ہماری ایک عادت بن چکی ہے کہ ہم دیار غیر اور دوسروں کی چیزوں کو بہت پسند اور اپنی
خوبیوں اور چیزوں کو نا پسند کرتے ہیں۔
میں بھی جب کسی دکان پر کوئی چیز لینے جاؤں تو پوچھتا ہوں امپورٹڈ دکھا ئیں، چاہے وہ مہنگی ہی ہو۔ حالانکہ ان میں کچھ چیزیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو وطن عزیز کی بھی بنی ہوئی ہوتی ہیں اور یہاں سے وہاں جاتی ہیں اور پھر وہاں سے فارن مہریں لگوا کر ہمارے ہاں پہنچتی ہیں۔
آج کے اِس کالم میں ہم مشہور دانشور اشفاق احمد صاحب کی گفتگو بیان کر رہے ہیں، جو اُنہوں نے اپنی مشہور کتاب “زاویہ-3″ میں بیان کی ہے۔ یہ وہ گفتگو ہے جو اُنہوں نے مشہور شاعر ن م راشد کے بارے میں اپنی یادیں بیان کرتے ہوئے کہی تھی۔ اُنہی کے الفاظ میں اِس کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں
“
کہتے ہیں ن م راشد ملتان کے رہنے والے تھے۔ وہ میرے ریڈیو میں باس تھے۔ بعد میں دوست بنے اور پھر بہت ہی قریبی دوست ۔ راشد صاحب سے ہمارا بہت ہی عقیدت محبت اور جاں نثاری کا سلسلہ تھا لیکن ایک بات پر میں ان سے ضرور معترض ہوتا تھا۔ ان میں مشرق کے مقابلے میں مغرب کی مرعوبیت بہت تھی۔ وہ مغرب کو بہت اہمیت دیتے تھے اور ہر وقت مغرب کی ایجادات کے گن گاتے رہتے تھے۔
میں ان سے کہتا کہ سر آپ اتنے بڑے شاعر ہیں اور شاعر بے شک ایک اونچے مقام پر
ہوتا ہے اس لیے اسے اس قدر مرعوب ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔“
لیکن وہ مغرب اور گورے کی ایجادات سے متاثر تھے
میں نے اس سے کہا کہ اگر آپ بے جا طور پر متاثر ہی ہوتے رہے تو پھر کام چلانا مشکل ہو جائے گا۔ میں ن م راشد صاحب کی بات کر رہا تھا۔ وہ یو این او میں ملازم ہوکر امریکہ گئے۔ یہ
1963
کی بات ہے۔ یو این او کی خوبصورت عمارت میں اٹھارویں منزل پر ان کا دفتر تھا۔
یو این او کی بلڈنگ ایک بند کتاب کی طرح ہے۔ میں ان دنوں براڈ کاسٹنگ کی چھوٹی سی تعلیم کے لیے نیویارک گیا ہوا تھا۔ میں ان کی خدمت میں وہاں حاضر ہوتا تھا اور یہ میری عقیدت کا ایک حصہ تھا۔ جب میں ان کے دفتر میں جاتا تو وہ دریافت کرتے آئس کریم
میں کہتا کیوں نہیں ۔“
ہم وہاں کینٹین چلے جاتے وہ ایک لوہے کی مشین میں پیسے ڈال کر بٹن دباتے تو مشین سے
خود بخود ایک آئس کریم سے بھرا کر چھا نکل آتا۔
وہ مجھے کہتے دیکھا ہے کمال مشین کا ۔
اس زمانے میں فوٹو کاپی کی نئی نئی مشین آئی تھی۔ وہ آج کل کی مشین کی طرح نہیں تھی۔ اس میں براؤن رنگ کی کاپی نکلتی تھی ۔ راشد صاحب کو شاید اتنی فوٹو کاپی کی ضرورت نہیں ہوتی ہے اور میرے اوپر مغرب کا رعب ڈالنے کے لیے اپنی سیکرٹری سے کہتے کہ فلاں کاغذ کی اتنی کا پیاں لے کر آؤ۔ وہ بیچاری ٹک کر کے اس کی کاپیاں نکال دیتی۔ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ تم کوئی چیز لکھو۔ میں نے اردو اور فارسی کا ایک شعر
کاغذ پر لکھا اور کچھ انگریزی میں بھی۔
پھر انہوں نے اس کاغذ کی کا پیاں نکالیں اور یاد دہانی کے لیے وہ مجھے سونپ دیں۔ ہم جتنی
دیرا کٹھے رہتے وہ مجھے مغرب کی ایجادات کی کہانیاں سناتے رہتے۔
میں چونکہ گاؤں سے گیا تھا کہ اس لیے تھوڑا ضدی بھی تھا۔ نالائق اور موٹا بھی تھا اور مجھے
کہتے کہ ” تم آخر کیوں مغرب کی ترقی تسلیم نہیں کرتے ۔“ میں انہیں کہتا کہ ایک اتنا عظیم شاعر میرے سامنے زندہ سلامت بیٹھا ہے۔ یہ میرے ملک
نے پیدا کیا ہے۔ میں کیسے مغرب کی بڑائی مان لوں ۔ اس طرح میرا ان سے عقیدت مندانہ جھگڑا چلتا
رہتا۔
میں تقریباً روز ہی ان کے ساتھ ہی شام کے وقت ان کے گھر جاتا تھا
میرا مقصد یہ تھا کہ ان کے گھر اعلیٰ درجے کی کافی ملتی تھی۔ ان کی بیگم جو تھیں وہ اٹالین تھیں۔ ولائتی عورت تھی۔ اس کے باپ اطالوی تھے ماں آئرش وغیر تھی۔ راشد صاحب کی بیگم بہت اچھی اطالوی بولتی تھیں ۔ اب مجھے بھی اپنی اطالوی زبان اچھی کرنے کا چسکا تھا۔ لہذا میں بھی ہر روز شام کو ان کے گھر جا کر ان سے ملتا۔ اس نے ”کف آگ (وہاں کی مشہور کافی) کا ایک بڑا سا پیکٹ بنا کر رکھا ہوا تھا کہ اشفاق آئے گا تو اسے بنا کر دوں گی۔
کافی بن جاتی اور ہم سب بیٹھ جاتے تو راشد صاحب کی بیگم اور میری میٹنگ شروع ہو جاتی
راشد صاحب
بڑے بھلے اور شریف آدمی تھے۔ میں اگر دیر ہو جاتی تو کھانا بھی ان کے گھر کھاتا۔ دیر ہو جاتی تو وہ مجھے بس سٹاپ پر چھوڑ
کر آتے ۔ یہ ان کی مہربانی تھی۔ رات گئے وہاں بسوں میں نوجوان منی سکرٹ پہنے ہوئے لڑکیاں دیکھ کر کہتے ”دیکھو رات کا وقت ہے، کیا ایسالاء اینڈ آرڈر تمہارے ملک یا کسی مشرقی ملک میں ہے کہ یہ نو جوان لڑکیاں آزادی
سے سفر کر رہی ہیں ۔“ اب میں شرمندہ ہو کر کہتا کہ جناب اکثر تو ایسا نہیں ہوتالیکن کبھی کبھی خواتین اکیلی لمبے سفر
پر چلی بھی جاتی ہیں ۔
میں ان سے ادب سے اور ڈرتے ڈرتے کہتا کہ سردیکھیں کہ ہم میں بھی کوئی خوبی ہے؟“ وہ کہتے کہ ” کہاں کی خوبی کون سی خوبی؟
میں نے کہا کہ سر دیکھئے ہم مہمان نواز لوگ ہیں۔ ڈی جی خان کا ایک گڈریا بھیٹر بکریاں چرا رہا ہے۔ اب اس کے پاس آدھی روٹی اور دو کھجور یں ہیں۔ اگر اس کے پاس کوئی مسافر آتا
ہے تو وہ اس سے کہے گا کہ روٹی کھا کر جانا۔“
وہ کہتے کہ نہیں یہ فضول باتیں ہیں کیا تم نے کچھ ایجاد کیا ہے؟“
اس مرعوبیت میں جو دردناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ان کی بیوی کی سہیلی کا خاوند فوت ہو گیا۔ ہم بھی اس کے جنازے کے ساتھ گئے ۔ وہاں کچھ لوگ مردوں کو جلاتے ہیں اور کچھ دفن کرتے ہیں۔ وہاں انہوں نے مردوں کو جلانے کے لیے ایک جدید
شمشان گھاٹ بنائی ہے۔ جہاں پر اس کی سہیلی کے خاوند کو جلانے کے لیے لے جایا گیا وہ ایسی
شمشان بھومی نہیں تھی جیسی کہ ہم نے اپنے بچپن میں دیکھی تھی کہ لکڑیوں کی چتا لگائی اس میں مردے کو رکھ کر آگ جلائی اور معاملہ ختم۔
وہ جدید شمشان گھاٹ ایسی الیکٹرک مشین تھی بالکل لفٹ کی مانند۔ اس لفٹ کا دروازہ کھلتا تھا۔ اس کے اندر ایک نیگوڑا سا آتا تھا جس میں لاش رکھی جاتی تھی اور اس کے بعد وہ مشین بند ہو جاتی تھی اور وہ نیگوڑا میت کو لے کر کئی ہزار وولٹ میں لے جاتی تھی جہاں اس لاش کا کچھ نہیں بچتا تھا۔ پانچ منٹ کے اندر اندر وہ نیگوڑا اس بنے بنائے آدمی کو لے کر واپس آ جاتا تھا اور اس میں اس شخص کی جگہ سوائے ایک مٹھی راکھ کے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ جب راشد صاحب کی بیوی کی سہیلی کے خاوند کو لٹایا گیا تو وہاں انہوں نے آخری سلام پڑھے۔ دروازہ بند ہوا بٹن دبایا اور وہ شخص جب راکھ میں تبدیل ہو کر واپس آیا تو راشد صاحب نے کہا ” کیا کمال کی چیز ہے۔ ایسی مشین تو ہم نے دیکھی نہ سنی۔
میں نے کہا کہ ”ہمارے ہاں تو شمشان بھومی میں بدبو آتی ہے لوگ کھڑے ہوتے ہیں صبح
سے شام تک مردے کے جلنے کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ یہ تو فٹافٹ کام تمام ہو گیا۔“ اس لفٹ والوں نے اس شخص کی راکھ کا ایک پیکٹ بنا کر اس کی سہیلی کے حوالے کر دیا۔ راشد صاحب اس مشین سے بہت متاثر ہوئے اور اس کی بیوی راشد صاحب سے بار بار پوچھتی کہ کیسی کمال کی مشین ہے اور وہ بھی اثبات میں سر ہلاتے اور کہتے کہ یہ تو ڈسپوزل کرنے کا طریقہ ہی بہت اچھا ہے۔ ظاہر ہے بعد میں بھی راشد صاحب نے اس مشین کی تعریف کی ہوگی۔
بد قسمتی یہ ہوئی درد ناک بات یہ ہوئی کہ جب راشد صاحب فوت ہوئے اور تب وہ ہمارے تصرف میں نہیں تھے اور اسی ظالم سہیلی کے قبضہ قدرت میں تھے۔ اس نے سوچا اور کہا کہ چونکہ انہوں نے اس مشین کو پسند کیا تھا اور اس کی بڑی تعریف کرتے تھے اور اس سے بڑے
مرعوب تھے۔ ظاہر ہے کہ اس کی (ن م راشد ) یہی خواہش ہوگی کہ اسے بھی اسی مشین کی نذر کر دیا جائے۔(اس خاتون نے راشد صاحب سے خواہش نہیں پوچھی ہوگی) ۔
میں آج تک حیران ہوں اور دکھی ہوں اس خاتون نے راشد صاحب کو اس مشین کے
حوالے کر دیا اور ہم یہاں روتے پیٹتے رہ گئے۔ میں راشد صاحب کو بہت قریب سے جانتا ہوں انہوں
نے ایسی خواہش اپنے لیے کبھی نہیں کی ہوگی۔
مرعوبیت کے سلسلے میں ایک حد تک تو ٹھیک ہے جو چیز قابل تعریف ہو اس کی تعریف کرے لیکن ن م راشد کے ساتھ ان کی آخری رسومات کے حوالے سے جو سانحہ ہم پر گزرا ہے سارے ادب اور سارے ادیبوں پہ قیامت جو ٹوٹی ہے میں اس دکھ کو ساتھ ساتھ لیے پھرتا ہوں۔
کس سے بیان کروں ۔ ٹھیک ہے مغرب نے بڑے کمال کی مشینیں بنائی ہیں لیکن انہیں ہماری معاشرتی زندگی میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے لیکن اس بد بخت عورت نے سوچے سمجھے بغیر اور یہ جان کر کہ چونکہ انہوں نے اس کی تعریف کی ہے اور پسند کیا ہے انہیں اس مشین کے حوالے کر دیا۔ میں اس غم اور دکھ میں آپ کو بھی شریک کر رہا ہوں۔ وہ ہمارے بڑے اور محبوب شاعر تھے۔
اللہ انہیں غریق رحمت کرے۔ آپ بھی مرعوب ہوں لیکن اس قدر نہیں۔ ہم اپنی بھی خوبیاں رکھتے ہیں اور ان پر ٹیک لگا
کر سر فخر سے بلند کر سکتے ہیں۔
اشفاق احمد صاحب کی گفتگو کی مناسبت سے آخر میں کچھ اشعار
اپنی مٹی ہی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگِ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
یہ جو روشنیاں ہیں، عارضی سا جال ہیں سب
روشنی ڈھونڈنے نکلو گے تو تھک جاؤ گے
جن کی بنیاد ہو کردار کی خوشبو سے بَسی
ایسی مٹی سے جدا ہو کے بکھر جاؤ گے
اپنے پانی، اپنے موسم کی ہے خوشبو خاص
اُس کو چھوڑو گے تو اندر سے اُجڑ جاؤ گے
اِس زمیں نے تمہیں پہچان عطا کی ہے
تم اگر بھول گئے، تو کہیں کھو جاؤ گے
زندگی وہ ہے جو اپنے ہی اصولوں میں رہے
ورنہ دنیا کی دوڑ میں بس تھک ہار جاؤ گے
اپنی مٹی کی محبت کو سنبھالے رکھنا
ورنہ خوابوں کی طرح ریت میں ڈھل جاؤ گے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں