آخر ہونے کیا جا رہا ہے؟ – شیخ خالد زاہد

وقت کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا، اگر کوئی ایسا کرنے کی کوشش کرے تو وقت اسے روندتا ہوا گزر جاتا ہے۔ وقت کی نرالی ادا ہے کہ کوئی حالات کے کیسے بھی چنگل میں پھنسا ہو کوئی کتنی ہی سختی جھیل رہا ہو، کسی پر اذیتوں کے پہاڑ توڑے جا رہے ہوں مجال ہے کہ وقت ایک لمحہ کا توقف کرے اور ٹھہر کر پوچھ لے کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے۔ ہمیں اس بات کی سمجھ آجانا آسان نہیں تھا لیکن آج جب فسلطین کے مسلمانوں پر ظلم و بربریت کی تاریخ رقم کی جارہی ہے، معصوم نونہالوں کو انتہائی سفاکی اور بیدردی سے شہید کیا جارہا ہے اور جو بچ رہے ہیں ان کے حالات نا قابل بیان ہیں۔ شہر کے شہر ملبے کے ڈھیر بن چکے ہیں اور ملبے میں دبے لوگ جن میں معصوم بچے بھی شامل ہیں اپنی بے بسی کی منہ بولتی تصویر بنے کیمرے کو دیکھ رہے ہیں ان کی اعلی ظرفی دیکھئے وہ کسی سے مدد کی بھی درخواست نہیں کر رہے لیکن انکی آنکھوں سے درد اور تکلیف سے بہتے آنسو لاتعداد سوال بن کر ہمارے سامنے گر رہے ہیں۔تو دوسری طرف باقی دنیا خصوصی طور پر مسلم دنیا بے حسی اور لاپرواہی کی تاریخ رقم کررہی ہے اور وقت ہے کہ گزرے ہی جار ہا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ہے برکتوں اور رحمتوں کا ہر ہر پل نزول ہے طرح طرح کی نعمتیں سحری و افطاری کے اوقات میں ہمارے دسترخوانوں پر سج رہی ہیں، ہم انتہائی لاڈ پیار سے اپنے جگر گوشوں کو دن بھرکے روزے کی وجہ سے کھانے اور پینے کیلئے آگے پیچھے ہورہے ہیں۔ یہ ماہ رمضان وہاں بھی گزر رہا ہے جہاں گولیوں کی گھن گرج ہے جہاں فضائی بمباری کے نتیجے میں ہر طرف دھول مٹی ہے اور ملبے میں دبے کچھ لاشے ہیں اور کچھ جو بچ گئے ہیں خدائی معجزے کے منتظر ہیں۔

امریکہ کو دنیا میں نیوکلیس کی حیثیت حاصل ہے دنیا میں کہیں بھی کچھ ہورہا ہے اس کا کسی نا کسی طرح سے تانا بانا امریکہ سے جا کر ضرور ملتا ہے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ دنیا کے اکثر ممالک خصوصی طور تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے ممالک اپنے داخلی امور پر بھی امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالتے ہی ساری دنیا میں بھونچال جیسے کسی بھونچال کا شکار ہوگئی ہے اور اس بھونچال کی سب سے بڑی وجہ آمریکہ کی مرکزی حیثیت ہے جو اس نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر قائم کر رکھی ہے۔مسئلہ  یوکرین ہو یا پھر فلسطین امریکہ اپنا ایک مخصوص بیانیہ قائم کئے ہوئے ہے۔ جو اس بات سے قطع نظر ہے کہ یوکرین کے لوگ کیا چاہتے ہیں اور فلسطین کے لوگو کی کیا ترجیح ہے۔ امریکہ اپنے نقطہ نظر پر کارفرما رہتا ہے اور اس نقطہ نظر کو صحیح ثابت کر کے بھی دکھاتا ہے جو اس کی بات کو نہیں مانتا وہ اسے اس کے ہی دام میں الجھا دیتا ہے اور دنیا میں عبرت کا نشان بنا دیتا ہے، اب عبرت کے نشان کرہ عرض پر کہاں کہاں ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔

اسرائیل نے دنیا کو دنیاوی ترقی میں لگایا، آسائشوں کے حصول کی جستجو دے دی اور دنیا کی دولت پراپنی ذہانت اور بہترین حکمت عملی کی بدولت قابض ہوگیا۔ بظاہر تو امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ سمجھ نہیں آتا لیکن خطے میں اپنا اثر ورسوخ جمانے کیلئے آمریکہ نے ایسا کر رکھا ہے دوسری جانب روس کیساتھ بھی اب امریکہ کی جانب سے برف پگھلتی محسوس کی جارہی ہے جس کی وجہ یوکرین ہے جہاں آمریکہ کے مفاد روس سے زیادہ ہیں۔آمریکی صدر بہت جلد سعودی عرب کا دورہ کرنے والے ہیں جہاں وہ تقریباً ایک ٹریلین ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری لے جائیں گے اور آمریکہ کی معیشت کو مزید بہتر و مستحکم بنانے کیلئے کام کرینگے یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ وہ سعودی حکومت کو اپنی ہر قسم کے تعاون کی بجائے ان سے ہر قسم کی تعاون کو بھی یقینی بنائیں گے۔امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں ایک نئے امریکہ کی بنیاد کھودتے محسوس ہورہے ہیں کیونکہ صدر صاحب کسی سول ڈکٹیٹر کی طرح ایگزیکٹو حکم ناموں پر حکم نامے دستخط کئے جا رہے ہیں اور محدود وقت میں ان فیصلوں پر عمل درآمد بھی کروا رہے ہیں۔ اب یہ سوال بھی پیدا ہو رہا ہے کہ کیا ان اقدامات کی بدولت آمریکہ کس نئی سمت کی جانب پیش قدمی کرے گا۔ اس پیشتر آمریکہ نے پچھلی دو دہائیوں سے اپنے آ پ کو دنیا جہان میں فسادات کروانے میں مصروف رکھا ہوا تھااور ساتھ ہی ثالثی بھی کراتا دیکھائی دیتا تھا اور امن و امان کے اقدامات میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا رہا گوکہ کہیں بھی تاحال امن قائم نہیں ہوسکا ہے لیکن موجودہ دور میں بین الاقوامی دروازے ایک طرفہ آمد و رفت کیلئے کھولنے کی تیاری ہوتی دکھائی دے رہی ہے، اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے فیصلہ ساز اور حکمت عملی تیار کرنے والوں میں ایک قسم کا تناؤ محسوس کیا جاسکتا ہے یعنی آمریکہ اپنی خارجہ حکمت عملی کا از سر نو جائزہ لیتا محسوس کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ کے منظم حکمت عملی بنانے والوں کو آمریکہ کے صدر کے ایکزیکٹیو حکم ناموں نے کسی حد تک پریشان تو کیا ہوگا۔ اب مخالف جماعت بھی ان کی حکمت عملیوں سے کوئی خوش یا مطمئن نہیں دکھائی دے رہے ہیں۔ شائد امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار تعلمی نظام کو چلانے والے سرکاری ادارے کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ امریکہ کا نظام تعلیم انتہائی مخدوش حالت میں ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کا از سر نو جائزہ لیا جائے، اس عمل سے امریکیوں کو تو شائد کوئی خاص فرق نا پڑے لیکن بین الاقوامی سطح پر یہ بھی ایک خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ تیسری دنیا کے ممالک اپنے نوجوانوں کو امریکہ ناصرف پڑھنے کیلئے بھیجتے ہیں بلکہ ان کا بنیادی مقصد امریکہ میں باقاعدہ سکونت اختیار کرنا ہوتا ہے، جس کیلئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک طرف تو امت مسلمہ فلسطین کے مسئلے کو لے کر اس پریشانی میں قطعی مبتلہ نہیں دکھائی دے رہی جیسا کہ دکھائی دینا چاہیے، مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک بھائی دوسرے بھائی کو مشکل میں نہیں دیکھ سکتا لیکن یہاں تو اس کے برعکس ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ فلسطین سے ہجرت کرنے والوں کو جن کی تعداد شائد اتنی کثیر نہیں ہے کیوں کہ وہ عظیم لوگ اپنی زمین کے دفاع کیلئے شہادت کو فوقیت دے رہے ہیں نا کہ منہ پھیر کر بھاگ رہے ہیں۔ آس پڑوس کے ممالک جہاں کچھ پناہ گزین پہنچ رہے ہیں انہیں بھر پور طریقے سے خوش آمدید کہا جا رہا ہے لیکن اس سے بظاہر کچھ بھی ہوتا نہیں دکھائی دے رہا۔ کھانے پینے کی اشیاء اور اس طرح کی دیگر ضروریات زندگی فلسطینیوں کو بھیجی جا رہی ہیں جو کہ ان تک نہیں پہنچ رہی ہیں۔امت کیا اپنے مفلوک الحال بھائی بہنوں بچوں اور بزرگوں کیلئے اسرائیل پر اتنا زور بھی نہیں ڈال سکتی کہ وہ یہ اجناس یہ بنیادی ضروریات ہی ان تک پہنچانے کو یقینی بنائے۔تقریباً مسلم ممالک میں مذہبی جماعتیں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن وہ بھی بظاہر فلسطین کے مسئلے کو لے کر کسی غم و غصے کا اظہار کرتی دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ آج رمضان کا تیسرا جمعہ ہے اور جماعت اسلامی پاکستان نے ملک گیر احتجاج کی کال دی ہوئی ہے جو کم از کم انتہائی ضروری اقدام ہے، اس اقدام کو چار چاند لگ جاتے اگر حکومت وقت بھی اس احتجاج کا حصہ بنتی اور دنیا کو واشگاف لفظوں میں یہ پیغام دیتی کہ ہم اندرونی طور پر کیسے بھی مسائل سے دوچار ہوں لیکن امت کے مسئلے پر اور خصوصی طور پر فلسطین کے مسلئے پر متفق ہیں۔ یہاں یہ واضح کرنا لازمی ہے کہ جماعت اسلامی نے گاؤں دیہاتوں یا شہروں کے چھوٹے سے چھوٹے مسائل پر آواز اٹھائی ہے اور امت کے بڑے سے بڑے مسائل کی طرف بھی حکومت وقت کی توجہ دلائی ہے۔ فلسطین جہاں تاریخ کی بدترین نسل کشی کی جارہی، ساری دنیا میں ظلم و بربریت کی تصویریں اور فلمیں دیکھی جا رہی ہیں بلکہ ان اسرائیلی فوجیوں کی شہید بچوں کے کھلونوں کیساتھ سفاکیت پر مبنی تصویریں بھی شائع کی جارہی ہیں اس بے حسی یقیناً ناتوتاریخ میں کوئی مثال ملتی ہے اور نہ ہی مستقبل میں ملے گی (ان شاء اللہ)۔ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کس رخ کی طرف مڑنے والی ہے کیونکہ ابھی تو ایک بھونچال ہے اوراس بھونچال کی وجہ سے ہر طرف گرد آلود موسم ہے کسی کو کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ آخر ہونے کیا جا رہا ہے۔ رمضان کا مہینہ اپنے آخری عشرے میں داخل ہوچکا ہے ہمیں چاہئے کہ کم از کم اپنے فلسطینی بھائیوں بہنوں بزرگوں اور خصوصی طور پر بچوں کیلئے اللہ رب العزت کے حضور خصوصی دعاؤں کا اہتمام کریں۔اللہ ہماری مقدس انبیاء کی سرزمین فلسطین کو دشمن کی سازشوں اور ناپاک عزائم سے محفوظ فرمائیں۔آمین یا رب العالمین۔ دیکھتے ہیں دنیا اس تذبذب سے کب نکلتی ہے یا پھر اس تذبذب کا ہی شکار ہوکر رہ جاتی ہے۔

Facebook Comments

شیخ خالد زاہد
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔ ان کے منتخب مضامین کا پہلا مجموعہ بعنوان قلم سے قلب تک بھی شائع ہوچکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply