• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (دوسری قسط) -کامریڈ فاروق بلوچ

ابلیس کی مجلسِ شوریٰ: ایک پرولتاریہ تنقید (دوسری قسط) -کامریڈ فاروق بلوچ

پرولتاریہ اور اقبال کا “متبادل نظام”

پہلی قسط میں ہم نے “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” کو سرمایہ داری، جمہوریت اور مذہب کے استحصالی پہلوؤں کے تناظر میں پرکھا۔ نظم میں ابلیس اور اس کے مشیران کی گفتگو درحقیقت جدید سرمایہ دارانہ دنیا کی ایک بے رحم تشریح ہے، جس میں طاقت، دولت، اور نظریات کے باہمی تصادم کو اقبال ایک مخصوص علامتی پیرائے میں پیش کرتے ہیں۔ مگر ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اقبال ان استحصالی نظاموں کے مقابلے میں کیا متبادل پیش کرتے ہیں؟

اقبال خود ایک متعین سیاسی و معاشی متبادل تجویز نہیں کرتے۔ وہ نہ تو سرمایہ داری کو مکمل رد کرتے ہیں، نہ ہی اشتراکیت کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ دیتے ہیں۔ وہ محض مغرب کی روحانی و اخلاقی زوال پذیری پر نوحہ کناں نظر آتے ہیں اور ایک ایسے نظام کی تلاش میں دکھائی دیتے ہیں جو فرد کی روحانی بالیدگی اور اجتماعی فلاح کے اصولوں پر استوار ہو۔ ان کی فکر کا مرکزی نکتہ “خودی” اور “امت” ہے، جنہیں وہ ایک ایسے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہیں جو نہ سرمایہ داری کی لادینیت سے آلودہ ہو اور نہ اشتراکیت کے دہریے پن سے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ متبادل عملی طور پر کیا شکل اختیار کر سکتا ہے؟

1. امت مسلمہ بطور سیاسی و معاشی نظام

اقبال کے ہاں “امت” کا تصور محض ایک روحانی یا مذہبی وحدت نہیں، بلکہ ایک سیاسی اور معاشی نظام کی صورت میں بھی جلوہ گر ہوتا ہے۔ وہ سرمایہ داری کے بے لگام مادہ پرستی اور اشتراکیت کے جبر و استبداد کو ایک ایسے اسلامی نظام کے ذریعے رد کرنا چاہتے ہیں، جو انصاف، مساوات اور روحانی ترقی پر مبنی ہو۔

لیکن یہاں چند بنیادی سوالات پیدا ہوتے ہیں:

کیا امت مسلمہ واقعی ایک طبقاتی تقسیم سے ماورا سماج ہے؟

کیا اسلامی اقتصادی اصول سرمایہ دارانہ استحصال کا کوئی متبادل فراہم کرتے ہیں؟

کیا امت کا تصور مزدور طبقے کو حقیقتاً آزادی دلا سکتا ہے، یا یہ محض ایک جذباتی نعرہ ہے؟

مارکسی تنقید کے مطابق، “امت” کا تصور درحقیقت طبقاتی تضاد کو چھپانے کے لیے ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد اسلامی ریاستوں میں جاگیرداری، موروثی اقتدار اور دولت کی غیر مساوی تقسیم بدستور جاری رہی۔ اگر امت ایک حقیقی غیر طبقاتی معاشرہ ہوتا، تو اس میں غلامی، جاگیرداری، اور اشرافیہ کے اقتدار کا تسلسل کبھی باقی نہ رہتا۔

مارکس کے نقطۂ نظر سے کسی بھی نظریے کی اصل حقیقت اس کے مادی اور معاشی ڈھانچے سے جڑی ہوتی ہے۔ جب تک ذرائع پیداوار پر چند طبقات کا قبضہ رہے گا، “امت” کا تصور محض ایک جذباتی نعرہ رہے گا، جو مظلوم طبقات کو اصل استحصالی قوتوں کے خلاف شعور بیدار کرنے سے روکے گا۔

اقبال کی نظم میں ابلیس کا ایک مشیر کہتا ہے:

“جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیّت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے!”

یہاں مزدکیت (اشتراکیت) کو ایک خطرہ قرار دیا جا رہا ہے، اور اس کے متبادل کے طور پر اسلام کو پیش کیا جا رہا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کون سا اسلام ہے؟

کیا یہ وہ اسلام ہے جس میں مساواتِ محمدی کی بات کی گئی؟ یا وہ اسلام جو بنی امیہ، بنی عباس، اور ترک سلطنت کے استبدادی ڈھانچوں میں ڈھل گیا؟

2. مارکسی تنقید: کیا سرمایہ داری کو مذہب کے ذریعے شکست دی جا سکتی ہے؟

مارکسی فلسفے میں معیشت کو بنیادی ڈھانچہ (Base) اور سیاست، مذہب، ریاست، اور ثقافت کو بالائی ڈھانچہ (Superstructure) قرار دیا گیا ہے۔ مارکس کا استدلال ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوتا، کوئی بھی بالائی تبدیلی محض ظاہری اور غیر مستقل ہوتی ہے۔

اقبال، مغربی سرمایہ داری پر شدید تنقید کرتے ہیں، مگر ان کا متبادل ایک مذہبی و اخلاقی ماڈل پر مشتمل ہے، جو عملی طور پر طبقاتی تضاد کو ختم نہیں کرتا، بلکہ محض اخلاقی اصولوں کے ذریعے سماج کی اصلاح کا نظریہ پیش کرتا ہے۔

مارکس کے برعکس، اقبال سمجھتے ہیں کہ معاشرتی اصلاح کا اصل ذریعہ انسان کی باطنی و روحانی ترقی ہے۔ مگر مارکسی تنقید کے مطابق، جب تک ذرائع پیداوار مزدور طبقے کے ہاتھ میں نہیں آتے، مذہب محض ایک نظریاتی ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتا رہے گا۔

اقبال کی مجلسِ شوریٰ میں ابلیس کا ایک اور مکالمہ ملاحظہ کریں:

“ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرارِ آرزو!”

یہاں اقبال نے امت مسلمہ کو ایک ابھرتی ہوئی قوت کے طور پر پیش کیا ہے، مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ امت کس معاشی و سماجی ڈھانچے پر قائم ہوگی؟

کیا یہ کسی جاگیردارانہ خلافت پر مبنی ہوگی؟

کیا یہ کسی جدید اسلامی جمہوریت پر مبنی ہوگی؟

کیا یہ کوئی نئی معاشی تشکیل پیش کرے گی؟

اقبال کی شاعری میں ان سوالات کا کوئی واضح جواب نہیں ملتا۔ وہ اشتراکیت کی بعض قدروں کو سراہتے بھی ہیں، مگر اس کے ملحدانہ اور مادیت پرست رجحان کو مسترد کر دیتے ہیں۔ اس غیر واضح مؤقف کی وجہ سے اقبال کا متبادل نظریہ ابہام کا شکار رہتا ہے۔

نتیجہ: مارکس، اقبال اور انقلابی امکانات

1. اقبال سرمایہ داری پر تنقید ضرور کرتے ہیں، مگر اس کے متبادل کے طور پر ایک مبہم مذہبی و اخلاقی ماڈل پیش کرتے ہیں، جو عملی طور پر طبقاتی تضاد کو ختم نہیں کرتا۔

2. مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو جب تک ذرائع پیداوار پر مزدور طبقے کا کنٹرول نہیں ہوگا، کوئی بھی نظام حقیقی مساوات پیدا نہیں کر سکتا—چاہے وہ مذہبی ہو یا سیکولر۔

3. “امت” کا تصور ایک جذباتی اور سیاسی نظریہ ہے، جو پرولتاریہ کی حقیقی جدوجہد کو ایک مثالی مگر غیر حقیقی نصب العین میں الجھاتا ہے۔

یہ قسط مجلسِ شوریٰ میں ابلیس کے نظریات اور اقبال کے متبادل کی بحث کو واضح کرتی ہے۔ اگلی قسط میں ہم اقبال کے انسانِ کامل اور مارکس کے “نیا انسان” (New Man) کے تصور کا تقابلی جائزہ لیں گے، اور یہ دیکھیں گے کہ مزدور طبقے کے لیے حقیقی نجات کا راستہ کیا ہو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply