دہشت گردی کی بڑھتی وارداتوں، فوج کے گورننس میں مسلسل بڑھتے اثر و رثوخ اور سیاسی اینارکی کے پس منظر میں ملک صرف ان نوجوانوں کو ٹوٹتا دکھائی دے رہا ہے جنہوں نے روس کے افغانستان سے جانے کے دنوں کا پاکستان نہیں دیکھا تھا۔
تب ملک بھر میں دہشت گردی بھی آج سے کہیں زیادہ تھی، فوج کا پالیسی سازی پر کنٹرول بھی آج سے زیادہ تھا، آج کی سیاسی اینارکی اور اب چھوٹے صوبوں کی بے چینی بھی تب کی صورتحال سے زیادہ ہرگز نہیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان ان حالات سے نہ صرف معاشی، سیاسی اور عسکری طور پر کہیں مضبوط ہو کر باہر نکلا بلکہ ایٹمی ہتھیار اور جدید میزائل ٹیکنالوجی بھی عین اسی دور میں حاصل کی۔
تب آزاد سندھو دیش کے نعرے لگا کرتے تھے آج بلوچستان کی علیحدگی کی باتیں ہوتی ہیں۔
تب سندھ میں بنیادی تقسیم اربن اور رورل کی تھی، اربن سندھ غیرمشروط طور پر ریاست کا حامی تھا، ریاست نے اسی تقسیم پر بلڈ کرتے ہوئے سندھو دیش کی تحریک دبائی تھی۔
آج اول تو بلوچستان میں بسی قومیتوں کی ڈائیورسٹی سندھ سے کہیںمختلف اور ولنرایبل ہے، دوسرے سندھ کے برعکس بلوچستان کا بارڈر انڈیا سے نہیں ملتا تیسرے بلوچستان کی آبادی کا تب کے سندھ سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔
بلوچستان میں بسی کم و بیش آدھی آبادی غیر بلوچ بھی ہے اور غیرمشروط طور پر ریاست کی حامی بھی اسکے علاوہ بلوچ آبادی بھی الگ الگ روایات والے ایک سو پچاس قبائل پر مشتمل ہے ،
انمیں سے جٹ بلوچ ٹرائبز جیسے بزنجو، سردار زہی، بابر، ڈوگرانی، چکر، گورچانی، لنجوانی اور سسولی ٹرائبز میں ایک بھی ایسا پرامینیٹ بلوچ لیڈر ڈھونڈنا ممکن نہیں جو ریاست سے علیحدگی کا حامی ہو، یہ بیشتر قبائل پنجاب اور سندھ کے بارڈرز پر تینوں صوبوں میں بسے ہیں اور ان صوبوں کے عوام سے انکے گہرے سماجی رشتے ہیں۔
سارے کا سارا تالپور ٹرائب ہی ریاست کا غیرمشروط حامی ہے، محمد حسنی ہوں یا کاکڑ، جمالی ہوں یا رئیسانی، موسیانی ہوں یا رودینی، مکرانی ہوں یا چکی یا پھر بزنجو، یہ سبھی قبائل اپنے حقوق کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان قبائل میں علیحدگی پسند لیڈرز ڈھونڈنا ایسا ہی ہے جیسے کسی دریا میں گری کوئی انگوٹھی ڈھونڈنا،
صدیوں سے سرائیکی اور سندھی کلچر میں گھلے ملے ایسے بیسیوں بلوچ قبائل ریاست کے حامی ہیں، آپ ان قبائل میں سے چند سردار بھی ایسے نہیں دکھا سکیں گے جنہوں نے ایک بار بھی پاکستان سے علیحدگی کی بات کی ہو۔
آپ جن ناراض بلوچوں کا ذکر سنتے ہیں انمیں بنیادی طور پر بگٹی مینگل اور مری قبائل شامل ہیں لیکن انکے سرداروں اور عوام کی بڑی اکثریت بھی اپنے حقوق کے لیے ووکل ہے علیحدگی کے لیے نہیں اور انکے بھی بیشتر سرداروں اور پرامیننٹ لوگوں میں فوج کی جڑیں بے پناہ گہری ہیں۔
اگر آپ پورے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کو گننا شروع کریں تو انکی تعداد ایک لاکھ کو بھی نہیں پہنچے گی اور ان میں بھی اگر عسکریت پسندوں کو الگ کیا جائے تو انکی تعداد دس سے بارہ ہزار سے زیادہ نہیں، یہ اتنی تعداد کو بھی انڈیا ایران اور مڈل ایسٹ کے بعض ایکٹرز سے مالی اور انٹیلیجینس یا تربیتی مدد کے باعث صرف اس لیے پہنچے ہیں کہ پولیٹیکل کنسیڈریشنز کی وجہ سے ریاست انسے متعلق ویسے یکسو نہیں ہو پائی جیسے سوات آپریشن میں ہوئی تھی۔
اب انکے حالیہ بڑے حملوں کے بعد اگر قوم اور بالخصوص فوج انکے معاملے میں بھی یکسو ہوتی ہے اور انکے ہینڈلرز اور سپانسر ممالک میں وہ جوابی اقدام شروع کرتی ہے جو مشرف دور میں بند کر دیا گیا تھا تو آپ سال بھر میں بلوچستان کو پرسکون دیکھیں گے۔
افسوس اس بات کا ہے کہ بلوچستان کی علیحدگی کی باتیں کرنے والے بیشتر دانشوران نہ کبھی بلوچستان گئے ہیں نہ وہاں کی ڈائیورسٹی سے جڑے حقائق سے واقف ہیں۔
بلوچستان کی مخصوص ڈائیورسٹی اور فوج کی اس ڈائیورسٹی میں روٹس کے پیش نظر بلوچستان کم از کم اس صدی میں پاکستان اے الگ نہیں ہو سکتا۔
یاد رکھیے جب جب کوئی سپرپاور کسی خطے سے شکست کھا کر نکلتی ہے اسکے بعد اس خطے میں ایسے حالات ضرور پیدا ہوتے ہیں جو آج آپکو بلوچستان اور کے پی کے یعنی فرنٹ لائن پر نظر آتے ہیں۔

زیادہ گھبرانے یا پینک پھیلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے، فوج اور بالخصوص پاکستان اس صورتحال سے تب ہی کی طرح مضبوط ہو کر نکلے گا جیسے تب نکلا تھا جب آج ہی کی طرح ایک دوسری سپرپاور شکست کھا کر خطے سے نکلی تھی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں