کیا دماغ اینا لوگ ہے یا ڈیجیٹل؟(4,آخری قسط)-محمد علی شہباز

اب سوال یہ ہے کہ کیا ریاضی حیاتیاتی دنیا کو سمجھنے کے لیے اتنا ہی مفید آلہ ہو سکتا ہے جتنا کہ طبیعیات کی دنیا کو سمجھنے کے لیے رہا ہے۔ بائیولوجی اکیسویں صدی کی غالب سائنس ہوگی، جیسا کہ فزکس بیسویں صدی کی تھی۔ حیاتیات آگے بڑھ رہی ہے جبکہ فزکس سست ہو رہی ہے۔ ہم میں سے جو ریاضی دان ہیں ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ خود کو حیاتیات کی بہادر نئی دنیا کے مطابق ڈھال لیں۔ کیا کائنات کا عظیم معمار ایک خالص ریاضی دان ہی رہتا ہے جب وہ طبیعیات سے حیاتیات کی طرف توجہ دیتا ہے؟

پچھلے بیس سالوں کے دوران، آبادی کی حرکیات کے مطالعہ کے ذریعے دلچسپ ریاضی حیاتیات میں داخل ہوئی ہے۔ سبزی خوروں اور گوشت خوروں، شکاریوں اور شکار، پرجیویوں اور میزبانوں کی آبادیاں مضبوط غیر خطی (نان لینیئر) تعامل کے ذریعے ایک دوسرے کو متاثر کرتی ہیں۔ آبادی پیچیدہ طریقوں سے بڑھتی اور گرتی ہے جسے غیر خطی متحرک مساواتوں کے ذریعہ بیان کیا گیا ہے۔ ان کا رویہ اکثر افراتفری کا شکار ہوتا ہے، اور اسے انتشار (کیووس) کے ریاضیاتی نظریہ کے لحاظ سے سمجھا جا سکتا ہے۔ افراتفری کا نظریہ زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا۔ یہ نظریہ تجزیاتی کے بجائے وضاحتی زیادہ ہے۔ اس میں ڈفرینشل جیومیٹری یا فنکشنل اینالسس جیسی گہرائی نہیں ہے۔ پھر بھی، یہ نظریہ ریاضیاتی طور پر غیر معمولی ہے۔ آبادی کی حیاتیات کے شعبہ میں ریاضی دان اور حیاتیات باہمی احترام کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں۔

گہری ریاضی حیاتیات کے مرکزی دھارے میں داخل نہیں ہوئی ہے جس میں جینز، انزائمز، خلیات، ٹشوز اور مدافعتی نظام کا مطالعہ ہوتا ہے۔ مرکزی دھارے کے ماہر حیاتیات صرف اعداد و شمار کو منظم کرنے اور ڈھانچے کی نقل کرنے کے معمولی کاموں کے لیے ریاضی استعمال کرتے ہیں۔ وہ ڈیٹا پروسیسنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن تھیورمز کو ثابت کرنے میں نہیں۔ کیا اس بات کا کوئی امکان ہے کہ گہرا ریاضی مستقبل میں حیاتیات میں گھس سکتا ہے جیسا کہ اس نے فزکس میں جگہ بنائی ہے؟ مجھے یقین ہے کہ ایک امکان ہے، لیکن یہ امکان اب بھی دور ہے۔ انسانی ذہن اور دماغ کی تفہیم کیلئے حیاتیات میں گہرا ریاضی اہم بن سکتاہے۔ اس لیے میرا راکفیلر یونیورسٹی کو مشورہ ہےکہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ ریاضی فطرت کو گہری سطح پر سمجھنے کے لیے کارآمد رہے تو کوشش کریں کہ اپنے کچھ ریاضی دانوں کی نیورولوجی میں دلچسپی پیدا کریں۔

آٹھواں حصہ: کوانٹم اینالوگ کمپیوٹر

پچھلے تیس سالوں کے دوران کوانٹم کمپیوٹنگ برانڈ نام کے ساتھ ایک بڑی اور نئی کاروباری مہم پروان چڑھی ہے۔ اس مہم کا مقصد معلومات کے تبادلےکے لئے کلاسیکی آن آف سوئچز کے بجائے کوانٹم اسپن کا استعمال کرتے ہوئے عام ڈیجیٹل کمپیوٹرز کے فن تعمیر کی نقل کرنا ہے۔ کوانٹم اسپن کا مطلب ایک ایٹم یا ایٹموں کا مجموعہ ہے جن کی اسپن، کوانٹم میکانکس کے اصولوں کی پابندی کرتی ہے۔ اس طرح سے بنائی گئی مشینیں کوانٹم ڈیجیٹل کمپیوٹرز کہلاتی ہیں۔ کوانٹم ڈیجیٹل کمپیوٹنگ کا ‘مقصد عظیم ‘ شور الگورتھم کو نافذ کرنا ہے۔ اٹھارہ سال پہلے پیٹر شور نے ایک الگورتھم ایجاد کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا جسے ایک کوانٹم کمپیوٹر اصولی طور پر پولی نومئیل وقت میں بڑے صحیح اعداد کے جزو (فیکٹر) بنانے کے لیے استعمال کر سکتا ہے [شور، 1997]۔ “پولی نومئیل وقت” کا مطلب ہے کہ کمپیوٹر کی کارروائیوں کی تعداد مطلوبہ عدد میں ہندسوں کی تعداد کی کچھ طاقت سے کم ہے۔ ایک بڑے صحیح عدد کے اجزاء کی تلاش ایسے کلاسیکی کمپیوٹرز کے لیےانتہائی مشکل مسئلہ ہے جو کوانٹم پروسیس کا استعمال نہیں کرتے۔ یہ عام طور پر مانا جاتا ہے، لیکن یہ ثابت نہیں ہوا ہے، کہ ایک کلاسیکی کمپیوٹر پولی نومئیل وقت میں بڑے اعداد کے اجزاء نہیں نکال سکتا۔ مختلف عوامی کوڈ رکھنے والے خفیہ کاری کے نظاموں کی حفاظت کا انحصار تیزی سے فیکٹرائزیشن کے ناممکن ہونے پر ہے۔ شور الگورتھم ایسے نظاموں کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ لیکن خفیہ کاری کے نظام کا خطرہ اسی صورت میں حقیقی ہوتا ہے جب کوانٹم ڈیجیٹل کمپیوٹرز کی نظریاتی طور پر اعلیٰ طاقت کو حقیقی ہارڈ ویئر میں مجسم کیا جائے۔ کوئی بھی موجودہ مشین اس عظیم مقصد کے قریب نہیں ہے۔

آج کل کی کوانٹم کمپیوٹنگ تقریباً اسی مرحلے پر ہے جو انیسویں صدی کے اوائل میں چارلس بیبیج کے زمانے کی کلاسیکی کمپیوٹنگ تھی۔ بیبیج کے پاس صحیح تصورات تھےلیکن اس کے پاس اپنے تصور کو مفید بنانے کے لیے مادی آلات کی کمی تھی۔ اس نے میکانیکی کلاک ورک سے ایک تجزیاتی انجن بنانے کی کوشش کی، ایک ایسا پروجیکٹ جس نے اس کا وقت، پیسہ اور طاقت کئی سالوں تک خرچ کی لیکن وہ لامحالہ ناکام رہا۔ جب میں لندن میں ابھی لڑکا تھا تو میں سائنس میوزیم میں پڑے شیشے کے کیس میں محفوظ بیبیج کے تجزیاتی انجن کے آثار کو توجہ سے دیکھتا تھا۔ اگر آج ہم کوانٹم کمپیوٹر بنانے کی کوشش کریں تو شاید اس کا حشر بھی ایسا ہی ہوگا۔ آج ہمارے پاس جو کوانٹم آلات دستیاب ہیں وہ بیبیج کے کلاک ورک سے زیادہ بہتر نہیں ہیں۔

میرا سوال ہےکہ کیا ہمارے دماغ یا اس کے کچھ حصےکوانٹم اینالاگ کمپیوٹر ہو سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ امکان سب سے پہلے رچرڈ فین مین نے تجویز کیا تھا۔ خیال یہ ہے کہ دماغ ایک امپلیفائر ہو سکتا ہے جو کچھ خاص مالیکیولز کی کوانٹم حالتوں کے لیے حساس ہو، ایسے مالیکیول جو ایک مالیکیولرمیموری کو تشکیل دیتےہیں، اور دماغ اس سالماتی معلومات کو اس وقت تک بڑھاتا ہے جب تک کہ یہ موٹر نیوران کو حرکت میں لانے کے لیے کافی مضبوط سگنل نہ بن جائے۔ اس طرح دماغ ایگزیکٹیو فیصلوں کو کنٹرول کرنے کے لیے میموری میں کوانٹم جمپس استعمال کرنے کے قابل ہو جائے گا، جو کوانٹم میکینکس کے قوانین کے مطابق سختی سے غیر متوقع ہیں۔ دماغ کوانٹم کی غیر متوقع صلاحیت کو بڑھانے کے لیے ایک آلہ ہو گا تاکہ اختیار کی آزادی حاصل کی جا سکے۔ جیسے ہی میں اپنی ارادے کی آزادی کے بارے میں بات کرنا شروع کرتا ہوں تو میں ایک ایسے فلسفیانہ گھونسلے میں داخل ہو رہا ہوں جس میں بہت سے مشہور مفکرین اور ادیبوں کو ڈنک مارا گیا ہے۔ لیکن میں کوانٹم میکانکس کی تشریح کے بارے میں فلسفیانہ گفتگو کو وقت کا ضیاع سمجھتا ہوں۔ میں ایک عملی سوال پوچھ رہا ہوں جس کا جواب مشاہدے اور تجربے سے دیا جائے نہ کہ فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے ڈھونڈا جائے۔ میں پوچھ رہا ہوں کہ کیا دماغ میں کوئی ایسا ڈھانچہ موجود ہے جو میموری کے مالیکیولز کی کوانٹم حالتوں میں معلومات کو مجسم کرتا ہے، اور ان کوانٹم حالتوں کو ایک ایمپلیفائر سے جوڑتا ہے جو انہیں کلاسیکی نیورولوجیکل سگنلز میں ترجمہ کرتا ہے۔ اگر ایسا ڈھانچہ موجود ہے تو دماغ ایک کوانٹم اینالاگ آلہ ہے اور فلسفی اس بارے میں بحث جاری رکھ سکتے ہیں کہ آیا یہ ہمیں آزاد مرضی دیتا ہے یا نہیں۔

ہمیں تجرباتی طور پر انسانی دماغ کے کام کا مطالعہ کیسے کرنا چاہیے؟ اس کابہترین تجرباتی آلہ شاید ایک انسانی بچہ ہے۔ تین ماہ کے بچے کے سر کے اندر کیا ہوتا ہے؟ جس نے بھی بچے کی پرورش کی ہے وہ مسئلہ جانتا ہے۔ ہم کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ اس چھوٹے سے سر کے اندر کیا ہو رہا ہے؟ یہ کیسے ہوتا ہے کہ وہ چھوٹا سر دو سالوں میں تقریباً بالغ عمر کے سائز اور صلاحیتوں تک پہنچ جائے؟ دو سالوں میں یہ آنکھوں اور کانوں کے اعصابی ان پٹ کی حیران کن قسم کو چھانٹ لیتا ہے، یہ چہروں اور آوازوں کو پہچانتا ہے، یہ گرائمر اور نحو پر عبور رکھتا ہے، یہ اسم اور فعل میں فرق جانتا ہے، یہ سیکھتا ہے کہ بڑوں کی کمزوریوں کا فائدہ کیسے اٹھانا ہے۔

حالیہ برسوں میں، بچوں کی نشوونما کے ماہرین نے چھوٹے سے چھوٹے بچوں کے ساتھ بات چیت کے قابل اعتماد طریقے تلاش کیے ہیں۔ تین ماہ تک کا بچہ جو کچھ دیکھتا ہے اس میں دلچسپی یا عدم دلچسپی کا اظہار کر سکتا ہے۔ اگر بچہ دلچسپی رکھتا ہے، تو وہ اس چیز کی پیروی کرنے کے لیے اپنی آنکھوں کو حرکت دے گا۔ اگر یہ دلچسپی نہیں رکھتا ہے، تو یہ اس چیز کو نظر انداز کرے گا۔ مواصلات کے اس طریقہ کا استعمال کرتے ہوئے یہ ثابت کرنا ممکن ہے کہ بہت چھوٹے بچے پہلے ہی گفتگو اور شور کے درمیان ،معلوم اور انجان آوازوں اور چہروں کے درمیان، مانوس اور ناواقف حروف اور شکلوں کے درمیان فرق بتا سکتے ہیں۔

جیسے جیسے ہم اکیسویں صدی سے گزر رہے ہیں اس بات کا امکان ہے کہ نئے آلات دستیاب ہوں گےجو بچوں کے دماغوں کے زمان ومکاں کو بغیر مداخلت کے سکین کرسکتے ہیں۔ اس صدی کے آخر تک ہمیں اس سوال کا جواب دینے کے قابل ہونا چاہیے کہ بچے کیسے سوچنا شروع کرتے ہیں؟ اس سوال کے جواب کے بعد ہمارے پاس زیادہ مشکل سوالات کے جوابات دینے کا ایک بہتر موقع ہوگا۔ بچے بڑے کیسے ہوتے ہیں؟ بالغوں میں تخیل کہاں سے آتا ہے؟ دماغ کیسے تخلیقی ہوتا ہے؟ موسیقی، شاعری، فن اور سائنس کہاں سے آتے ہیں؟ حال ہی میں درختوں سے اترا ہوا یہ بندر اپنے اور اپنے اردگرد موجود کائنات کے رازوں سے کیسے واقف ہوا؟

Advertisements
julia rana solicitors london

میرا خواب ہے کہ اگلے سو سالوں میں کسی وقت ہم ان سوالات کا جواب دیں گے اور سمجھیں گے کہ دماغ کوانٹم اینالاگ ڈیوائس کے طور پر کیسے کام کرتا ہے۔ تب ہم فطرت کے فن تعمیر کی نقل کر سکیں گے اور خود کوانٹم اینالاگ مشینیں بنا سکیں گے۔ ہم آخر کار مصنوعی ذہانت کے مسئلے کو حل کریں گے جیسا کہ جیمز لائٹ ہل نے اس کی تعریف کی تھی۔ ہم سمجھیں گے کہ ڈیجیٹل مصنوعی ذہانت نے کام کیوں نہیں کیا۔ ہمارے ہاتھ میں ایسی مشینیں بنانے کی طاقت ہوگی جو انسانوں کی طرح سوچیں۔ ایسا ہونے سے پہلے ہمیں بہت سوچنا چاہیے کہ اس طاقت کو برائی کے بجائے بھلائی کے لیے کیسے استعمال کیا جائے۔ (ختم شد)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply