ہماری زندگی کے بیشتر فیصلے ہماری عقل سے زیادہ ہمارے ارد گرد کے حالات پر منحصر ہوتے ہیں۔ ہم چیزوں کو الگ تھلگ دیکھنے کے بجائے ہمیشہ ان کا موازنہ کرتے ہیں اور اسی بنیاد پر انہیں اچھا یا برا، سستا یا مہنگا، بڑا یا چھوٹا سمجھتے ہیں۔
رابرٹ سیالڈینی نے اپنی مشہور کتاب Influence میں ایک دلچسپ کہانی بیان کی ہے جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہے۔
1930 کی دہائی میں امریکہ میں دو بھائی، سِڈ اور ہیری، کپڑوں کی ایک دکان چلاتے تھے۔ سِڈ سیلز میں ماہر تھا اور ہیری کپڑوں کی سلائی سنبھالتا تھا۔ دونوں نے ایک سادہ مگر شاندار حکمت عملی اپنا رکھی تھی۔
جب بھی کوئی گاہک آئینے کے سامنے کھڑا ہو کر کسی سوٹ کو پسند کرنے لگتا، سِڈ جان بوجھ کر بہرہ بننے کا ڈرامہ کرتا۔ وہ اپنے بھائی کو زور سے پکارتا:
“ہیری، یہ سوٹ کتنے کا ہے؟”
ہیری اپنی میز سے جواب دیتا: “بیالیس ڈالر!” (یہ ایک بہت زیادہ قیمت تھی)
سِڈ دوبارہ پوچھتا: “کیا کہا؟”
ہیری پھر سے چلاتا: “بیالیس ڈالر!”
سِڈ گاہک کی طرف مڑ کر کہتا: “وہ کہہ رہا ہے بائیس ڈالر!”
یہ سن کر گاہک فوراً پیسے نکالتا اور جلدی سے دکان سے نکل جاتا، اس ڈر سے کہ کہیں سِڈ اپنی “غلطی” ٹھیک نہ کر لے۔
یہی (Contrast Effect) ہے۔چیزیں اپنی اصل قیمت یا قدر کے بجائے صرف اس پس منظر میں دیکھی جاتی ہیں جس میں وہ پیش کی جاتی ہیں۔ اگر گاہک کو سیدھا بائیس ڈالر کا بتایا جاتا، تو شاید وہ زیادہ سوچتا، لیکن بیالیس ڈالر کے مقابلے میں بائیس ڈالر ایک زبردست موقع لگنے لگا۔
ہم اس جال میں کیسے پھنستے ہیں؟
یہی اثر ہمارے روزمرہ کے فیصلوں میں بھی کام کرتا ہے، اور ہمیں احساس تک نہیں ہوتا۔
1. ایک عام سائنسی تجربہ
دو بالٹیاں لیجیے۔ایک میں برف والا پانی، دوسری میں ہلکا گرم پانی ڈالیں۔ پہلے اپنا دایاں ہاتھ برفیلے پانی میں ایک منٹ کے لیے رکھیے، پھر دونوں ہاتھوں کو گرم پانی میں ڈالیں۔ آپ کیا محسوس کریں گے؟
آپ کا بایاں ہاتھ پانی کو نارمل محسوس کرے گا، لیکن دایاں ہاتھ جس نے برفیلے پانی کو برداشت کیا تھا، اسے یہی پانی بہت گرم لگے گا۔
یہ اس بات کی مثال ہے کہ ہم کسی چیز کو اس کی اصل حالت میں نہیں دیکھتے، بلکہ اس کے مقابلے میں موجود دوسری چیزوں سے موازنہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں۔
2. مہنگی خریداری میں فریب
آپ ایک 60,00000 روپے کی گاڑی خرید رہے ہیں۔ سیلز مین آپ کو لیدر کی سیٹیں دکھاتا ہے، جو 75000 روپے میں اپگریڈ ہو سکتی ہیں۔ اتنی بڑی رقم کے سامنے یہ قیمت معمولی لگتی ہے، اور آپ آرام سے ہاں کر دیتے ہیں۔
لیکن اگر یہی سیٹیں آپ کو کسی اور موقع پر الگ سے خریدنی پڑتیں، تو شاید آپ اتنے پیسے نہ دیتے!
3. ڈسکاؤنٹ کی حقیقت
اگر ایک دکان میں 1000 روپے کا جوتا 700 روپے میں مل رہا ہو، تو ہمیں لگتا ہے کہ ہم نے بچت کر لی، حالانکہ اگر یہی جوتا ہمیشہ سے 700 روپے کا ہوتا تو شاید ہمیں اتنا پرکشش نہ لگتا۔
یہی وجہ ہے کہ ڈسکاؤنٹ اسٹورز Contrast کے اصول کو آپ کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
4. پیسہ کیسے چُپکے سے غائب ہو جاتا ہے؟
جادوگر آپ کی گھڑی تب غائب کرتا ہے جب وہ آپ کی توجہ کسی اور جگہ لگا دیتا ہے۔ آپ کو اندازہ تک نہیں ہوتا کہ آپ کی کلائی کب ہلکی ہوئی۔
بالکل اسی طرح، مہنگائی بھی آہستہ آہستہ ہماری جیب خالی کر دیتی ہے، لیکن ہم اسے محسوس نہیں کرتے کیونکہ یہ ایک Gradual Process ہے۔ اگر حکومت ایک ساتھ 30 فیصد ٹیکس لگا دے تو ہم سڑکوں پر نکل آئیں گے، لیکن جب یہی نقصان مہنگائی کے ذریعے ہوتا ہے، تو ہمیں پتا بھی نہیں چلتا۔
روزمرہ زندگی میں اس سب سے کیسے بچیں؟
ہر چیز کو اپنے اصل تناظر میں دیکھنے کی عادت ڈالیں۔ جب کوئی چیز سستی لگے، تو سوچیں کہ کیا یہ حقیقت میں سستی ہے، یا صرف اس کے ساتھ موجود مہنگی چیز نے اسے سستا بنا دیا ہے؟
خریداری کے فیصلے کرتے وقت جلد بازی سے بچیں۔ ڈسکاؤنٹ کا مطلب ہمیشہ سستی چیز نہیں ہوتا، یہ اکثر ذہنی دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔
یہ Contrast Effectہماری عقل کے ساتھ کھیلتا ہے اور ہمیں بےشمار غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ لیکن اگر ہم اسے پہچاننا سیکھ لیں، تو ہم نہ صرف زیادہ سمجھداری سے فیصلے کر سکتے ہیں، بلکہ اپنی زندگی میں حقیقی فائدہ حاصل کر سکتے ہیں۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں