کوئی بھی چیز جو ابسٹرکٹ ہے یعنی ٹھوس یا مادی نہیں، خیالی یا نظریاتی ہے، یا دوسرے لفظوں میں جسے انسانی ذہن نے تراشا ہے، یا اُس کی مرہونِ منت ہے، کبھی بھی ایک طے شدہ معنی نہیں رکھتی۔ ہر ثقافت ، ہر زبان اور ہر ذہن میں اُس کی معنیاتی تشکیل مختلف ہو سکتی ہے۔ اگر وہ معنی مشترکہ ہے یا قبولِ عام ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُس کو سماجی طور تشکیل دیا گیا ہے اور یہ کام طاقت سے وقوع پذیر ہوتا ہے
یہ سماجی تشکیل بڑی خطرناک چیز ہے۔ شاید یہ بات بہت عجیب لگے کہ دنیا کا ہر تصور یا خیال طاقت کے نظاموں کی پیداوار ہے۔ طاقت طے کرتی ہے کہ کون سا معنی رائج ہوگا۔ یہ طاقت ڈسکورس کی شکل میں ہم پر ’حملہ آور‘ رہتی ہے۔ جسے ڈسکرسو پاور یعنی بیانیوں کی طاقت کہا گیا ہے۔ یہ طاقت بڑی ظالم ہے جو سیدھی سادھی بندوق جیسی طاقت نہیں جو گولی لگنے کا خوف پیدا کرکے ہر کام کروا لیتی ہے بلکہ یہ طاقت تو خیالات، زبان، اور بیانیوں کے زریعے ہمارے تعصبات، مزاج، انتخابات، رویوں اور خواہشوں کو کنٹرول کرتی ہے۔
اس ضمن میں ہم بہت معصوم ہیں۔ ہمیں علم ہی نہیں ہوتا کہ ہم پر کن ذرائع سے طاقت اثر کر رہی ہوتی ہے۔ ہم ماتھے تلک لگا کے، سر پہ ٹوپی پہن کے یا جوڑا باندھ کے، یا صلیب لٹکا کے سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم آزاد ہیں، اصل میں ہم مذہب کی ڈسکرسو پاور کے ماتحت ہوتے ہیں۔ ہم کوئی لباس پہنتے ہیں تو ایسے ہی پہن لیتے ہیں؟ نہیں جی، ہمیں سماج کے ’مہذب اقدار‘ نے بتایا ہے کہ یہ اچھا لباس ہے اور یہ غیر مہذب۔ ہم مختلف ڈیزائن کا انتخاب کرتے ہیں یا رہن سہن کے معیارات کا تعین کرتے ہیں تو کیا ہم کوئی اپنا انٹکاب کر رہے ہوتے ہیں؟ ہمارا ذہن یا مزاج سوشل کنسٹرکٹ ہے۔ اسے سماج نے ترتیب دیا ہے۔ ہم اس کسنٹرکشن کے ہاتھوں اپنی چوائس بنانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
ہمیں کسی شخصیت یا متن کی عظمت کے قائل ہیں تو کیا ہم خود یہ فیصلہ کرتے ہیں، نہیں، بلکہ ایک عقیدے کی طاقت ہم پر عمل کر رہی ہوتی ہے۔
اسی طرح ایک ادبی تشکیل (Literary Construction) بھی ہوتی ہے جو ہمارے ادبی تصورات کو متعین کرتی ہے۔ جو ہمیں پہلے سے سکھا دیتی ہے کہ فلاں بڑا ادب ہے اور فلاں چھوٹا اوت کم معیاری۔ فلاں نام بڑا ہے اور فلاں نام چھوٹا۔ ہم جتنے بڑے ناموں کو پسند کرتے ہیں، ان پر مضامین لکھتے ہیں، ان کے معیارات کی عظمت کے گُن گاتے ہیں۔ سب لٹریری کنسٹرکشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ہم غیر شعوری طور پر پہلے سے متعین نتائج کو قبول کرتے ہیں اور انھیں اپنے ذاتی عظمت کے معیارات بناتے ہیں۔
بورخیس، مارکیز، کافکا، نیرودا، شیکسپیئر، ایلیٹ،حافظ، رومی، غالب، میر، اقبال،انتظار حسین حتیٰ کہ مقامی دانش کے درجنوں نام ہم ادبی تشکیل کی وجہ سے انتخاب کرتے ہیں۔
شاید یہ بات عجیب لگے کہ ہم ادب میں جب داخل ہوتے ہیں تو یہ ادبی سماجی تشکیل ہمارے ذہن کو کنسٹرکٹ کرتی ہے، ہم اس کنسٹرکٹشن کے بغیر ادب کے معیارات کو متعین ہی نہیں کر سکتے۔جس طرح ذرائع ابلاغ، نصابات اور طاقت کے ریاستی ڈھانچے کسی کینن کو منوانے میں شعوری یا غیر شعوری کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں، اسی طرح بہت سے ادبی کینن بھی پہلے سے متعین شدہ معیارات بن کر طاقت کی طرح ہم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہماری ادبی سماجی تشکیل کرتے ہیں۔
ہم ادب کو ابسٹرکٹ ہوکے نہیں پڑھتے۔ ہم ادب کے معنی جو انھی طاقت کے ڈھانچوں کے متعین کردہ ہوتے ہیں،قبول کرتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں