گذشتہ دنوں ہونے والے سینٹرل سلیکشن بورڈ کی سفارشات نے پاکستان کی بیوروکریسی کو اضطراب میں مبتلا کررکھا ہے۔سینٹرل سلیکشن بورڈ کے سرپرائز فیصلوں سے اعلیٰ سرکاری ملازمین چکرا کررہ گئے ،خاص طور پر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پولیس سروس آف پاکستان کے آدھے سے بھی زائد افسران کو پرموٹ نہیں کیا گیا۔ پرموٹ نہ کیے گئے افسران کی اکثریت کا اشارہ تین اہم شخصیات کی طرف تھا کہ اس وقت وہ پاکستان کے زمینی خدا بن کر انتقامی فیصلے کر رہے ہیں، بیوروکریسی نے بورڈ میٹنگ کو رسمی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کی پرچی پہلے سے تھما کر بھیجا گیا تھا۔ ایک سینئر افیسر کا کہنا تھا کہ سارے کیرئیر میں ایک روپے کی کرپشن یا کوئی خراب رپورٹ ثابت کردیں وہ خود استعفیٰ دے دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ فرضی اور سفارشی رپورٹوں پر انہیں ’’فکس‘‘ کیا گیا ہے جبکہ کچھ افسران کے معاملے میں نئی رپورٹس کی بجائے پرانی رپورٹس پیش کی گئیں جو اس گریڈ میں ترقی کیلئے ریلیوینٹ ہی نہیں تھیں۔ بلوچستان ٹرین حادثے کی وجہ سے سیکرٹری داخلہ، آئی جی اور چیف سیکرٹری بلوچستان سینٹرل سلیکشن بورڈ میٹنگ کا حصہ نہیں بن سکے، ان کی غیرموجودگی میں ایف آئی اے اور بلوچستان کے افسران کی پرموشن کا فیصلہ کیسے کیا جا سکتا ہے ؟ بیوروکریسی کی اکثریت نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے وزیراعظم ’’ریویو بورڈ‘‘ میں سید توقیر حسین شاہ جیسی غیر جانبدار شخصیات کو شامل کریں، فرضی اور جعلی رپورٹس کی بجائے سب کو قابل قبول سپیشل ویٹنگ ایجنسی کے طور پر آئی ایس آئی کی رپورٹ پر فیصلہ کریں، ہم من و عن تسلیم کریں گے۔ جناب وزیراعظم سینٹرل سلیکشن بورڈ جس قدر متنازع ہوچکا ہے صورت حال کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ ریویو بورڈ کیا جائے۔ اگر اس متنازع بورڈ پر ’’ریویو‘‘ نہیں لیتے تو بیوروکریسی سے سروس ڈلیوری کی امید چھوڑ دیں کیونکہ جن افسران کو ناحق ترقی سے محروم کیا جائے گا تو وہ اپنی فرسٹیشن کیلئے عوامی و فلاحی کاموں میں دلچسپی نہیں لیں گے اور کرپشن کا راستہ اختیار کریں گے۔
جو واقعی کرپٹ ہے اس کی سزا صرف ترقی نہ دینا کیوں؟ کرپٹ افراد کو نہ صرف نوکری سے نکالا جائے بلکہ لوٹی ہوئی رقم جرمانہ سمیت واپس لی جائے۔
ان افسران کو بھی ترقی سے محروم کیا گیا جو حکومتی رٹ بحال کرنے کیلئے مخالف سیاسی جماعت کی ”ہٹ لسٹ” پر ہیں،انکا مذاق اڑایا جارہا ہے کہ حکومت نے انہیں استعمال کرکے پھینک دیا ہے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ آئندہ کوئی آفیسر حکومتی رٹ کی بحالی کیلئے کام نہ کرے ؟یہی وجوہات ہیں کہ بہت سارے افسران سول سروس کو خیرباد کہہ چکے ہیں۔
حکومت کی مثبت ایمج سازی کیلئے دن رات ایک کرنے والے انفارمیشن گروپ کے افسران کی ترقی کا سفر انتہائی سست اور ناکافی سہولیات الم ناک ہیں۔ ایف بی آر، آفس مینجمنٹ، ریلوے اور آڈٹ اینڈ اکائونٹس کے افسران کی زبوں حالی کا تذکرہ تفصیلی کالم میں۔ ارباب حکومت کی طرف سے دیے گئے اختیارات کا ’’مس یوز‘‘ بلکہ ’’ابیوز‘‘ کرکے چند بیوروکریٹ اپنے ہی افسران کے مستقبل سے کھلواڑ کر رہے ہیں جس سے ترقیوں سے محروم افسران کا کیرئیر خراب ہو رہا ہے۔ چند شخصیات وفاقی اجارہ داری کے ساتھ صوبوں میں بھی اہم ترین سیٹوں پر اپنے منظور نظرافسران لگا کر تمام صوبوں خاص طور پر پنجاب پر اپنی مکمل اور سخت گرپ بنا کر اپنی بالادستی منوا رہے ہیں۔ پنجاب کے ایک سیکرٹری اپنے ماتحت بدنام زمانہ کرپٹ آفیسر کو کئی ماہ سے عہدے سے ہٹانا چاہتے ہیں لیکن صرف اس لیے نہیں ہٹا پا رہے کہ مذکورہ کرپٹ افیسر سینٹرل سلیکشن بورڈ کے ایک ممبر کا کارخاص ہے وہ ناراض نہ ہو جائے۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کو صوبائی سروس کے افسران کی بیچارگی بھی ختم کرنا ہوگی۔ پی پی جی مکمل کرنے کے باوجود 100سے زائد افسران تین سال سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود پرموشن بورڈ کی راہ تک رہے ہیں۔اسی طرح پی ایس ایم جی کرنے والے افسران بھی دوسال سے ترقی سے محروم ہیں۔ ایک ساتھ ایس ایم سی کرنے کے باوجود دوسرے گروپ پرموٹ ہوگئے اور پی ایم ایس والے ابھی تک بورڈ کے منتظر ہیں۔ پی ایم ایس افسران کو ترقی اور پوسٹنگ کے مساوی حقوق دیے بنا صوبائی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ چند افسران اپنی بالادستی منوانے اور اپنے چہیتے افسران کو سیاہ و سفید کی ملکیت دینے کیلئے جو خطرناک اقدامات کررہے ہیں وہ کسی بھی طور پر پاکستان کے بھلے میں نہیں ہیں۔ گریڈ بیس کی سیٹوں پر گریڈ اٹھارہ والے کنسیپٹ کلئیر افسران تعینات ہیں جبکہ سینئر افسران کی خلاف میرٹ خواہشات سے انکار کی جسارت کرنے والے ایماندار افسران مہینوں سے او ایس ڈی ہیں یا پھر کھڈے لائن پوسٹنگ۔
وزیر اعظم اور وزراء اعلیٰ کو مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے سول سروس اور پاکستان کو تباہی سے بچانے کیلئے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے ملکی باگ ڈور چند افراد کے حوالے کرنے کی بجائے ہر کسی کے اختیارات کا تعین کیا جائے۔پختہ شواہد کے بغیر کسی کو بھی ترقی سے محروم نہ کیا جائے۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور ان کی ٹیم پاکستان کو ترقی و کامیابی کی منزلوں پر لے جانے کیلئے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر اور وزیراعظم شہباز شریف سی پیک، سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل اور بیرونی سرمایہ کاری کے ذریعے استحکام پاکستان کیلئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ خود پسند افرادسے گذارش ہے کہ خدارا! چیف آف آرمی سٹاف اور وزیراعظم کی کوششوں کو رائیگاں نہ کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں