پاکستانی نیشنلزم روسی نیشنلزم کے آئینے میں /محمد عامر حسینی

حکمران طبقات ، ریاستی افسر شاہی کے سب سے بالادست سیکشن فوجی افسر شاہی اکثر و بیشتر جسے پاکستانیت اور پاکستانی قوم پرستی کہتی ہے اور اس سے وابستگی کے نعرے مارتی ہے وہ محض قومی شناخت کا اظہار نہیں ہے بلکہ اپنی بنیاد میں وہ مہا قوم پرستی کی ایک شکل ہے جو سوائے شاونزم کے اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ یہ بندوبست پنجاب سے تعلق رکھنے والی حکمران طبقات اور وردی بے وردی نوکر شاہی اور یہاں کی پنجابی پیٹی بورژوازی کا دوسری اقوام پر زعم برتری ہے جو سوائے شاونزم کے کچھ بھی نہیں ہے- انقلابی مارکس واد اس کی اصلیت کو خوب پہچانتا ہے ۔

لینن روسی قوم پرستی کو محض “قوم پرستی” نہیں بلکہ شاونزم (Chauvinism) کیوں سمجھتے تھے، اس کی کئی بنیادی وجوہات تھیں، جن کا تعلق زار شاہی روس کی سامراجی پالیسیوں، محکوم قوموں پر جبر، اور طبقاتی جدوجہد کے اصولوں سے تھا۔ لینن کے نزدیک روسی قوم پرستی ایک عام قوم پرستی نہیں تھی، بلکہ یہ مہا روسی قوم پرستی (Great Russian Chauvinism) تھی، جو بنیادی طور پر سامراجی جبر اور استحصال کو تقویت دیتی تھی۔

1. روسی قوم پرستی کی سامراجی نوعیت

لینن کا استدلال تھا کہ روسی قوم پرستی صرف ایک قومی شناخت کا اظہار نہیں تھا، بلکہ یہ روسی سلطنت کے توسیع پسندانہ اور جابرانہ کردار سے جڑی ہوئی تھی۔

زار شاہی روس ایک “قوموں کی جیل” (Prison of Nations) تھا، جہاں درجنوں غیر روسی قومیں—پولش، فن، یوکرینی، قفقازی، وسطی ایشیائی، اور بالٹک ریاستوں کے باشندے، روسی استحصال کا شکار تھے۔

روسی قوم پرستی ان قوموں کے حقوق کو دبانے کے لیے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی تھی۔

اسے “روسی برتری” کے نظریے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا، جس میں روسی ثقافت، زبان اور اداروں کو “مہذب” جبکہ دیگر اقوام کو “پسماندہ” سمجھا جاتا تھا۔

چونکہ یہ قوم پرستی محکوم اقوام کے استحصال کے ساتھ جڑی تھی، اس لیے لینن کے نزدیک یہ شاونزم یعنی ایک برتر قوم کی دوسری اقوام پر بالادستی قائم رکھنے کی کوشش تھی۔

2. روسی قوم پرستی کا جابرانہ کردار

لینن کے مطابق، مہا روسی قوم پرستی روسی ریاست کی جابرانہ پالیسیوں کا دفاع کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

روسی قوم پرستی کا ایک بنیادی مقصد محکوم قوموں کے خودمختاری کے مطالبات کو کچلنا تھا۔

زار شاہی حکومت روسی زبان اور ثقافت کو زبردستی مسلط کرتی تھی اور دیگر قوموں کو اس کا پابند بناتی تھی۔

غیر روسی اقوام کے اندر اگر کوئی بغاوت یا احتجاج ہوتا تو روسی قوم پرستی کا استعمال کرتے ہوئے اسے “روسی وحدت کے خلاف بغاوت” قرار دے دیا جاتا۔

چونکہ یہ قوم پرستی آزادی کے بجائے جبر کا آلہ تھی، لینن کے لیے اسے محض قوم پرستی کہنا غلط ہوتا—یہ حقیقت میں شاونزم تھا۔

3. طبقاتی نقطہ نظر: مزدور طبقے کو تقسیم کرنے کا ہتھیار

لینن نے وضاحت کی کہ مہا روسی قوم پرستی ایک طبقاتی ہتھیار بھی تھی، جو روسی محنت کشوں کو غیر روسی محنت کشوں سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتی تھی۔

زار شاہی حکومت اور روسی سرمایہ دار طبقہ قوم پرستی کو استعمال کرکے مزدور طبقے میں مصنوعی تقسیم پیدا کرتے تھے۔

روسی مزدوروں کو یہ باور کرایا جاتا تھا کہ وہ “برتر قوم” سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا انہیں غیر روسی محنت کشوں کے مسائل سے کوئی ہمدردی نہیں ہونی چاہیے۔

اس سے مزدور طبقہ اپنی اصل دشمن سرمایہ داری اور سامراجی ریاست کے خلاف متحد ہونے کے بجائے خود اندرونی طور پر تقسیم ہو جاتا تھا۔

لینن کا کہنا تھا کہ مزدور طبقے کو بین الاقوامیت (Proletarian Internationalism) اپنانا ہوگا اور مہا روسی قوم پرستی کی مخالفت کرنی ہوگی، کیونکہ یہ مزدوروں کے حقیقی انقلابی اتحاد میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔

4. سامراجی روسی قوم پرستی اور لبرل اصلاح پسندی

لینن نے روسی لبرل دانشوروں اور کادیت (Constitutional Democratic Party) جیسے گروہوں پر بھی تنقید کی، جو بظاہر زار شاہی کے خلاف تھے، لیکن مہا روسی قوم پرستی کے حامی تھے۔

یہ لبرلز اصلاحات اور جمہوریت کی بات تو کرتے تھے، لیکن جب قومی جبر کے خاتمے اور محکوم اقوام کے حق خودارادیت کا سوال آتا تو وہ روسی سلطنت کے اتحاد کو زیادہ اہم قرار دیتے۔

وہ محکوم قوموں کو ثقافتی خودمختاری دینے کی بات تو کرتے تھے، لیکن ان کی سیاسی آزادی یا علیحدگی کے حق کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

ان کی یہ پالیسی زار شاہی کے تسلط کو برقرار رکھنے کا ایک نرم طریقہ تھا، اس لیے لینن نے ان کے رویے کو موقعہ پرستانہ قوم پرستی (Opportunistic Nationalism) کہا۔

5. خودمختاری کے حق کی مخالفت

لینن کے نزدیک حقیقی قومی آزادی کا مطلب تھا ہر قوم کو مکمل خودمختاری اور حتیٰ کہ علیحدگی کا حق دینا۔

مہا روسی قوم پرستی اس اصول کی سخت مخالف تھی اور چاہتی تھی کہ تمام غیر روسی اقوام روسی ریاست کے ماتحت رہیں۔

یہاں تک کہ روسی “جمہوری قوم پرست” بھی محکوم اقوام کو مکمل آزادی دینے کے لیے تیار نہیں تھے۔

لینن کے مطابق، جو بھی قوم دوسری اقوام پر حکمرانی کے حق کا دفاع کرے، وہ محض قوم پرست نہیں بلکہ شاونزم کا شکار ہے۔

نتیجہ

لینن نے روسی قوم پرستی کو صرف قوم پرستی کے طور پر قبول کرنے سے انکار کیا کیونکہ:

1. یہ سامراجی تھی-یہ روسی سلطنت کے توسیعی اور جابرانہ عزائم کی نمائندہ تھی۔

2. یہ طبقاتی استحصال کو بڑھاتی تھی—روسی مزدوروں اور غیر روسی مزدوروں کو تقسیم کرکے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ نظام کو مضبوط کرتی تھی۔

3. یہ جبر کا نظریاتی جواز فراہم کرتی تھی—محکوم قوموں کو ان کے حقوق سے محروم کرنے کے لیے “روسی اتحاد” اور “وحدت” کا نعرہ استعمال کرتی تھی۔

4. یہ اصلاحات کے پردے میں استحصال کو جاری رکھنے کی کوشش تھی—لبرل بورژوازی مہا روسی قوم پرستی کے ذریعے زار شاہی کے تسلط کو برقرار رکھنا چاہتی تھی۔

5. یہ قومی آزادی کے اصول کے خلاف تھی—یہ محکوم اقوام کو ان کا حق خودارادیت دینے کے بجائے روسی ریاست کے اندر رکھنے کی کوشش کرتی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اسی لیے لینن نے مہا روسی قوم پرستی کو شاونزم قرار دیا، کیونکہ یہ ایک برتر قوم کے نظریے کو مسلط کرنے اور دیگر اقوام کو دبا کر رکھنے کی پالیسی تھی، جو کسی بھی جمہوری اور سوشلسٹ اصول کے خلاف تھی۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply