اردو میں ادبی ڈارونزم کی نمویابی/قاسم یعقوب

ادبی ڈارونزم یعنی ارتقائی تنقید کی بحث کو ہمارے زیف سید نے اردو میں چھیڑا ہے اور کیا خوب تھیسس بنا کے پیش کیا ہے۔ زیف کی کتاب’’ارتقائی تنقید‘‘ شاید اردو کی پہلی کتاب ہے جس میں کسی تنقیدی تھیوری کو عملی سطح پر بھی اُنھی دلائل سے پیش کیا جارہا ہے جو کتاب کی تھیوریٹکل بحثوں کا حصہ ہیں۔ اس سے بھی آگے وہ تمام تخلیقی مواد کتاب کے آخر پر جمع کر دیا گیا ہے جس پر اطلاقی تنقید کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
یہ ادبی ڈارونزم ہے کیا؟ ادب کی ارتقائی جڑیں ڈارون کے نظریہ ارتقا سے جڑی ہوئی ہیں۔ ارتقائی تنقید کا بنیادی محور اس ایک بات کے اردگرد گھومتا ہے کہ یہ جانا جائے کہ اگر انسانی جبلت ہمیشہ سے ایک نہیں تھی تو کن مراحل میں اس آخری شکل میں ہم تک پہنچی ہے؟ یقیناً آپ کو حیرانی ہوئی ہوگی کہ کیا انسانی جبلت بھی فطرت کی پروردہ ہے؟ کیاانسان وہی نہیں جو کبھی ہوتا تھا؟ اور اس کی فطرت ہمیشہ سے ایک نہیں ؟ ارتقائی تنقید والوں نے اسی ایک نکتے کو مسئلہ بنا کے پیش کیا ہے اور اس بات سے انکار کیا ہے کہ جبلت بھی ہمیشہ ایک نہیں رہی۔ ارتقائی تھیوریز نے بتایا کہ انسان کی جبلت اور نفسیات ، جسمانی ساختوں کی تبدیلیوں کی طرح بدلتی رہی ہے۔ انسان کی جس فطرت کو حتمی سمجھا جاتا ہے وہ بھی ارتقائی ہے۔
مثلاً کہانی سننے کا فطری میلان، کہانی میں انسانی بقا سماجی ترقی کارویہ موجود رہا ہے جو ایک دوسرے کو جاننے اور اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی غرض سے لازمہ بنا رہا۔ اس لیے کہانی ہمیشہ سے انسان کے ساتھ رہی۔ (زیف نے کیا خوب بحث کی ہے جو پڑھنے کے لائق ہے)تنازعہ یا Conflict بھی انسانی فطرت کا خاصا سمجھا جاتا ہے جو ارتقائی ماحولیاتی ضروتوں سے انسانی فطرت کا حصہ بنا۔ یہ محض تنازعہ نہیں تھا بلکہ اس سے مسابقت، دھوکہ ، چھینا چھپٹی اور طاقت کے استعمال کی فطرتوں نے جنم لیا۔ اسی طرح ادب میں موجود خوف، محبت، حسد ، لالچ یا قربانی جیسے جذبات کے پیچھے بھی ارتقائی تبدیلیوں کی ناگزیریت تھی جس نے اس قدر غلبہ کیا کہ انسان کی فطرت کا حصہ بن گئی۔جنسی جذبات بھی ارتقائی ہوتے ہیں۔ ورنہ انسان کو تو صرف اتنی جنس کی ضرورت ہےجتنا اس کے جسم کی حیاتیاتی ضرورت ہے ایک دوسرے سے جنسی سبقت اور عیاشی(Pleasure) جنسی ارتقائی تبدیلی ہے۔جنس کا بنیادی مقصد نسل کو آگے بڑھانا اور جینیاتی مواد (genes) کو منتقل کرنا ہوتا ہے۔انسان میں صرف بقا (survival) ہی نہیں بلکہ جنسی انتخاب (sexual selection) بھی ارتقا کا ایک بڑا عنصر رہا ہے۔”سب سے اچھا ساتھی” تلاش کرنے کا رجحان حیاتیاتی طور پر ارتقا کا حصہ ہے، کیونکہ یہ مضبوط جینیاتی خصوصیات کو اگلی نسل میں منتقل کرنے میں مدد دیتا ہے۔۔ زیف نے اس حوالے سے بہت سی ادبی مثالوں کے ساتھ تھیسس بنایا ہے۔
ایک کام اور اس ادبی ڈارونزم نے یہ کیا ہے کہ اسے طاقت اور کمزور کی مارکسی تشریح کی بجائے ارتقائی تبدیلیوں سے جوڑ دیا ہے۔(زیف کی یہ کتاب شاید ابھی مارکسی دانش وروں کے ہاتھ نہیں لگی یا انھیں خبر نہ ہو سکی ورنہ وہ ارتقائی تبدیلیوں کے اس خاکے کی شد ومد سے نفی کرتے)ارتقائی تنقیدکہتی ہے کہ ادب میں اکثر طاقتور اور کمزور کی جنگ نظر آتی ہے، جو سماجی ڈارونزم کے اصولوں سے جڑی ہے۔کچھ کردار فطری طور پر قیادت کے قابل ہوتے ہیں، جبکہ کچھ دباؤ کے تحت آ کر شکست کھا جاتے ہیں۔
زیف نے آخر پر اطلاقی تنقد میں کچھ افسانوں کے ارتقائی تنقیدی تجزیے بھی کیے ہیں۔ منٹو کے ’’ہتک‘‘کے علاوہ نیلوفر اقبال کا ’’آنٹی‘‘ میں ہتک یا توہین کی بنیادوں کو کھوجنے کی کوشش کی ہے۔ زیف نے اسے سیکسی سن مفروضے کی رو سے دیکھا ہے ۔ اس نظریے کے مطابق اگر ایک نر جسمانی لحاظ سے زیادہ پرکشش، مضبوط، یا سماجی طور پر غالب (dominant) ہے، تو مادہ اسے ترجیح دے گی۔رومانی کہانیوں میں خواتین کی کشش ہمیشہ ایسے مردوں کی طرف زیادہ ہوتی ہے جو طاقتور، پُرکشش، یا سماجی طور پر اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔زیف نے لکھا ہے کہ ’’جب عورت کسی خوبرو مگر کھلنڈرے مرد کو دیکھتی ہے تو اس میں بے پناہ کشش محسوس کرتی ہے کیوں کہ اسے احساس ہوتا ہے کہ یہ مرد جنسی طور پر زیادہ کامیاب ہے۔ ‘‘ عورت کا دوسرے مرد میں کشش کی ایک بڑی وجہ تولیدی بھی ہے۔ مرد کی دوسری عورت میں کشش محض جنسی ہو سکتی ہے مگر جہاں تک میں زیف کی بات کو سمجھا ہوں، عورت جب کسی دوسرے مرد میں کشش محسوس کرتی ہے تو اس کی بڑی وجہ ارتقائی ہے زیف لکھتے ہیں کہ ’’جنز مکس ہونے سے ان کی کامیابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اگر ایک عورت ایک ہی خاوند سے سات بچے ہیں اور خاوند میں کوئی جینیاتی خرابی ہے تو ان سب بچوں کا مستقبل مخدوش رہے گا لیکن ایک آدھ بچہ کہیں اور سے آ گیا تو جنیاتی لاٹری میں کامیابی کے امکانات بڑھ جائیں گے۔‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ جبلی طور پر عورت کا دوسرے مرد میں جنسی کشش کے پس منظر تولیدی یا نسلی بقا کی طرف رجحان زیادہ ہوتا ہے جب کہ مرد چوں کہ جننز کی منتقلی کا ابتدائی مرحلہ انجام دیتا آیا ہے اس لیے اس کا غالب رویہ جنسی ہی رہتا ہے۔شاید میں زیف کی ڈارونزم کی ارتقائی تشریح سے نتیجہ بھی نکال سکتا ہوں کہ عورتوں میں ہم جنس پرستی اصل میں مرد کی ماحولیاتی نقل ہے جو محض جنسی لذت کو کارِ اول سمجھنے سے جدید دور میں ایک جبلی رویے کے طور پر پیدا ہوئی۔
ارتقائی تنقید کو ڈارونزم کے بغیر نہیں سمجھا جا سکتا۔ اس لیے کہ فطری انتخاب یا ماحولیاتتی دبائو ڈارونزم کا بنیادی سبجیکٹ ہے۔ اس کے علاوی جنسی انتخاب، بقا کی جبلت اور پھر اس سے جڑی انسانی جبلتیں جیسے خوف، خطرہ، بہتر کی تلاش وغیرہ بھی ڈارونزم کے ارتقائی موضوعات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیف نے ڈارونزم کی تھریٹکل تشریح پر سب سے زیادہ زور صَرف کیا ہے۔جیسے ارتقائی فطرت، ارتقائی نفسیات جیسے ابواب کے علاوہ ’’ارتقائی تنقید کا طریقہ کار‘‘ میں اس ڈسپلن کو سمجھانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔زیف نے اس طریقہ کار کو تین نکات میں سمیٹا ہے؛ ارتقائی نفسیات کی دریافت یا کھوج، انسانی رویوں کی ساخت کی گرائمر کی تلاش اور انسانی آفاقی اصولوں کے آرکی ٹائپل کردار تک رسائی۔ میرے خیال میں یہ نکات ادب کی ایک نئی تشریح کا پیش خمیہ بھی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اردو میں ارتقائی تنقید کے اس اولین تجزیے کے بعد امید ہے نئی بحث کا آغاز ہوگا۔ ادب بنیادی طور پر انسانی رویوں کو سمجھنے کا نام ہے جو سماج، ماحول، یا انسانی داخلی کیفیات سے سے جنم لیتے ہیں۔ ادب کا سماجی پس منظر بھی انسانی داخلی رشتوں کا عکس ہیں جو داخل سے خارج سے جوڑے بغیر سمجھا نہیں جا سکتا۔ارتقائی تقنید نے اسے فلیش بیک میں سمجھنے کی جست بھری ہے۔ زیف کی کتاب ’’ارتقائی تنقید‘‘ اس ضمن میں ایک اہم ادبی ڈاکومنٹ ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply