قوم پرستی اور مارکس واد تناظر/عامر حسینی

فوجی اسٹیبلشمنٹ ہو یا تگڑے مرکز کی حامی سیاسی اشرافیہ ہو اور ان کے بھونپو دانشور ، بلاگرز ہوں وہ “بلوچ” باشندوں بلکہ یوں کہیں نوآبادیائے گئے بلوچ Colonized Baloch کی مزاحمت کو “دہشت گردی” بناکر پیش کرتے ہیں – اور کہیں اگر حکمران طبقات کی جو آپسی کی لڑائی میں اقتدار سے باہر کیے گئے کسی حکمران طبقات کے ایک سیکشن کی جانب سے ان کے بنائے گئے بیانیہ اور ڈسکورس میں تھوڑا سا بھی بدلاو دکھائی دے اور انھیں لگے کہ یہ کالونائزڈ بلوچ باشندے کی مزاحمت کے گرد تشکیل پانے والے بیانیے کو مدد فراہم کرے گا وہ اس سکیشن پر بھی ایسے حملہ آور ہوتے ہیں کہ وہ سکیشن گھبرا کر اپنا ردعمل ایسے تشکیل دیتا ہے جس سے وہ محب وطن نظر آئے – اس کوشش میں وہ دراصل کالونائزیشن کے مربوط پراسس کو اپنے حامیوں کی نظر سے اوجھل کرنے کا سبب بنتا ہے –

پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے باقاعدہ اور بے قاعدہ میڈیا سیل اور اس کے بیانات اسی صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں –

پاکستان میں ایسے آزاد دانشوروں کی شدید کمی ہے جو پاکستان میں کالونیل ماسٹرز اور کالونائزڈ مقامی باشندوں کے درمیان بنے والی معکوس مساوات کو پوری ایمانداری سے ننگے سچ naked truth کے ساتھ بیان کرتے ہوں –

ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان میں ارون دھتی رائے جیسے آزاد دانشور موجود ہیں جو ہندوستانی نیشنل ازم /قوم پرستی کے مہابیانیے میں کشمیریوں ، آدی واسیوں ، ناگا لینڈ، آسام ، تری پورہ ، تلنگانہ ، تمل ناڈ، چھتیس گڑھ کے مقامی باشندوں ، دلت اور مسلمانوں کی کالونائزڈ اور مارجنل حثیت کو اپنے نان فکشن تحریروں اور فکشن کے راستے سے بنا کسی اگر مگر کے بیان کرتے ہیں – وہ ہندوستانی قوم پرستی کے مرکزیت پسند سیکولر بیانیے ( جیسے کانگریس کا بیانیہ ہے ) اور اس کے ہندتوا میں رنگے بیانیے کی ساخت شکنی Deconstruction کرتے وقت کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوتے – ان مہابیانیوں کے پس پردہ جو کالونائزڈ سامراجی سرمایہ دارانہ ترقی کا میکنزم کارفرما ہوتا ہے اسے بھی بے نقاب expose کرتے ہیں – ان کے ہاں اس دانشورانہ سرگرمی intellectual work میں شعوری یا غیر شعوری طور پر خود کو “سچا ہندوستانی وطن پرست” ثابت کرنے کی کوئی کوشش کارفرما نظر نہیں آتی – وہ ہندوستان کے اندر چلنے والی علیحدگی پسند تحریکوں کو کبھی مزاحمت کی بجائے “دہشت گردی ” کے فریم میں نہیں دیکھتے – وہ مارکس واد اور سوشل ڈیموکریٹک مین سٹریم بیانیوں میں ان بیانیوں کی تشکیل میں کارفرما پیٹی بورژوازی دانشورانہ بددیانتی کو بھی بے نقاب کرنے سے نہیں گھبراتے – انھیں یہ خطرہ لاحق نہیں ہوتا کہ ایسا کرنے سے انھیں کوئی ترقی پسندی کے دائرے سے باہر کردے گا – وہ دلت سوال ہو یا آدی واسی سوال ہو اس بارے میں سی پی آئی یا سی پی آئی ایم کے سیاسی ڈسکورس اور بیانیوں میں موجود ان خامیوں کو بے نقاب کرنے سے بھی نہیں گھبراتے جنھوں نے ہندوستانی نیشنل ازم کے سیکولر مہابیانیے کو براہ راست یا بالواسطہ مدد فراہم کی ہے-

ہمارے ہاں خاص طور پر بندوبست پنجاب کے ترقی پسند لبرل ، شوشل ڈیموکریٹک ، ماواسٹ اور روس نواز دانشورانہ ڈسکورسز میں کوئی ایک دانشورانہ آواز بھی ایسی نہیں ہے جو “بلوچ مزاحمت ” کے بارے میں اتنی واضح اور صاف لائن رکھتی ہو جو ہمیں ارون دھتی رائے جیسے دانشوروں کے ہاں نظر آتی ہے – کوئی ایسا فکشن اور نان فکشن کام نظر نہیں آتا جو پڑوس میں ہمیں دا گاڈ آف سمال تھنگز ، دا منسٹری آف اٹ موسٹ ہیپی نیس یا کین دا سب آلٹرن سپیک جیسے فکشن اور نان فکشن دانشورانہ سرگرمی میں نظر آتا ہے- ہمارے پاس کیا ایک بھی گیاتری چکرورتی سپیوک جیسی آواز ہے ؟

ہمارے ہاں کوئی ایک دانشور ایسا نہیں ہے جو “بلوچ گوریلا تحریک ” کے ساتھ ویسے وقت بتائے جیسے ارون دھتی رائے نے بتایا اور “واکنگ ود کامریڈز” جیسی کتاب لکھے جو بلوچ مسلح قومی مزاحمت میں شریک کامریڈز بارے ہمیں enlighten کرسکے جیسے ارون دھتی رائے نے ماوسٹ نکسلائٹ تحریک بارے ہندوستانیوں کو آگاہی دی اور ریاست کے بیانیے کو چیلنج کرسکے جو اسے سوائے دہشت گردی ، ہندوستانی پراکسی اور پاکستان کے خلاف سازش کے سوا کچھ اور نہیں دکھاتا –

پاکستان کی شہری لبرل اور مارکس واد اشرافیہ بلوچ مسلح مزاحمت اور اس کی سیاسی آئیڈیالوجی کو کم یا زیادہ محض ایک نسل پرستانہ سخت الفاظ میں کھلی دہشت گردی اور نرم الفاظ میں گمراہ کن شاونسٹ ڈسکورس قرار دیتی ہے –

ایسے مارکس وادی شہری دانشور بھی موجود ہیں جو بلوچ انسرجنسی کو چین- پاکستان کی سرمایہ کارانہ شراکت داری کے خلاف اسے محض امریکی سامراجی اور ہندوستانی سرمایہ دارانہ توسیع پسندی کی سازش قرار دیتے ہیں اور اس انسرجنسی میں بلوچ عوام کی حقیقی مزاحمت کو تسلیم کرکے اس کی طرف ہمدردانہ نظر سے دیکھنے والے مارکس وادی دانشوروں کو امریکی سامراجی مداخلت کاری اور ہندوستانی سرمایہ داری کے توسیع پسندانہ رجحان کی حمایت قرار دیتے ہیں – وہ چینی سرمایہ داری کو سامراجی قرار دینے کی بجائے اسے ترقی پسندانہ رجحان قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے – ان کے نزدیک بلوچ انسرجنسی ایک رجعت پرست ، قبیل دارانہ اور سرداری ردعمل reactionary tendecy کے سوا کچھ نہیں ہے – بلوچ قومی سوال کی طرف ان کا رویہ حقارت اور نفرت پر مبنی ہے ۔

ان کی بلوچ قومی تحریک میں تشدد ، مسلح مزاحمت کی طرف تنقید وہ نہیں ہے جو مارکس واد ، ماو واد کلاسیکل دانشوروں کی طرف سے سامنے آئی تھی – ان کے مقدمات وہ بھی نہیں ہیں جو فرانز فینن کی کتاب “ریچڈ آف دا ارتھ ” کے بنیادی مقدمے کی پر مارکس وادی ، ماو وادی دانشوروں نے کی تھی –

بلوچ قوم پرست تحریک کے دانشور مارکس واد کے خلاف اور طبقاتی جدوجہد سے قومی جدوجہد کو مشروط کرنے کے مقدمے کے خلاف جو آئیڈیالوجی پیش کرتے ہیں اس پر اس طرح کی دانشورانہ تنقید اور نظریاتی کام جو ہمیں لینن ، ماوزے تنگ اور ٹراٹسکی کے ہاں ملتا ہے یا ان کے کام پر توسیع کرنے والے بعد کے کئی ایک مارکس وادی دانشوروں کے ہاں ملتا ہے وہ پاکستانی مارکس وادی دانشوروں کے ہاں نہیں ملتا- لینن نے قومی سوال پر جو چھوٹے بڑے کتابچے لکھے اور انھوں نے زار شاہی سلطنت کے اندر مظلوم و مجبور و محکوم اقوام کے اندر سے ابھرنے والی قوم پرستی اور اس کے اینٹی مارکس واد رجحانات کے خلاف جس طرح سے نظریاتی محاذ پر کام کیا وہسا مربوط اور طاقتور نظریاتی جواب ہمیں کسی مارکس وادی دانشور کے ہاں نظر نہیں آتا – اسی لیے مارکس واد کے نام پر درمیانے طبقے کے شہری دانشوروں کے جو موقعہ پرستانہ اور فکری مغالطوں پر مبنی دھوکہ اور فریب پر مبنی بیانات sweeping statments ملتے ہیں اسے ہی مارکس واد کا قومی سوال اور قوم پرستی کی طرف مارکس واد کا ڈسکورس سمجھ لیا جاتا ہے اور اسی لیے قوم پرستوں کو مارکس واد کو ہی جھٹلانے میں آسانی پیدا ہوتی ہے – انقلابی مارکس ازم کی انٹلیکچوئل روایت کے مین سٹریم نہ ہونے اور اس کی طرف سے طاقتور دانشورانہ آوازوں کے موجود نہ ہونے سے یہ صورت حال جنم لے رہی ہے –
بلوچ ، سندھی ، سرائیکی ، پشتون دانشورانہ اور ادیبانہ ڈسکورس بھی قوم پرستانہ ابھار اور پاپولزم کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ان میں کوئی روزا لکسمبرگ ، کارل لیبخت جیسا قد آور مارکسسٹ انٹلیکچوئل ایکٹوسٹ نہیں ہے جو ان میں مارکس واد نکتہ نظر سے قومی سوال اور قومی مزاحمت پر طاقتور انٹلیکچوئل انقلابی ڈسکورس اور بیانیہ تشکیل دے سکے –

Advertisements
julia rana solicitors

ہمیں سب سے پہلے قومی سوال اور قوم پرستی کے ابھار کو انقلابی مارکس واد فریم ورک میں بات کرنے کے لیے انقلابی مارکس واد کلاسیکل انٹلیکچوئل ورک عام کرنا ہوگا تاکہ اس کی روشنی میں آج کے معروضی حالات کے مطابق قومی سوالات پر مارکس واد تناظر marxist perspective کی تشکیل کی راہ ہموار ہوسکے –

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply