سب سے پہلے تو ایک بات کا اعتراف کہ بلوچستان کے جغرافیہ، ڈیموگرافی، اندرونی سیاسی معاملات اور وہاں پر موجود شورش، بغاوت یا تحریکِ آزادی (جو بھی کہہ لیں) کے بارے میں میں ایک قطعاً لاعلم آدمی ہوں۔۔ میری تمام تر معلومات کا انحصار یا تو قومی بیانیہ پر ہے (جس پر کامل یقین نہ رکھنے کی علیحدہ وجوہات ہیں) یا پھر سوشل میڈیا کے سرکل میں ذلفی بھائی (موویز پر تبصرے والے) کے مضامین ہیں۔۔ ان پر بھی کامل یقین نہیں رکھ سکتے کہ انکا واضح bias موجود ہے۔۔
تو پھر confirmation bias کے وبائی صورت اختیار کر چکے اس ملک میں مجھ جیسا لاعلم بلکہ جاہل شخص بلوچستان جسے سلگتے ہوئے معاملے پر کیا کرتا ہے؟؟ سوال بہت دلچسپ ہے اور اسکا جواب اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے کیونکہ میرا گمان ہے کہ یہ جواب بھی فقط حاشیئے پر موجود اقوام ہی کو سمجھ آنے کے امکانات ہیں۔۔
میں اس معاملے میں یہ کرتا ہوں کہ بلوچستان اور بلوچ قوم کو درپیش مسائل اور مملکتِ خداداد کی جانب سے “نافذ کردہ” solutions کو اپنی مہاجر قوم کے ماضی اور حال پر منطبق کرکے دیکھتا ہوں۔۔
میں دیکھتا ہوں کہ کراچی میں 1991 میں اور پھر 2016 میں “قیادت کا بحران” کیسے تخلیق کیا گیا اور پھر اس خلا کو بھرنے کی کس کس طرح سے کوششیں کی گئی۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری قوم کے رہنما اذہان کس طرح یکے بعد دیگرے موت کے خونخوار شکنجوں میں کسے گئے۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ کس طرح میری گلیوں میرے محلّوں سے میرے ہمسائے، میرے دوست، میرے غمخوار اٹھائے گئے اور اگل دن اخباروں کی شہ سرخیوں میں عجیب و غریب لاحقوں کے ساتھ انکے نام پائے گئے۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ عوام کی اکثریت کے اعتماد یافتہ افراد کو پسِ پشت یا پسِ زنداں ڈال کر پیراشوٹر رہنما بنائے جاتے اور آسمانوں سے اتارے جاتے رہے۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ آگ اور خاک اور خون کا ایک کھیل ہے جو 1986 سے آج تک اس شہر میں میری قوم پر جاری و ساری ہے۔۔
میں دیکھتا ہوں کہ عظیم احمد طارق سے ڈاکٹر عمران فاروق تک میرے رہنما قتل ہوتے اور پاکستان کے لوگ ہمیں ہی انکا قاتل سمجھتے۔ میں دیکھتا ہوں کہ خود بریگیڈیئر امتیاز کے جناح پور کو “ایک پلانٹڈ ڈرامہ” مان لینے کے باجود پاکستان کے لوگ آج تک ہمیں علیحدگی پسند ہی سمجھتے ہیں اور اس بات پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے ہیں۔۔ میں دیکھتا ہوں کہ وقاص کو کیمروں کے سامنے گولی مار دی جاتی ہے اور “حب الوطن” کہتے ہیں انہوں نے خود ہی مارا ہے۔ آفتاب کسٹڈی میں تشدد کرکے مار دیا جاتا ہے اور سارے جسم پر تشدد کے نشانات ہونے کے باوجود جناح ہسپتال کی ایم ایس ہارٹ اٹیک ڈیکلیئر کر دیتی ہے۔۔ علی رضا عابدی جیسا شاندار شخص تاریک راہوں میں قتل ہوجاتا ہے تو اسی سوشل میڈیا پر باقاعدہ خوشی کے شادیانے بجائے جاتے ہیں۔۔ پروفیسر حسن ظفر عارف گاڑی کی پچھی سیٹ پر مردہ پائے جاتے ہیں تو لوگ مذمت کی بجائے کہتے اس عمر میں کیا ضرورت پڑی تھی انہیں غداروں کا ساتھ دینے کی۔۔ قبرستان بولتا اسلحہ اگلتے رہتے۔ کارکنان گھروں سے غائب ہوکر “ایک حب الوطن دفتر” میں نمودار ہوتے رہے اور سارے پاکستان میں راوی چین ہی چین لکھتا رہا۔۔
میں یہ سب دیکھ چکا ہوں۔۔ اس لئے جب میں بلوچستان کو دیکھتا ہوں تو باوجود اپنی لاعلمی اور جہالت کے مجھے پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یار جس طرح پاکستان کی باقی اقوام کو باوجود کوششوں کے ہم آج تک نہیں سمجھا پائے کہ ہم غدار نہیں، بیرونی ایجنٹ نہیں، ہمیں ملک توڑنے میں بھی کوئ انٹرسٹ نہیں۔۔ تو کیا پتہ بلوچوں کا بھی ایسا ہی معاملہ ہو !!
میں لوگو کو بلوچ مسنگ پرسنز پر ٹرولنگ کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے وقاص اور علی رضا عابدی کے شہادت کے بعد والی ٹرولنگ یاد آتی ہے۔۔ میں آج سوشل میڈیا پر لوگو کو ماہ رنگ کی روتے ہوئے ویڈیو لگا کر ہنستے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے عمران فاروق کے قتل بعد الطاف حسین کا رونا اور پاکستانیوں کا سالہا سال تک اس کلپ کے میمز بنا کر چلانا یاد آتا ہے۔۔ میں بلوچ افراد کو اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے احتجاج کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے اپن قوم کے وہ افراد یاد آجاتے ہیں جن کے پیارے آج تک بازیاب نہ ہوسکے۔۔ میں بلوچ خواتین کو احتجاج کرتے دیکھتا ہوں تو مجھے مہاجروں کی بینا خالد شمیم اور پنجابیوں کی آمنہ مسعود جنجوعہ یاد آتی ہیں۔۔
میں قطعی یہ نہیں کہتا کہ ہمارے لوگو میں شرپسند نہیں تھے۔ یقیناً رہے ہوں گے مگر ان شرپسندوں کی آڑ لے کر جو مظالم معصوم شہریوں پر فقط مہاجر ہونے کی وجہ سے روا رکھے گئے وہ بھی کسی طور جسٹیفائے نہیں ہوسکتے۔۔ بعینہ یہی معاملہ مجھے بلوچوں کا لگتا ہے۔۔ ان میں بھی شرپسند ہوں گے۔۔ اس حقیقت سے انکار تو ممکن نہیں۔۔ لیکن جس طرح ان شرپسندوں کی آڑ لے کر “پاکستانی حب الوطن” ساری بلوچ قوم کو دہشت گرد، غدار، بیرونی ایجنٹ ڈیکلیئر کر رہے ہیں، میں یہ بات ماننے سے قاصر ہوں۔۔
میں بلوچستان کے مسئلے کو بلوچ کی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا یہ بات درست ہے۔۔ مگر میں بلوچستان کو پنجاب کی نگاہ سے بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔۔ میں مہاجر ہوں اور بحیثیت مہاجر یہ سجھتا ہوں کہ جن تازیانوں کے نشانات آج تک میری قوم کی پشت پر موجود ہیں، انہی تازیانوں کی حمایت کسی اور قوم کے لئے کرنا میرے لئے تو بہت ہی مشکل کام ہے ۔
نوٹ : گزارش ہے کہ یہ فقط ایک رائے ہے اور مجھے اس پر بالکل بھی اصرار نہیں۔۔ اگر مزاجِ شاہانہ پر گراں گزرے تو بتا دیجئے گا میں ریموو کر دوں گا۔۔ میرا ڈومیسائل کمزور ہے۔۔ ضد، اختلاف اور مقابلہ بازی زور آوروں کے کرنے کے کام ہیں۔۔ میں ان سب سے عاجز ہوں
نوٹ:یہ تحریر آزادی اظہار رائے کے تحت شائع کی جارہی ہے۔ادارے کا مصنف کے خیالات سے اتفاق ضروری نہیں۔

بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں