محمد الیاس صاحب کے ناول پڑھنے سے پہلے ہی فیس بک پر ان سے تعارف تھا۔ تب وہ فیس بک پر کچھ حد تک فعال ہوا کرتے تھے۔ شروع سے ہی نظریاتی طور پر خود کو ان کے مخالف کھڑا محسوس کیا لیکن ان کے لیے دل میں احترام ہمیشہ موجود رہا ہے۔ ایک مہربان نے ان کی کتابیں گفٹ کیں تو پڑھ نہ سکا۔۔
ناول کے متعلق میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو مصنف کہانی کے آغاز میں قاری کو اپنے ساتھ جوڑنے کا ہنر جانتا ہو یا قاری خود کو شروع میں ہی جس کہانی سے جڑا ہوا محسوس کرے تو اسے پڑھنا آگے چل کر خوشگوار تجربہ رہتا ہے۔ کہر کا آغاز بھی ایسا ہی جاندار تھا۔ شروع کرنے سے دو تین دنوں میں ختم کرنے تک یہ میرے پسندیدہ ناولوں کی فہرست میں شامل ہو چکا تھا۔ اس کی کہانی، کردار کے ساتھ ساتھ موضوعات تو شاندار تھے لیکن اصل ماحول ناول کی فضا نے بنایا تھا جو اختتام تک موجود رہا۔ دو چار دوستوں کو بھی پڑھنے کا کہا اور ان کو بھی بہت پسند آیا۔۔ حبس کو پڑھنا بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا جس کی وجہ سے تمام تر فکری اختلافات کے باوجود محمد الیاس صاحب میرے پسندیدہ لکھاریوں کی فہرست میں شامل ہوئے۔۔
محمد الیاس صاحب پر بہت کم کسی ادبی نقاد کی طرف سے کچھ پڑھنے کو ملا ہے نہ ہی ان کے ناولوں کا کہیں کچھ خاص تذکرہ ہوتا ہے۔ وہ خود بھی گوشہ نشینی اختیار کر چکے ہیں اور ان کا پبلشر نہ تو جدید مارکیٹنگ کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے اور غالبا کوئی خاص ضرورت بھی نہیں۔ خیر کہر پر ایک مضمون لکھنے کا ارادہ تھا جو لکھا بھی لیکن کسی طرح نوٹ پیڈ سے ڈلیٹ ہو گیا۔۔آج بہت عرصے بعد چھٹی کی تو سوچا کچھ نیا پڑھا جائے۔ پچھلے دنوں یہ سنگ میل پر سب سے سستا ناول نظر آیا تو اٹھا لیا تھا اور ابھی ختم ہوا ہے۔۔
مایا کو مایا ملے کا انتساب پڑھتے ہی دلچسپی پیدا ہوئی جو ”موچیوں اور نایوں کے نام“ کیا گیا ہے۔ یہ کہانی بھی دو موچی اور نائی دوستوں کی ہے۔ اردو ادب میں شناخت، ذات پات اور اس کے ساتھ جڑے تصورات پر بہت سی کہانیوں میں کچھ نا کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے لیکن یہ ناول خاص طور پر ہمارے معاشرے میں مختلف پیشوں کے ساتھ جڑے لوگوں، تصورات اور رویوں کے متعلق تفصیل سے بات کرتا ہے۔
الیاس صاحب کی فکشن کا سب سے اہم موضوع طبقاتی تفاوت اور طبقاتی کشمکش ہے۔ یہ کشمکش مختلف موقعوں اور صورتوں میں پورے معاشرے میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فرق چونکہ ہمارے معاشرے میں ہر جگہ موجود ہے اس لیے یہ ہمارے لکھاریوں کا پسندیدہ موضوع ہے جو الیاس کے فکشن پر چھایا ہوا۔ ان کی کہانیاں زیادہ تر قیام پاکستان سے تھوڑا عرصہ پہلے سے شروع ہوتی ہیں اور موجودہ زمانے تک آتی ہیں۔ اس دورانیے میں وہ بہت خوبصورتی سے نہ صرف اپنے ہیرو کی کہانی بیان کر رہے ہوتے ہیں بلکہ ملکی تاریخ، اس میں ہونے والے واقعات اور ان کے عام لوگوں کی زندگیوں پر اثرات کو ہمیشہ کہانی کا حصہ بناتے ہیں۔
مایا کو مایا ملے بھی ایسے ہی دو دوستوں لبھا موچی مطلب بڑی دعاوں سے مانگا ہوا اور مہنگا نائی کی کہانی ہے۔ یہ کہانی الیاس صاحب کے باقی ناولوں کی طرح ہمارے ملک کی ستر سالہ تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔ جہاں ہر طرف دولت کا راج ہے اور پیسے والے کو سلام کیا جاتا ہے۔ گزرے وقت کے ساتھ کم تر مانی جانے والی ذاتوں میں جن لوگوں کے پاس پیسہ آتا گیا انہوں نے پہلا کام اپنے نام کے ساتھ جڑے ذات برادری کے ٹیگ کو بدلنے کا کیا۔ نائی لودھی بنے، مراثیوں نے قریشی بننے کو ترجیح دی تو مصلی بھٹی بننے لگے۔ پچھلے ستر سالوں میں ہمارے سماج کو کس طرح اس بیماری نے جکڑا ہوا ہے وہ لبھے اور مہنگے کی کہانی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
ناول چونکہ 223 صفحات کا ہے لہذا اس میں ستر سالہ تاریخ کو سمونے کے لیے ضروری تھا کہ کہانی کا پیس چوتھے گئیر میں رکھا جاتا جس سے کہانی متاثر ہوئی۔ اس سے بھی زیادہ مسئلہ رننگ کمنٹری کا ہے جو واقعات کو مکمل طور پر کنٹرول کیے ہوئے ہے۔ جس کہانی میں واقعات پر کمنٹٹری حاوی ہونے لگے تو مجھے بطور قاری اس میں دلچسپی کم ہونے لگتی ہے۔ چونکہ الیاس صاحب کو سیاستدان کچھ زیادہ پسند نہیں اور اسی نسبت سے وہ ملک میں موجود جمہوریت کو بھی اچھا نہیں سمجھتے۔ ہاں ایوب خاں کا دور انہیں پسند ہے۔ یہ سب باتیں اپنے زمان و مکان سے ہٹ کر تقریباً ان کے تمام ناولوں میں موجود ہوتی ہیں جو یہ ناول پڑھتے ہوئے میرے لیے زیادہ کوفت کا سبب بنتی ہیں۔
اسی وجہ سے کہانی کے درمیان پہنچ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ مصنف کہانی سنانے کی بجائے دراصل ملک کے تاریخی حالات پر اپنا تبصرہ پیش کرنا چاہتے تھے۔ جس کو بیان کرنے کے لیے انہوں نے مہنگے موچی کے کردار کو چنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناول کی فضا جو آغاز میں قاری کو اپنے ساتھ جوڑتی ہے وہ اختتام تک پہنچتے بوریت میں بدل جاتی ہے۔ مصنف کو اپنے نظریات کے پرچار کا حق حاصل ہے لیکن جب وہ ہر ہر کہانی میں سامنے آئیں تو دو تین ناولوں کے بعد باتیں دہرائی جانے لگتی ہیں۔ جو قاری کی دلچسپی کو کم اور آگے جا کر ختم کر دیتی ہے۔ ایک مصنف کی خوبی یہی ہے کہ وہ قاری کے لیے کچھ نیا پیش کرتا ہے۔ قاری کو اپنی کہانی کے ساتھ اول سے آخر تک جوڑے رکھتا ہے۔ اپنے نظریات کو یوں پیش کرتا ہے کہ وہ کہانی کا حصہ محسوس ہوتے ہیں اور یہی اس کی کامیابی ہے۔ یہ ناول جس طرح آغاز میں دلچسپ اور امکانات سے بھرپور محسوس ہوتا ہے درمیان میں پہنچ کر بہت واضح ہو جاتا ہے۔
کردار آزاد ہونے کی بجائے اپنے نظریات کے محتاج نظر آتے ہیں۔ ان کی تعلیم واجبی سی ہوتی ہے لیکن ان کی سوچ ایک ترقی پسند، انقلابی اور فیسمنسٹ کی سی ہو جاتی ہے۔ اوپر سے 223 صفحات لکھ کر الیاس صاحب کو یہ ناولٹ لگتا ہے لہذا اب ان کے سب ضخیم ناول کو ڈھونڈ کر پڑھتے ہیں جو 848 صفحوں پر مشتمل ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں