کہانی کچھ یوں ہے کہ موجودہ آرمی چیف نے پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی میں ایک ایسا جملہ کہا کہ پوری قوم جیسے ہڑبڑا کر جاگ گئی:
“ہمیں سافٹ اسٹیٹ کی سوچ سے نکل کر ہارڈ اسٹیٹ بننا ہوگا!”
جنرل صاحب تو یہ کہہ کر چلتے بنے، مگر یہاں اہلِ دانش کا قافلہ وہیں رُک گیا، گردن کھجانے لگا، اور پھر بحثوں کا بازار گرم ہوگیا۔
اب سوال یہ ہے کہ سافٹ سٹیٹ اور ہارڈ سٹیٹ کی اصطلاحات آخر آئی کہاں سے؟ اور ہم کون سی ریاست ہیں؟ سافٹ، ہارڈ، یا پھر وہ تیسری قسم جسے عرفِ عام میں “بنانا ری پبلک” کہا جاتا ہے؟
سافٹ سٹیٹ کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی حکومت جو اپنے ہی قوانین پر عملدرآمد نہ کرا سکے، جس کے فیصلے کمزور اور غیر مؤثر ہوں، جہاں ہر شخص اپنی مرضی کرے اور حکومت محض تماشائی بنی رہے۔
یہ وہ ریاست ہوتی ہے جہاں:
*قانون طاقتور کے لیے نرم اور کمزور کے لیے سخت ہوتا ہے۔
*ریاست کی خودمختاری ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے، کہیں جاگیردار حکمران ہوتا ہے، کہیں بیوروکریسی، کہیں عدلیہ، اور کہیں عسکری ادارے۔
*دہشت گرد تنظیمیں بھی کام کر رہی ہوتی ہیں، مافیا بھی، اور عالمی کھلاڑی بھی۔
پاکستان کی مثال لیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم برسوں سے ایک سافٹ سٹیٹ میں جی رہے ہیں جہاں:
*اگر آپ کا کوئی عزیز لاپتہ ہو جائے تو آپ کو پتہ نہیں چلتا کہ اسے ریاست لے گئی، کسی دہشت گرد گروہ نے اغوا کیا، یا وہ خود روپوش ہوگیا۔
*اگر کوئی شخص کرپشن کرے تو سزا کا کوئی امکان نہیں، بلکہ وہ پارلیمنٹ میں مزید اعلیٰ عہدہ سنبھال لیتا ہے۔
*دہشت گردی کے خلاف ریاست ایک طرف جنگ لڑ رہی ہوتی ہے، اور دوسری طرف انہی عناصر کو خاموشی سے جگہ بھی دے رہی ہوتی ہے۔
یہ وہ ریاست ہوتی ہے جہاں عدالتیں کمزور مجرموں پر تو بجلی کی طرح گرتی ہیں مگر بڑی مچھلیوں کو شاباش دے کر رخصت کر دیتی ہیں۔ جہاں میڈیا اور عوام جذباتی بیانیے میں الجھے رہتے ہیں اور اصل طاقت کے مراکز خاموشی سے اپنی چالیں چلتے رہتے ہیں۔
ہارڈ سٹیٹ، جیسا کہ جنرل صاحب کا اشارہ تھا، وہ ہوتی ہے جہاں ریاست کا حکم حرفِ آخر ہوتا ہے، جہاں قوانین پر سختی سے عمل درآمد ہوتا ہے اور کوئی طاقت ریاست کے اختیار کو چیلنج نہیں کر سکتی۔
مثال کے طور پر:
*چین میں اگر کوئی کرپشن کرے تو اس کا انجام موت کی سزا بھی ہو سکتا ہے۔
*روس میں ریاست کی مخالفت کرنے والوں کے لیے ایک خاص “پروٹوکول” ہے جس کے بعد وہ منظرعام سے ایسے غائب ہوتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے۔
*ترکی میں جب 2016 میں فوجی بغاوت ناکام ہوئی تو اردگان نے چند ہفتوں میں ہزاروں لوگوں کو گرفتار کر کے ریاستی اختیار بحال کر دیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان میں ہارڈ سٹیٹ کا قیام ممکن ہے؟ اور اگر ہے تو اس کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں گے؟
یہاں سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان فی الحال نہ تو مکمل طور پر سافٹ سٹیٹ ہے، نہ ہی ہارڈ سٹیٹ۔ بلکہ حقیقت میں ہم ایک ایسی ریاست ہیں جو زیادہ تر “بنانا ری پبلک” کی تعریف میں آتی ہے۔
بنانا ری پبلک وہ ریاست ہوتی ہے جہاں:
*پالیسیز بیرونی طاقتوں کے اشارے پر بنتی ہیں۔
*ریاست کے فیصلے ذاتی مفادات پر مبنی ہوتے ہیں، قومی مفاد پر نہیں۔
*عوام کو صرف جذباتی نعرے دے کر بہلایا جاتا ہے جبکہ اصل کھیل پس پردہ چل رہا ہوتا ہے۔
پاکستان میں جب بھی ریاست نے سختی دکھانے کی کوشش کی، اس کا نشانہ صرف عام لوگ بنے۔ جاگیردار، وڈیرے، سرمایہ دار، اور کرپٹ سیاسی و عسکری اشرافیہ ہمیشہ محفوظ رہی۔ اگر واقعی پاکستان کو سافٹ سٹیٹ سے ہارڈ سٹیٹ میں تبدیل کرنا ہے تو یہ تبدیلی صرف عام شہریوں پر لاگو نہیں ہونی چاہیے بلکہ اسے ان طاقتور طبقات تک بھی پہنچنا ہوگا جو درحقیقت ریاست کو یرغمال بنائے بیٹھے ہیں۔
اگر واقعی پاکستان کو ایک مضبوط ریاست بنانا ہے تو ہمیں درج ذیل اقدامات کرنے ہوں گے:
1. قانون کی بالادستی: کوئی مقدس گائے نہیں ہونی چاہیے، سب کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے۔
2. معاشی خودمختاری: ریاست کی پالیسیاں عالمی مالیاتی اداروں کے بجائے قومی مفاد کے مطابق بننی چاہئیں۔
3. دہشت گردوں کے لیے زیرو ٹالرینس: چاہے وہ کسی بھی نظریے سے تعلق رکھتے ہوں، انہیں برداشت نہیں کرنا چاہیے۔
4. فوج، عدلیہ اور بیوروکریسی کا احتساب: جب تک یہ ادارے جوابدہ نہیں ہوں گے، تب تک ریاست حقیقی معنوں میں مضبوط نہیں ہو سکتی۔
5. بیرونی مداخلت کا خاتمہ: پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی آزاد کرنی ہوگی، نہ کہ ہر عالمی کھلاڑی کے اشاروں پر چلنا ہوگا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہارڈ سٹیٹ بننے کا مطلب صرف سخت قوانین نہیں بلکہ ان قوانین کا صحیح اطلاق بھی ہے۔ اگر یہ سختی صرف غریب اور متوسط طبقے کے لیے ہوگی، جبکہ اشرافیہ اسی طرح آزاد پھرے گی، تو پھر یہ ہارڈ سٹیٹ نہیں بلکہ ایک اور بنانا ری پبلک ہوگی جہاں آمریت کا لبادہ جمہوریت کے اوپر ڈال دیا گیا ہوگا۔

اگر واقعی پاکستان کو ایک حقیقی ہارڈ سٹیٹ بنانا ہے، تو سب سے پہلے اسے بنانا ری پبلک کی سوچ سے نکلنا ہوگا۔ ورنہ یہی سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کی بحث ایک اور لاحاصل نعرہ بن کر رہ جائے گی، اور ہم ایک بار پھر کسی نئے نعرے کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں