پاکستان میں توانائی کے مسائل دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں۔ مہنگی بجلی، گیس کی کمی، اور پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ ایسے میں عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت متبادل ذرائع کو اپنانا شروع کیا، اور سولر سسٹم ان میں سب سے مقبول حل کے طور پر سامنے آیا۔
دیہات ہوں یا شہر، متوسط اور غریب طبقہ اپنے محدود وسائل سے سولر پینلز لگوا کر بجلی کے بلوں سے نجات پانے کی کوشش میں تھا۔ مگر اب حکومت کی طرف سے سولر سسٹم پر ٹیکس لگانے کی جو تیاریاں ہو رہی ہیں، وہ ایک ایسا قدم ہے جو عوام کی امیدوں پر پانی پھیر دے گا۔
یہ وہی عوام ہیں جو پہلے ہی بجلی کے بلوں، مہنگائی، اور بے روزگاری کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ اور ناجائز بلنگ سے تنگ آ کر جس نے جوڑ توڑ کر سولر لگایا، اب اگر اس پر بھی ٹیکس لگایا جائے گا تو وہ کہاں جائے گا؟ یہ اقدام بظاہر ریاست کی آمدنی بڑھانے کے لیے لیا جا رہا ہے، مگر درحقیقت یہ عوام کی کمر توڑنے کے مترادف ہوگا۔
دنیا بھر میں گرین انرجی، قابل تجدید توانائی اور ماحول دوست سسٹمز کو فروغ دینے کے لیے حکومتیں سبسڈی دیتی ہیں، عوام کو سہولتیں دیتی ہیں تاکہ وہ روایتی ایندھن سے ہٹ کر ماحول کو محفوظ بنانے میں کردار ادا کریں۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے۔ جو کام عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا، حکومت اس سے بھی حصہ وصول کرنے پر تل گئی ہے۔
حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ اگر سولر سسٹم جیسی مفید اور ماحول دوست ٹیکنالوجی کو بھی مہنگا کر دیا گیا تو اس کے اثرات صرف عوام پر نہیں، مجموعی قومی معیشت اور ماحول پر بھی پڑیں گے۔ بجلی کی قلت میں اضافہ ہوگا، صنعتوں کو نقصان پہنچے گا، اور ماحولیاتی آلودگی بڑھے گی۔
بجائے اس کے کہ حکومت سولر کے ذریعے اپنی بجلی کی ضروریات پوری کرنے میں عوام کی حوصلہ افزائی کرے، وہ اس پر بوجھ ڈالنے کی تیاریوں میں ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں، ان سے بچا کھچا سکون بھی چھیننے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر ریاست عوام کا درد نہیں سمجھے گی تو آخر کب سمجھے گی؟ عوامی مفاد کے خلاف ایسے فیصلے عوام کے لیے مزید مسائل پیدا کریں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر سولر پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ واپس لے اور عوام کو ریلیف دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں