شاعری کے عالمی دن کی مناسبت سے
کیا تمھیں کبھی یہ تجربہ ہوا ہے کہ تم کتاب پڑھ رہے ہو، تمھیں اچانک محسوس ہو کہ الفاظ،صفحے سے اڑنے لگے ہیں ۔
صفحہ ، الفاظ سے خالی ہوگیا ہے،اور سب الفاظ، تمھارے سامنے اشیا میں بدل گئے ہیں۔ بالکل زندہ اشیا میں۔
تم جنھیں پہلے پڑھ رہے تھے،اب انھیں دیکھ رہے ہو۔سانس لیتے، چلتے پھرتے،بات کرتے۔ میں نے ان نوجوانوں سے پوچھا۔
ان سب نے مجھے حیرت سے دیکھا۔
جس نوجوان نے پوچھا تھا کہ شاعری کو کیسے پہچانیں، وہی جھجھکتے ہوئے بولا: لفظ، صفحے سے کیسے اڑ سکتے ہیں۔لفظ کوئی پرندے ہیں؟
اسی کے ساتھی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا :شاعری میں سب کچھ ممکن ہوتا ہے۔
ایک اور نوجوان بولا: کبھی کبھی لگتاہے کہ کچھ پڑھتے ہوئے،ذہن میں واضح تصویریں بن رہی ہیں۔جیسے میں پڑھتے ہوئے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔
مجھے ارد گرد کی خبر نہیں رہتی۔ پڑھے ہوئے لفظ، ذہن میں چیزیں اور لوگ بن جاتے ہیں۔
بالکل صحیح کہا۔ ہم خواب اس وقت دیکھ سکتے ہیں، جب سو جائیں۔ جب خود کو بھول جائیں، جب اپنے آپ کو کسی اور کے سپر د کردیں۔
اپنے آپ کو شاعری کی تحویل میں دے دیں، کسی دوسری دنیا ، کسی دوسرے زمانے کے سپرد کردیں ۔
اپنا نام ، پتا، صنف،نسل ، مذہب، زمانہ ، سب کچھ بھلا دیں ،اور شاعری کے آگے حضوری کی کیفیت محسوس کریں۔
حضوری کا لفظ،آپ کو عجیب لگا ہوگا؟
طالب علموں نے اثبات میں سرہلایا۔
حضوری سے مراد، آپ جہاں موجود ہیں، وہاں مکمل طور پر موجود ہوں،اور وہاں جو کچھ موجود ہے،اسے پورے کا پورا محسوس کررہے ہوں۔
ہم لوگوں سے ملتے ہیں ، ان کی باتیں سنتے ہیں ، کتابیں پڑھتے ہیں، مگر کہیں آدھے، کہیں پونے ،کہیں ذرا سا موجود ہوتے ہیں ،اور دوسروں کے وجود کو بھی ٹکڑوں ، قاشوں میں محسوس کرتے ہیں۔
ہماری سب ملاقاتوں میں ، جانے کتنی خالی جگہیں، کتنے رخنے رہ جاتے ہیں ،جنھیں ہم بعد میں اپنی تنہائی میں یا خوابوں میں بھرنے کی کوشش کرتے ہیں،
کئی بار تو عمر گزرجاتی ہے، ہم خود سے ایک مفصل ملاقات نہیں کرپاتے۔ ایک پل کی مکمل ملاقات۔
خیر، معذرت چاہتا ہوں، تم نوجوانوں سے دل کی باتیں کررہا ہوں۔ شاعری اور دوسرے فنون ، ہمیں اسی حضوری کا موقع دیتے ہیں اور خسارے سے بچاتے ہیں۔
اپنے ہی پیاروں سے ہماری ادھوری ملاقاتوں کو مکمل کرتے ہیں۔ جو باتیں ہم کبھی خود سے، دنیا سے اور خدا سے نہ کہہ سکے ہوں، وہ شاعری سمیت دوسرے فنون میں کہتے ہیں۔
جس لمحے ہم یہ سب محسوس کرتے ہیں ، وہی لمحہ شاعری کو پہچاننے کا بھی ہوتا ہے۔
ٹھہریے۔ یہ کہہ کر میں اٹھا، اور گھر کے ایک کمرے میں قائم اپنی لائبریری میں گیا اور اپنی ڈائری اٹھا لایا،جس میں میں نے اپنی پسندیدہ نظمیں درج کر رکھی ہیں۔شاعری کی پہچان کیسے کریں، اس پر بات ہم ،اس نظم کے بعد جاری رکھیں گے۔
میں نے ان نوجوانوں کوسائبیریا کے ممتاز شاعر یوگینی یوتوشینکو (Yevgeny Yevtushenko) کی نظم ’دیر سے پہنچنا‘ سنائی :
کچھ خطرناک ہونے جارہا ہے
خود سے ملنے میں مجھے دیر ہوچکی ہے
میں نے اپنے خیالات سے ملاقات طے کی تھی
مجھ سے میرے خیالات چھین لیے گئے
میں نے فاکنر سے ملاقات طے کی تھی
لیکن مجھے ایک ضیافت میں لے جایا گیا
میں نے تاریخ سے ملنے کا سوچا
مگر ایک تنہا عورت نے مجھے اپنی بستر میں کھینچ لیا
خاردارتاروں سے زیادہ خطرناک
سالگرہ کی تقریبات ہیں،میری اور دوسروں کی
اوربھنا ہوا ، دودھ پیتا خنزیر
مجھے اپنے دانتوں میں سبز پتی کی طرح دبا لیتاہے
ہمیشہ لے جایا گیا
ایسی زندگی کی طرف جو بالکل میری نہیں
جو کچھ میں کھاتاہوں ، وہی مجھے کھاجاتا ہے
جو کچھ میں پیتا ہوں ، وہی مجھے پی جاتا ہے
میں نے خود سے ملنے کی ٹھانی
مگر مجھے اپنے ہی جسم کے گوشت کی ضیافت میں میں بلالیا گیا
مجھے چاروں طرف سے ہار پہنائے جارہے ہیں
مگر بیگلز کی مالا نہیں ، بلکہ بیگلز کے خالی سوراخ
اور میں صفر کے مجموعے جیسا نظر آتا ہوں
زندگی سیکڑوں ٹکڑوں میں بٹ جاتی ہے
جو مجھے تھکا دیتے ہیں،مٹادیتے ہیں
خود تک پہنچنے کے لیے
مجھے اپنا جسم دوسروں سے ٹکرا کر توڑنا پڑا
اور میرے چور چور وجود کو
شور اگلتی بھیڑ روند رہی ہے
میں خود کو جوڑنے کی کوشش کررہا ہوں
مگر میرے بازو اب بھی کٹے ہوئے ہیں
میں اپنے بائیں پیر سے لکھنا چاہتا ہوں
مگر بایاں اور دایاں دونوں پیر
الگ الگ سمتوں کو جاچکے ہیں
مجھے نہیں معلوم ….میرا جسم کہاں ہےَ
اور روح ؟ کیا وہ واقعی
بنا الوداع کہے، پرواز کرچکی ہے؟
میں اس دوردراز ہم نام تک کیسے پہنچوں
جو کہیں سرد رات میں میرا انتظار کررہا ہے؟
مجھے بھول گیا کہ کون سے گھڑیال کے نیچے
میں خود کو کھڑا چھوڑ آیا تھا
جو لوگ نہیں جانتے کہ وہ کون ہیں.
ان کے لیے وقت کا کوئی وجود نہیں
کوئی بھی گھڑیال کے نیچے نہیں ہے
گھڑی پر بھی کچھ نہیں
مجھے خود سے طے شدہ ملاقات کے لیے تاخیر ہوچکی ہے
وہاں کوئی نہیں
بس سگریٹ کے بجھے ہوئے ٹکڑے
اور ایک آخری چمک
اکیلا، مرتا ہو شعلہ !
میں نے یہ نظم ٹھہر ٹھہر کر پڑھی۔ایک ایک لفظ کو محسوس کرکے پڑھا؛ ہر لفظ کو نظم کی لائنوں میں اس کی مخصوص جگہ کو محسوس کرکے پڑھا۔
میں نے ان نوجوانوں کو بتایا کہ یوگینی یوتوشینکو اپنی شاعری کو اتنے زبردست طریقے سے پڑھتا تھا کہ لگتا تھا ، اس کی زبان سے نکلنے والے الفاظ، فضا میں اڑنے لگے ہیں، اور چیزیں اور لوگ بننے لگے ہیں۔
میں یہ نظم اس طرح پڑھ رہا تھا، جیسے میں نے دنیا کے سب کام نپٹا لیے ہوں،جیسے مجھے کہیں پہنچنے کی عجلت ہو، نہ میرا کوئی کام ملتوی ہو، نہ کسی سے کہی گئی کسی بات کا ملال ہو ،نہ کوئی ان کہی بات ،زبان پر آبلہ بنی ہوئی ہو۔
وہ سب نوجوان بھی نظم کو اتنی ہی توجہ اور فرصت سے سن رہے تھے۔
نظم مکمل ہونے کے بعد ، ہم سب کچھ دیر کے لیے چپ ہوگئے۔
اس نظم نے ہمارے اندر ایک عجب جگہ (سپیس) پیدا کردی تھی، ایک اپنی دنیا ہمارے اند ر تخلیق کردی تھی؛ نازک ، گریزپا، طلسمی دنیا۔
ہم نے خوددریافت کیا کہ ہم نے بھی اپنی خود سے ملاقات طے کی تھی ، خود سے کوئی عہد کیا تھا ، ہم نے اسے فراموش کردیا تھا۔ہمیں یہ نظم بالکل اپنا قصہ لگی۔
اس کی تخلیق کردہ دنیا، اپنی دنیا لگی۔ ہم نے اس نظم کی وساطت سے خود سے ملتوی ملاقات کی۔
میں نے ان نوجوانوں سے کہا۔
تم سب نے محسوس کیا ہوگا کہ شاعری اور سلاتھ میں ایک گہری مماثلت ہے۔
سلاتھ کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ عجلت ، اعصاب پر بوجھ ہی نہیں، جرم بھی ہے۔سلاتھ بتاتا ہے کہ بھئی زندگی نہایت آہستہ خرام بھی ہوسکتی ہے۔
شاعری ،بھی زندگی کو آہستہ خرامی سکھاتی ہے۔
ہم سب جلدی میں ہیں؛ بھاگ رہے ہیں؛ کوئی آفت جیسے ہمارا تعاقب کررہی ہو؛ جیسے ہماری ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچ چکی ہو،اور ہم سٹیشن سے دور ہوں ؛
ہم اس وہم سے بے حال ہیں کہ جس جنت کی آس میں ہم گھر سے ، پاؤں میں جوتا ڈالے بغیر بھا گ کھڑے ہوئے تھے، وہ دوسروں کو ملنے والی ہے؛ ہر لمحہ ہم تاخیر کے اذیت ناک احساس میں مبتلا ہیں۔
ہمارے سانس پھولے ہوئے ہیں اور ماتھوں پر پسینہ ہے۔ہم ٹھہرنا، بیٹھنا ، چلنا بھول چکے ہیں؛بس بھاگ رہے ہیں ،جیسے ہمیں ہر لمحہ پشت پر چابک پڑ رہے ہوں۔
ہم عقاب، چیتے ، بھیڑیے کو دیکھتے ہیں، سلاتھ کو نہیں۔
شاعری اور سلاتھ کی روح ایک ہے۔ سلاتھ ،ایک پتے کو کھانے میں پہر لگا دیتا ہے۔ وہ پتے کو ہڑپ نہیں کرتا، اس کے ایک ایک ریشے، ذرے کا ذائقہ محسوس کرکے ، اس ذائقے کو اپنے پورے بدن کے ایک ایک عضو میں اتارتاہے۔
وہ اور پتا ایک ہو جاتے ہیں۔ شاعری کا مطالعہ ،سلاتھ کے پتے کھانے کی مانند ہے۔لفظ چبائے نہیں جاسکتے ،مگر ہر لفظ کی گونج ہے ، باس ہے، شبیہ ہے ، نقش ہے،اور پھر یادوں اور معانی کا طویل سلسلہ ہے۔
شاعری ، ہمیں آہستہ چلنا، آہستہ سوچنا، آہستہ تصور کرنا، آہستہ بولنا اور آہستہ پڑھنا ،اورکیفیت و معنی کو آہستہ محسوس کرناسکھاتی ہے۔
زندگی کی برق رفتاری میں ہم سے جو کچھ چھوٹ جاتا ہے،اس کو ہم شاعری میں بازیاب کرتے ہیں۔

( زیر تصنیف ’’میرا داغستان ِ جدید ‘‘ سے اقتباس)
ناصر عباس نیّر
۲۱ مارچ ۲۰۲۵ء
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں