میں یہ فیس بک پوسٹ اپنی رفیق کار اور نظریاتی دوست نجمہ رحمانی کے لیے لکھ رہی ہوں۔ حالانکہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اپنے یا کسی دوسرے فرد کے ذاتی غموں اور خوشیوں کو عوامی میڈیا پر ساجھا کرنا پسند کرتے ہیں۔ نجمہ بھی نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کوئی ارادہ نہیں تھا کہ نجمہ کی رحلت پر فوراً کچھ لکھوں۔ کل ہی تو گزری ہے! لیکن بعض مخلصوں، بعض منافقوں اور بعض لاتعلق لیکن مخلص میڈیا کریزی دوستوں کی پوسٹیں دیکھ کر لگا کہ کچھ کہنا ضروری ہے، بلکہ میری ذمہ داری ہے کہ ضرور کچھ کہوں۔
22 سال ہمارا ساتھ رہا، ایک ہی شعبے میں ایک ساتھ تقرر ہوا۔ نجمہ میری دوست نہیں تھی، ان معنوں میں کہ ہم دونوں نے ہی ایک دوسرے کی صحبت میں کوئی جذباتی والہانہ پن کبھی محسوس نہیں کیا، ان لمحوں میں بھی نہیں جب میرے گھر میں یا نجمہ کے گھر پر بعض دوست اکٹھے ہوتے اور گھنٹوں کھنٹوں بےتکان باتیں کرتے اور جی بھر کر قہقہے لگاتے تھے۔ ان میں نجمہ کے قہقہے سب سے اونچے ہوتے تھے۔
پھر ایک طویل عرصہ ایسا گزرا کہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے تقریبآ بیزار رہے۔ ایسا شاید یا تو بدگمانیوں یا پروفیشنل رقابت کے در آنے سے، اور ہمارے اندر کے انسان کے کمزور پڑ جانے کی وجہ سے ہوا۔ اپنے اندر موجود خود غرضی کے اس عنصر کو ہر انسان پہچانتا تو خوب ہے لیکن اکثر لوگ اس سے پیدا ہونے والی کڑواہٹوں کو ہمیشہ دل سے لگائے رکھتے اور سامنے والے کی پروفائلنگ کرکے اسے مکمل طور پر برے اور خود کو خالص اچھے لوگوں کی فہرست میں شامل کرتے رہتے ہیں۔ صد شکر کہ ہم دونوں ہی ایسے مومن نہ تھے جو بات بات پر سامنے والے ہم مشرب کو واصل جہنم کرتے اور خود کو جنت الفردوس کی وادیوں میں محو گلگشت اور موتیوں کے محلوں میں پری رخوں کے جمگھٹ میں گھرا دیکھتے ہیں۔ ہم دونوں ہی مذہبی اور تہذیبی تعصب سے اٹھ کر، زمینی سطح پر انسان کے رویوں کو دیکھتے، اور اجتماعی اور انفرادی سطح پر انصاف کا ایک تصور رکھتے تھے۔ ہم دونوں کو ہماری اس زمین ، اور اس زمین کے ہمارے مختصر سے ٹکڑے میں شامل لوگوں کی زندگی کے تئیں ایک انسیت بھری تشویش تھی، ایسی مشترکہ خلش جو بے قرار رکھتی ہے۔ یہ ہماری نظریاتی ہم آہنگی ہی تھی جس نے معمولی ذاتی شکایتوں کے باوجود ایک دوسرے کی اصول پسندی اور انصاف پسندی پر سے بھروسا نہ اٹھنے دیا۔ ہم اجتماعی جدوجہد میں یقین رکھنے والے لوگ تھے۔ یہ اصولی اور نظریاتی سطحیں تھیں جہاں نہ میں نے نجمہ کو کبھی خود سے زیادہ دور محسوس کیا اور نہ شاید اس نے مجھے۔
لیکن ہم میں ایک فرق تھا۔ میں بہت جلد اپنے ارد گرد کے لوگوں کی منافقتوں سے عاجز آ جاتی، ناقابل اصلاح سمجھ کر لا تعلقی کا رویہ اختیار کر لیتی، اور اس طرح جھگڑوں میں کود پڑنے سے صاف بچ جاتی تھی۔ میں اپنی توانائی بچا رکھنے سے غرض رکھتی تھی تاکہ اپنی پسند کے کچھ دوسرے کام کرتی رہوں۔ نجمہ ایک بے قرار اور جذباتی روح تھی اور بہت جلد عملی سطح پر جدوجہد میں کود پڑتی تھی۔ چنانچہ اساتذہ اور طلبہ کی اجتماعی جدوجہدوں کے علاوہ اس کے پاس لوگوں کی ذاتی مسائل حل کرنے کا بھی ایک محاذ تھا اور وہ زندگی بھر اس محاذ پر کام بھی کرتی رہی اور بہت سے دشمن پیدا کیے۔ صرف ایک مثال دوں گی۔
ہمیں شعبے میں ایک ساتھ ملازمت ملی تھی۔ تھوڑے ہی برس گزرے تھے کہ شعبے میں پی ایچ ڈی کی ایک ریسرچ اسکالر ذہنی انتشار کا شکار ہو گئی۔ ہم اس کو آرٹس فیکلٹی کی گیلری میں خاموش بیٹھے دیکھتے تھے۔ پھر ایک دن وہ اچانک پھٹ پڑی اور اپنے سپروائزر کے خلاف بہت چیخنے چلانے لگی۔ تب پتہ چلا کہ وہ اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہے۔ ہمدردی اور افسوس کے علاوہ ہمارے پاس اور کیا تھا؟ لیکن پتہ نہیں نجمہ اس معاملے میں کب اور کیسے کود پڑی۔ بس ہمیں تو یہ معلوم ہوا کہ نجمہ اس کو ہسپتال میں بھرتی کرانے لے گئی، اس کے گھر والوں سے بار بار ملتی رہی، ہسپتال کے بار بار چکر لگاتی رہی کہ یقینی بناسکے کہ اس کا مناسب علاج ہو رہا ہے۔ پھر اس نے اس ریسرچ اسکالر کے ذہنی توازن بگڑنے کے اسباب کی چھان بین شروع کر دی اور اسے انصاف دلانے کا بیڑا اٹھا لیا۔ یونیورسٹی کی سطح پر سپروائزر کے خلاف انکوائری سیٹ اپ کرا دی۔ ظاہر ہے اسے اس کا نتیجہ بھگتنا تھا۔ ایک لابی نجمہ کے خلاف سرگرم ہو گئی۔ ایک فحش کیمپین رکیک قسم کی منظوم تہمتوں پر مبنی شروع ہوا، ویسا ہی کیمپین جس میں عورت کی کردار کشی کرکے سرخرو ہوا جاتا ہے۔ مردانہ غرور کی یہ ایسی معراج تھی جس کی پستی کی انتہا ہم لوگوں کے لیے لرزہ کن اور ناقابل یقین تھی، لیکن حقیقت تھی۔ ایسی ذلیل حرکت کو کوئی مہذب معاشرہ برداشت نہیں کر سکتا لیکن اردو والوں کا کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سب سے زیادہ مہذب ہونے کا دعوی ہے۔ ہائے رے اردو تہذیب! وائے اس کے پاسبان!
شکر ہے کہ اساتذہ کی اس تنظیم کے علاوہ جس کی نجمہ رکن تھی، شعبے میں بھی چند دوست نجمہ کے ساتھ کھڑے رہے اور انہوں نے یقیناَ اس ذہنی اذیت سے نکلنے میں اس کی مدد کی جس میں مبتلا کرنے کے لیے اس کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ وہ جتنی بہادر عورت تھی ہم لوگ ساتھ نہ ہوتے تو بھی وہ حوصلہ نہ ہارتی۔ زندگی کے اس مرحلے پر نجمہ نے جس انصاف پسندی اور بہادری کا مظاہرہ کیا اس کا دل سے اعتراف کرتی رہی ہوں، سیکڑوں بار اس کو سلام کرتی رہی ہوں، ہزاروں بار کرتی رہوں گی۔
بہت سی باتیں ہیں جو شیئر کر سکتی ہوں لیکن فی الحال نہیں۔ قصہ مختصر۔ اب سے ساڑھے تین سال پہلے نجمہ کو صدر شعبہ بننے کی ذمہ داری ملی۔ میرے اور اس کے درمیان فاصلے تھے لیکن وہ میرے پاس آئی اور بغیر کسی لاگ لپیٹ کے کہا، “شعبے کا کام کاج ڈھنگ سے چلانے میں مجھے تمہاری ضرورت ہے۔” مجھے معلوم ہے کہ خود کو میرا تعاون مانگنے پر آمادہ کرنے کے لیے اسے اپنے اندر جدوجہد کرنی پڑی ہوگی۔ میں بھی کوئی شکایت لے کر بیٹھ سکتی تھی، اپنے دل کا غبار نکال سکتی تھی۔ لیکن اس کی جرات کے مظاہرے کا احترام کر کے میں نے بھی خود کو لگام دی اور کہا کہ جو کچھ منصفانہ ڈھنگ سے کروگی، ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں اور شعبے کو اپنا وقت دینے میں کوئی کوتاہی نہ کروں گی۔ صد شکر کہ تین سال کے اس عرصے میں نظریاتی تصادم کا کوئی موقع نہ آیا اور مجھے کوئی اصولی مفاہمت نہ کرنی پڑی، روز مرہ کے کام کاج میں البتہ تھوڑے بہت اختلاف ہوتے رہتے تھے جنہیں میں اسے جتا دیتی تھی یا اس کے باوجود کہ وہ کام تو اپنی ہی سمجھ کے مطابق کرے گی، مشورے دیتی رہتی تھی۔
پھر اب سے تقریباً ایک سال پہلے ایک دن نجمہ نے اعتماد میں لے کر بتایا کہ کینسر کا خدشہ ہے اور بایوپسی کروانے جا رہی ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ ایسی صورت میں اس کی علالت کی خبر کسی کو ممکنہ عرصے تک نہ ہو اور شعبے کا کام کاج سہولت سے چلتا رہے۔ اس دن سے میری ذمہ داریاں کچھ زیادہ بڑھ گئیں اور میں آفس کے روزمرہ کے کام کاج کو زیادہ وقت دینے لگی۔ اگلے چند مہینے ہمارے ذہنی اور نجی سطح پر زیادہ قریب آنے کے تھے۔ ہم نے زندگی کے بہت سے پہلوؤں پر تبادلہ خیال کیا، موت اور حقیقت کو زیادہ رسان سے قبول کرنے پر باتیں کی اور ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھا۔ اور خود کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب پایا۔ لیکن اب وقت کم تھا۔ میں اس کے لیے اس سے زیادہ کیا کر سکتی تھی کہ جتنا ممکن ہو اس کی سہولت رساں بنی رہوں۔ وہ زیادہ جوش خروش سے شعبے کے بہت سے کام نمٹا رہی تھی۔
یہ سب لکھتے ہوئے جذبات سے کانپ رہی ہوں کہ وہ زندگی سے کتنی بھرپور تھی، کتنی چیزوں کو بدل دینا چاہتی تھی، طلبہ کے لیے کتنی مخلص تھی اور شعبے میں کس طرح کا صحت مند اکادمک ماحول قائم کرنا چاہتی تھی۔ کئی ساتھی اس کے ساتھ تعاون کر رہے تھے لیکن اس کے ان اقدامات کے خلاف کام کرنے والے، ذاتی نوعیت کی پست سیاست کرنے والے اس کی بیماری میں بھی سرگرم عمل تھے اور اس کو صدر کے عہدے سے ہٹوانے کی کوششیں کرتے رہے۔ میں ان کو قابل اعتنا نہیں سمجھتی لیکن ان کی پستیوں پر پردہ بھی نہیں ڈالنا چاہتی تاکہ یاد رہے کہ ہمارے اندر خود غرضیوں اور کمینگیوں کی جو جراثیم ہوتے ہیں ان کو مارتے رہنا کس لیے ضروری ہوتا ہے۔ آدمی سے انسان بننا واقعی ایک دشوار کام ہے!
نجمہ کے دشمن اس کی موت کا جشن منا رہے ہوں گے، ان میں سے بعض اس کی موت پر خدا کے نام سفارشی پوسٹیں سوشل میڈیا پر لکھ رہے ہوں گے۔ یہ منافقانہ اور جھوٹی دعائیں ہم جیسوں کے لیے، اور نجمہ کے لیے بھی، سخت آزار کن ہوں گی، وہ یہ بات جانتے ہیں۔ لیکن انہیں صرف اپنے ڈھکوسلوں سے غرض ہے۔ ان بیچاروں کے ضمیر یا اخلاق میں بس اتنی ہی وسعت ہے کہ کسی کی زندگی کی طویل جدوجہد اور اصولوں کے لیے کی گئی سخت محنت کو سو فیصد نظر انداز کر دیں اور یہ لکھ کر فرض کفایہ ادا کر لیں کہ “خدا مرحوم کی خطائیں معاف کرکے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے”۔ اپنے حسابوں وہ دراصل یہ گواہی دیتے ہیں کہ مرنے والا گناہ گار تھا، اور شاید ان کی سفارش سے اللہ اسے معاف کر دے گا۔ میرے نزدیک مرنے والے کے تئیں یہ سخت توہین آمیز رویہ ہے کہ آپ کے پاس متوفی کی خوبیوں اور زندگی پر کہنے کے لئے ایک لفظ بھی نہ ہو اور اس کے گنہگار ہونے کا پروانہ آپ ان کے ہاتھوں میں پکڑاتے رہیں۔ (مرحوم کے درجات بلند ہوں، اس کو اچھی جگہ ملے، یہاں تک تو اپ کی آستھا ٹھیک ہے، حالانکہ اس کا بھی کوئی مطلب نہیں کیونکہ ہر ایک کا عمل اس کے ساتھ ہے، جو واقع ہو چکا۔ پھر بھی یہ مذہبی اور تہذیبی رواداری گوارا)۔ یہ خطائیں معاف کروانا چہ معنی دارد؟ بہتر ہوگا کہ خطائیں بخشوانے کی دعا آپ اپنے حق میں کرتے رہیں اور متوفی کی مغفرت کا معاملہ اس پر اور اس کے خالق کے بیچ میں چھوڑ دیں۔
ایسی پوسٹیں اور واٹس ایپ میسجز دیکھ دیکھ کر میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور فیصلہ کیا کہ آج ہی لکھوں گی۔ اس لیے اے منافق مومنو! برائے مہربانی شٹ اب۔ نجمہ زندہ ہوتی تو کہتی کہ مجھے آپ کی منافقانہ دعاؤں کی ضرورت نہیں۔ اپنے لیے میں بھی ابھی سے اگاہ کرتی ہوں کہ میرے مرنے پر کوئی منافق دعائے مغفرت نہ کرے، بلکہ انکسار سے کام لے اور صرف اپنے لیے خطا بخشی کی دعائیں مانگا کرے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں