اس ملک کی اشرافیہ کا منافع دراصل ان قرضوں سے آتا ہے جو یہ ہر سال عالمی اداروں ریاستوں سے لیتے ہیں.
جس سال یا چند سال یہ ادارے لیت و لعل کرتے ہیں تو امپورٹ کرنے اور قرض اتارنے کو ڈالر نہیں بچتے تو معاشی عدم استحکام آتا ہے، یہ بحال نہ ہوں تو، حکومتیں بدلتی ہیں. یہ قرضے مل جائیں اور پچھلے قرضوں کو لوٹانے کا عمل، deffer کرنا، بحال ہو جائے تو استحکام لوٹ آتا ہے یعنی اشرافیہ کی تجوریاں پھر بھرنے لگتی ہیں. مہنگائی کا براہ راست تعلق اس عمل سے ہے.
تشریح
یہ پیراگراف علمِ معاشیات کی روشنی میں کرونی کیپٹل ازم /اقربا پرور سرمایہ داری
(Crony Capitalism)
، قرضوں پر مبنی معیشت
(Debt-Driven Economy)
، اور مالیاتی عدم استحکام
(Financial Instability)
جیسے تصورات کو بیان کرتا ہے۔ اس کی تفصیل درج ذیل نکات میں کی جا سکتی ہے:
1. قرضوں پر منحصر معیشت اور اشرافیہ کا منافع
یہ بیان اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ملک کی معاشی اشرافیہ
(Elites)
کا منافع براہ راست عالمی مالیاتی اداروں اور ریاستوں سے حاصل کیے گئے قرضوں پر منحصر ہے۔
یہ قرضے دراصل بجٹ خسارے
(Budget Deficit)
کو پورا کرنے اور کرنٹ اکاؤنٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے لیے جاتے ہیں۔
قرضوں کی دستیابی ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر
(Foreign Exchange Reserves)
میں استحکام پیدا کرتی ہے اور درآمدات کو ممکن بناتی ہے۔
اشرافیہ چونکہ زیادہ تر درآمدات (Imports)
اور ان سے منسلک کاروباروں پر قابض ہوتی ہے، اس لیے قرضے ان کے کاروباری مفادات کو سہارا دیتے ہیں۔
2. قرضوں کے تعطل سے معاشی بحران اور حکومت کی تبدیلی
اگر عالمی مالیاتی ادارے یا ریاستیں نئے قرضوں کی فراہمی میں تاخیر
(Debt Roll-Over Delays)
کریں، تو زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے لگتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں، درآمدات مشکل ہو جاتی ہیں اور حکومت کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے مالیاتی بحران
(Financial Crisis)
کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایسا ہونے پر ملک میں مہنگائی
(Inflation)
اور کرنسی کی قدر میں کمی
(Currency Depreciation)
واقع ہوتی ہے، جس سے عوامی بے چینی بڑھتی ہے اور اکثر سیاسی عدم استحکام (Political Instability)
جنم لیتا ہے۔
نتیجتاً، اگر حکومت قرضے حاصل کرنے میں ناکام رہے، تو اشرافیہ سیاسی تبدیلی (Regime Change)
کی حمایت کرتی ہے تاکہ ایک ایسی حکومت آئے جو ان کے لیے قرضوں کی دستیابی کو یقینی بنائے۔
3. قرضوں کی بحالی سے مصنوعی استحکام
اگر نئے قرضے مل جائیں یا پرانے قرضوں کی ادائیگی کو مؤخر
(Defer)
کر دیا جائے، تو زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوتا ہے اور روپے پر دباؤ کم ہو جاتا ہے۔
اس کے نتیجے میں معاشی استحکام کی عارضی بحالی
(Temporary Economic Stability) ممکن ہو جاتی ہے۔
اس بحالی سے اشرافیہ کو دوبارہ موقع مل جاتا ہے کہ وہ اپنے کاروباری منافع اور نجکاری کے ذریعے وسائل پر قبضہ (Privatization Gains)
جیسے عوامل کے ذریعے دولت میں اضافہ کرے۔
4. مہنگائی اور قرضوں کا تعلق
مہنگائی بنیادی طور پر سپلائی سائیڈ شاکس
(Supply Side Shocks)
اور مانیٹری پالیسی
(Monetary Policy)
سے متاثر ہوتی ہے۔
جب قرضے دستیاب نہیں ہوتے، تو درآمدات رک جاتی ہیں، جس سے ضروری اشیاء کی قلت پیدا ہوتی ہے اور مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔
جب قرضے بحال ہو جاتے ہیں، تو درآمدات جاری رہتی ہیں، روپے پر دباؤ کم ہوتا ہے، اور افراطِ زر کچھ حد تک کم ہو جاتا ہے۔
نتیجہ:
یہ تجزیہ پاکستان جیسے قرضوں پر انحصار کرنے والے ممالک کی معاشی حقیقت کو بیان کرتا ہے، جہاں معاشی استحکام مصنوعی ہوتا ہے اور قرضوں کی دستیابی اشرافیہ کی دولت بڑھانے اور حکومتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے بنیادی عنصر بن جاتی ہے۔
قرضوں پر مبنی معیشت کا یہ ماڈل پائیدار ترقی
(Sustainable Development)
کی بجائے مختصر مدتی استحکام اور استحصالی اقتصادی ڈھانچے (Exploitative Economic Structure) کی عکاسی کرتا ہے۔
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں