ہم اکثر کہتے ہیں کہ اخبار اٹھاؤ تو زیادہ تر بری خبریں ہی
پڑھنے کو ملتی ہیں مگر آج صبح ہی یہ خبر پڑھ کر دل خوش ہو گیا کہ صنفی
بنیاد پر ہونے والے تشدد کے کیسز میں غیر سنجیدہ رویہ اپنانے پر سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کو سرزنش کی ہے۔اور صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ کاروکاری کے کیسز میں پولیس کی ناقص تحقیقات کا نوٹس لے۔عدالت عالیہ کی رائے میں صنفی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے کیسز میں پولیس کا رویہ من مانی اور غیر سنجیدگی پر مبنی ہوتا ہے۔شواہد کی عدم موجودگی کی وجہ سے عدالت کے پاس ملزم کو بری کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا۔عدالت نے
صوبائی اتھارٹیزپر ترجیحی بنیادوں پر تفتیش کے جدید آلات خریدنے اور انویسٹیگیٹرز کی تربیت کے لئے فنڈز اور وسائل مہیا کرنے پر زور دیا ہے۔
یہاں ہم یہ بتاتے چلیں کہ یو این ویمن پاکستان کی تحقیق کے مطابق
پاکستان میں گھریلو تشدد کا شکار ہونے والی خواتین میں سے صرف دو فی صد پولیس سے مدد لینے جاتی ہیں۔
عورت پر گھریلو تشدد طبی اور سماجی مسئلے کے طور پردنیا بھر میں تحریرو تحقیق کا موضوع بنا ہوا ہے۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کو زندگی میں کبھی نہ کبھی شریک حیات کی طرف سے جسمانی یا جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہاں تک کہ اسپین میں بھی جہاں سارے یورپ کے مقابلے میں گھریلو تشدد کے خلاف جدید ترین قوانین موجود ہیں،وہاں بھی گیارہ فی صد عورتوں کو جسمانی تشدد،آٹھ اعشاریہ نو فی صد کو جنسی تشدد،گیارہ اعشاریہ پانچ فی صد کو اقتصادی تشدداور تیرہ اعشاریہ نو سے لے
کر ستایئس فی صدعورتوں کو نفسیاتی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔(2014-2019)۔اسپین میں بھی اس کثیرا لجہتی مسئلے کی جڑیں پدر سری کے سماجی اورثقافتی معیارات میں چھپی ہوئی ہیں۔امریکہ میں سوشیالوجیکل اسپیکٹرم میں عورتوں اور ریپ کی جانب پولیس افسروں کے روئیے کے بارے میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ریپ سے متعلق بات کرنے کے لئے صنفی رویوں پر بات کرنا ضروری ہے۔پدر سری معاشرے میں مرد عورتوں پر حاوی ہوتے۔ ہیں اور وہی طے کرتے ہیں کہ کون سی صفات اور روئیے مردانہ ہیں اور کون سے زنانہ۔
کریمنل جسٹس سسٹم اور عام لوگ ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کو کس طرح دیکھتے ہیں۔اس کا تعلق صنف اور جنسیت کے بارے میں عورتوں کے طرز اظہار سے ہے۔روائتی شرم وحیا کی پتلی کو قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے جب کہ منہ پھٹ عورت کو بری عورت سمجھا جاتا ہے۔
موبائل فون یا سوشل میڈیا پر عورت کا پیچھا لینے والوں کی وجہ سے بھی گھر کے مردوں کی طرف سے گھر کی عورتوں پر تشدد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس معاملے میں بھی عورتیں پولیس کے پاس شکایت کے لئے جاتے ہوئے ہچکچاتی ہیں۔
ابھی تک تو ہم نے ریپ اور گھریلو تشدد کے حوالے سے پولیس کے روئیے کے بارے میں بات کی لیکن جب ریپ کا نشانہ بننے والی خاتون کا کیس عدالت میں پہنچتا ہے تو وہاں اس سے جس قسم کے سوالات کئے جاتے ہیں، وہ دوبارہ ریپ کے عمل سے گزرنے سے کم اذیت ناک نہیں ہوتے۔خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں ہمیشہ سے اس بارے میں آواز اٹھاتی رہی ہیں۔

اتفاق سے چند روز قبل مجھے اس حوالے سے ایک وکیل صاحب کی چیخم دھاڑاور نازیباالفاظ سننے کا اتفاق ہوا۔انسانی حقوق اور ٹریڈ یونین ایکٹیوسٹس قاضی خضر، ناصر منصور اور زہرہ خان کی بدولت مجھے سندھ کے جنسی ہراسانی کے محتسب اعلیٰ کے دفتر میں ایک خاتون ٹیکسٹائل ورکر کی جانب سے اپنی فیکٹری کے ایک صاحب کے خلاف ہراسانی کی شکایت پر محتسب اعلیٰ کی عدالتی کارروائی دیکھنے کا موقع ملا۔واضح رہے کہ یہ کارروائی گذشتہ نو ماہ سے چل رہی ہے۔متاثرہ خاتون نے انسانی حقوق اور ٹریڈ یونین تنظیموں کے پاس شکایت جمع کرائی تھی۔ہمارا آئین محنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔اور2010میں کام کی جگہ پر جنسی ہراسانی سے تحفظ کا قانون بھی بن چکا ہے۔لیکن اس روز جب میں محتسب اعلیٰ صاحب کی عدالت میں پہنچی تو ملزم کا وکیل جارحانہ انداز میں زور زور سے چیخ رہا تھا اور انسانی حقوق اور ٹریڈ یونین کارکنوں کو ”بلیک میلر“جیسے القابات سے نواز رہا تھا اور ان پر پاکستان کے صنعتی کاروبار کو نقصان پہنچانے اور ’ملک دشمنی‘ کا الزام لگا رہا تھا۔ متاثرہ خاتون کے ساتھ اس کا رویہ اور بھی گیا گزرا تھا اور وہ ان پر کھلم کھلا مقدمے کے گواہ کے ساتھ ناجائز جنسی تعلقات رکھنے کا الزام لگا رہا تھا۔اور میں سوچ رہی تھی کہ اس طرح کے الزامات سننے کے بعد
کون عورت محتسب اعلیٰ کی عدالت میں آنے کی ہمت کرے گی۔ملزم اور اس کا وکیل چاہتے بھی یہی ہیں۔لیکن انسانی حقوق اور ٹریڈ یونینوں کے نمائندے ان متاثرہ خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں اور انہیں انصاف دلوانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔وہ بار کونسلوں سے بھی ایسے وکلا کے خلاف تادیبی کارروائی کا
مطالبہ کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں