جنم دیا جو باہمی مفاد کی بدولت مزید مضبوط ہوئی۔ بالآخر یہ شراکت داری پروان چڑھی اور دنیا کا سب سے کامیاب جیون یعنی انسان بنا۔ ‘‘
ڈینی ہیلیس کی یہ داستان ہوسکتا ہے سچ نہ ہو لیکن یہ انسانی ارتقاء کے دو اہم اسرار کا اخفاء کرتی ہے جنہیں کسی اور طرح سمجھنا کافی مشکل تھا۔ ہم موزارٹ اور بیتھوون تک کیوں ارتقاء کر گئے؟ اور یونہی ہم شیکسپئیر اور سوفوکلیس تک کیوں ترقی کر گئے؟ ایسا لگتا ہے کہ ہم میں موسیقی بنانے اور اسکو سراہنے کی عظیم صلاحیت پائی جاتی ہے اور اس سے بڑھ کر کلام کی وضاحت اور اس سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت ہے جو ابتدائی ارتقاء کے ماحول میں زندہ رہنے کی ضرورت تھی۔ ہیلیس، موزارٹ اور بتھوون کے ارتقاء کی وضاحت میں پہلا ارتقاء موسیقی سے کرتا ہے جس میں گانے ایک دوسرے سے موسیقاری کی بنیاد پر تقابل کرتے تھے۔ وہ شیکسپئیر اور سوفوکلیس کی وضاحت کیلئے کہتا ہے کہ موسیقی کے بعد گفتار کا ارتقا ہوا جس میں گانوں میں تقابل معنی کی بنیاد پر ہوا۔ ایک گانا معنی کے ساتھ ملکر کلام بنتا ہے۔ گانے کا معیار، کلام کے معیار میں ڈھل جاتا ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ بیانیہ اس دلچسپ حقیقت کی وضاحت کرتا ہے کہ ماضی قریب میں درختوں سے اترنے والے بندر عظیم موسیقار اور شاعر بن سکے۔ عظیم فنون لطیفہ کا ارتقاء موسیقی اور شعریت کے معیار پر مبنی ہے نہ کہ سروں اور حروف کی ڈیجیٹل زبان پر مبنی ہے۔
میری تجویز ہے کہ دماغ بنیادی طور پر اینالوگ مشین ہے جس کے کچھ حصے ڈیجیٹل پراسیس کے لئے مختص ہیں۔ جیسا کہ بعض اوقات ٹیلی ویژن پر بیٹھے پنڈتوں کی طرف سے دعویٰ کیا جاتا ہے، یہ سچ نہیں ہے کہ دماغ کا بایاں نصف کرہ ڈیجیٹل جبکہ دایاں نصف کرہ اینالوگ ہے۔ یہ بظاہر سچ لگتا ہے کہ زیادہ تر ڈیجیٹل عمل بائیں نصف کرے میں ہوتا ہے لیکن دونوں نصف کروں میں محنت کی تقسیم کے بارے ابھی تک زیادہ تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔
چھٹا حصہ: اینڈیکوٹ ہاؤس کی ملاقات
بتیس سال پہلے مئی 1981 میں اینڈیکوٹ ہاؤس میں ہماری ایک ملاقات ہوئی۔ یہ ایک کلب ہاؤس ہے جو کیمبرج امریکہ کی مشہور جامعہ ایم آئی ٹی کی ملکیت ہے۔ اس ملاقات میں کمپیوٹر کے مستقبل پر بات ہوئی۔ یہ ملاقات ٹوم ٹوفولی نے منعقد کی اور اس میں بڑے ذہین لوگ جیسے ڈینی ہیلیس، رچرڈ فائن مین ، چارلس بینیٹ اور دو لوگ مارین پیوریل اور آئین رچرڈز جنکا نام میں نے پہلے کبھی نہیں سنا، شامل تھے۔ چارلس بینیٹ نے اپنی نئی دریافت پر بات کی جس کے مطابق توانائی کے ضیاع یا معلومات کے فنا ہونے کے بغیر ڈیجیٹل کمپیوٹنگ کی جاسکتی تھی۔ ہیلیس نے متوازی کمپیوٹنگ پر بات کی اور فائن مین نے کوانٹم کمپیوٹنگ پر بات کی، یہ دو موضوع بعد میں بہت اہمیت اختیار کر گئے۔ لیکن میرے لئے سب سے دلچسپ بات پیوریل اور رچرڈز کی طرف سے سامنے آئی، یہ دونوں اس وقت مینیسوٹا یونیورسٹی میں ریاضی دان تھے۔ انہوں نے ٹھوس ریاضیاتی بنیاد پر ایک تھیورم ثابت کیا کہ اینالوگ کمپیوٹر، ڈیجیٹل کمپیوٹر کے مقابلے میں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ ان کا یہ کام 1981 میں شائع ہوا۔ انہوں نے ایسے اعداد کی مثالیں پیش کیں جنہیں ڈیجیٹل کمپیوٹر سے شمار کرنا ممکن نہیں تھا مگر ایک سادہ قسم کا اینالوگ کمپیوٹر انہیں شمار کرسکتا تھا۔
ایلن ٹیورنگ نے کمپیوٹیبل اعداد کی تعریف یوں کی تھی کہ جو ڈیجیٹل مشین سے شمار کئے جا سکیں۔ لیکن پیوریل اور رچرڈز کے اعداد اینالوگ کمپیوٹر پر شمار ہوتے ہیں ٹیورنگ کمپیوٹر پر نہیں۔ اینالوگ کمپیوٹر مسلسل متغیرات سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ڈیجیٹل کمپیوٹر منفصل اعداد سے متعلق ہے۔ پیوریل اور رچرڈز کا کمپیوٹر ایک کلاسیکی فیلڈ ہے جو زمان و مکان میں مسلسل بہتا ہے اور ایک لینئر لہر مساوات پر عمل کرتا ہے۔ کلاسیکی برقناطیسی میدان جو میکسویل کی مساواتوں کے مطابق بہتا ہے اس کام کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے دکھایا کہ اس فیلڈ کو ایک نقطے پر مرتکز کیا جا سکتا ہے اس طرح کہ اس نقطے پر اسکی شدت کی قیمت کو ڈیجیٹل کمپیوٹر معلوم نہیں کر سکتا لیکن ایک سادہ سی اینالوگ مشین ایسا کرسکتی ہے۔ انہوں نے جو فرضی حالات پیش کئے ان کا حیاتیاتی معلومات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ ان کا تھیورم یہ ثابت نہیں کرتا کہ اینالوگ دماغ، ڈیجیٹل دماغ سے بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن انکا تھیورم اینالوگ دماغ کے مفروضے کو قابل فہم بنا دیتا ہے۔
چارلس بینیٹ نے حال ہی میں مجھے اینڈیکوٹ ملاقات کی تصویر بھیجی ہے جس میں سوائے بینیٹ کے سبھی لوگ موجود ہیں۔ وہ اس تصویر میں نہیں ہے کیونکہ اسی نے یہ تصویر اتاری تھی۔ اس تصویر میں پیوریل اور رچرڈز بھی موجود ہیں۔ ان دو نوجوانوں نے غیر معمولی کام کیا ہے۔ میں نہیں جانتا بعد میں وہ دونوں کہاں گئے۔ مجھے لگتا ہے اس ملاقات میں میرے علاوہ کسی نے انکے کام کو سنجیدہ نہیں لیا۔ انہوں نے اینالوگ کمپیوٹر کے حق میں اسی درجے کا کام کیا تھا جو پنتالیس سال قبل ایلن ٹیورنگ نے ڈیجیٹل کمپیوٹر کیلئے کیا تھا۔ ٹیورنگ نے قابل شمار اعداد پر اپنا کلاسیکی پرچہ 1936 میں شائع کیا تھا جبکہ انھوں نے 1981 میں شائع کیا۔ دونوں پرچوں کو توجہ حاصل کرنے میں کافی وقت لگ گیا۔ میرے بیٹے جارج نے حال ہی میں ” ٹیونگ کا گرجا” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے بتایا کہ ٹیورنگ کے 1936 کے پرچے نے علم و طاقت کی کتنی شاندار عمارت کھڑی کی ہے۔ پیوریل اور رچرڈز کا گرجا ابھی تعمیر ہونا شروع نہیں ہوا۔
سائنسی فکشن نگاروں نے ہمیں ڈیجیٹل اور اینالوگ زندگی کی منظرکشی بہت پہلے ہی پیش کردی تھی جب یہ فیصلہ بھی نہیں ہوا تھا کہ دونوں میں سے کونسا منظرنامہ انسان کو بیان کرنے کے قریب ہے۔ ڈیجیٹل حیات کو متصور کرنے کیلئے سوچیں جیسے ایک انسانی شعور کو ڈیجیٹل کمپیوٹر میں ڈاؤنلوڈ کر دیا جائے جیسا کہ 2001 نامی سٹینلے کیوبرک کی فلم کا کردار ‘ہال’ ہے۔ اینالوگ حیات کیلئے سوچیے جیسے انسانی شعور کو ایک سیاہ بادل میں اپلوڈ کیا گیا ہو جیسا کہ فریڈ ہوئیل کے سائنس فکشن ناول میں بیان ہوا ہے۔ سیاہ بادل ایک اینالوگ مشین ہے جسکی یادداشت ان مقناطیسی میدانوں میں محفوظ ہے جو بادل میں سے گزرنے والے ذرات کی حرکت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہم اینالوگ حیات رکھتے ہیں تو ایک ڈیجیٹل مشین میں شعور کو ڈاؤنلوڈ کرنے سے ہمارے بہت سے لطیف جذبات اور خصائل ضائع ہوجائیں گے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے۔ مجھے ایسا تجربہ کرنے میں کوئی ذاتی دلچسپی نہیں ہے۔ شاید جب وقت آئے گا کہ ہم خود کو ایک سرد کائنات کے مطابق ڈھال لیں گے اور اپنے خون اور جسم کی بے جا عادات چھوڑ دیں گے تو ہمیں چاہیئے ہوگا کہ خود کو سیاہ بادلوں میں اپلوڈ کردیں نہ کہ سیلیکون کی چپس میں ڈاؤنلوڈ کریں۔ اگر مجھے موقع ملتا تو میں ہر بار سیاہ بادل کو ترجیح دیتا۔
ساتواں حصہ: فطرت کے فہم میں ریاضی کا استعمال
میں آج مقداری حیاتیات کے بارے میں بات کرنے والا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاضی حیاتیات کی اسی طرح گہری سمجھ فراہم کر سکتی ہے جس طرح اس نے فزکس کی گہری سمجھ فراہم کی ہے۔ حیاتیات آج اسی تیزی سے اور انقلابی ترقی کی حالت میں ہے، جیسا کہ ایک سو سال پہلے فزکس تھی۔ 1930 میں سر جیمز جینز نے ایک ریڈیو نشریات میں اپنے سامعین کے سامنے اعلان کیا، ”کائنات کا عظیم معمار اب ایک خالص ریاضی دان کے طور پر ظاہر ہونا شروع ہو گیا ہے”۔ جینز ایک ماہر طبیعیات تھے جنہوں نے عام لوگوں کے لیے سائنس کے بارے میں کتابیں لکھیں۔ وہ ریڈیو پر بھی بہت باتیں کرتے تھے۔ وہ انیس سو تیس کی دہائی کا کارل ساگان تھا۔ وہ ایک معروف کلیری ہیو کا موضوع بننے کے لیے کافی مشہور تھا،
سر جیمز جینز
ہمیشہ وہی کہتا ہے جو سوچتا ہے
وہ بالکل سنجیدہ ہے
جب وہ کہتا ہے کہ کائنات پراسرار ہے
جینز،ساگان کی طرح، کبھی کبھی اپنے فقروں کے نشہ جوش میں آ جاتا تھا۔ لیکن وہ بالکل سنجیدہ تھا جب اس نے کہا کہ خدا ایک خالص ریاضی دان ہے اس نے یہ بات ایک سے زیادہ بار کہی۔ اس نے یہ اس لیے کہا کیونکہ وہ ایک طبیعیات دان تھا اور اس لیے کہ اس نے اپنے دور میں طبیعیات کےدو انتہائی حیرت انگیز انقلابات دیکھے تھے یعنی 1915 میں آئن سٹائن کی طرف سے عمومی اضافیت کی دریافت اور 1925 میں ہائزنبرگ اور شروڈنگر کی طرف سے کوانٹم میکانکس کی دریافت کو دیکھا تھا۔ عمومی اضافیت اور کوانٹم میکانکس نے طبیعیات کو ریاضی کی ان گہری سطحوں تک پہنچایا جن کے عملی اطلاقات پہلے کبھی نہیں ملے تھے۔ عمومی اضافیت نے خلا اور وقت کی کائنات کو ایک خمیدہ چار جہتی تسلسل بنا دیا، جسے ڈفرینشل جیومیٹری کی زبان میں بیان کیا گیا۔ کوانٹم میکینکس نے ایٹم کی حالتوں کو ایک لامحدود جہتی پیچیدہ ویکٹر اسپیس بنا دیا، جسے فنکشنل تجزیہ کی زبان میں بیان کیا گیا۔
جہاں انیسویں صدی کی طبیعیات نے فطرت کو ٹھوس ماڈلز کے لحاظ سے بیان کیا جسے کوئی بھی تصور کر سکتا ہے، بیسویں صدی کی طبیعیات نے فطرت کو ریاضیاتی تجرید کے لحاظ سے بیان کیا۔ عمومی اضافیت اور لہر میکانیات کے مرکزی تصورات، ریمان۔کرسٹوفل کا خمیدہ ٹینسر اور شروڈنگر کی لہرمساوات، ایک تجریدی ریاضیاتی دنیا میں موجود تھے، جو مانوس دنیا کی ان چیزوں سے بہت دور ہیں جن کو ہم محسوس کر سکتے ہیں اور چھو سکتے ہیں۔
جینز کی نسل کے طبیعیات دان جو انیسویں صدی میں پروان چڑھے تھے اور بیسویں صدی کے ابتدائی سالوں میں زندہ تھے، یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قدرت انقلابیوں کے ساتھ تھی۔ مشاہدات سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت آئن سٹائن، ہائزنبرگ اور شروڈنگر کی پیش گوئیوں کے مطابق برتاؤ کرتی ہے۔ وہاں ریاضیاتی تجرید کامیاب ہوئی جہاں مکینیکل ماڈل ناکام ہو گئے تھے۔ آئن سٹائن نے کہا، “خالص عقل حقیقت کو سمجھ سکتی ہے، جیسا کہ قدیمیوں نے خواب دیکھا تھا۔ تخلیقی اصول ریاضی میں مضمر ہے”۔ تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت نے حیرت انگیز درستگی کے ساتھ ہائزنبرگ اور شروڈنگر کے تجریدی خیالات کی عکس بندی کی۔ ہم آئن سٹائن کے بارے میں وہی کہہ سکتے ہیں جو بین جونسن نے تین سو سال پہلے شیکسپیئر کے بارے میں کہا تھا،
فطرت کو خود اس کی کارگری پر فخر تھا
اور اس کے فقروں میں ملبوس ہو کر اسے مسرت ملی
لہذا جینز نے نتیجہ اخذ کیاکہ فطرت خالص ریاضی کی دھن پر رقص کرتی ہے کلاسیکی میکانیات کے ڈھول کی دھن پر نہیں۔ اگر آپ فطرت کو گہری سطح پر سمجھنا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک خالص ریاضی دان کی طرح سوچنا چاہیے۔ چونکہ خدا اپنی تعریف کے لحاظ سے فطرت کو ہم سے بہتر سمجھتا ہے، اس لیے اسے بھی ایک خالص ریاضی دان ہونا چاہیے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں