ہر طرح کا قانون صرف مسلمانوں کے لیے / شکیل رشید

اِن دنوں عام لوگوں کے بیچ ایک ’ طلاق ‘ اور ایک ’ شادی ‘ کا معاملہ بحث کا موضوع بنا ہوا ہے ۔ طلاق کا معاملہ ایک نیوز اینکر چترا ترپاٹھی کا ہے ، اور شادی کا تعلق دھرمیندر اور ہیمامالنی سے ہے ۔ درمیان میں ایک ’ محبت ‘ بھی گھس آئی ہے ، عامر خان کی نئی نئی محبت ، ایک ایسی خاتون سے ، جو ایک بچے کی ماں ہے ۔ چترا ترپاٹھی کو لوگ بی جے پی کی ہمدرد اینکر کے طور پر جانتے ہیں ، ان کی جس شخص سے طلاق ہوئی ہے ، اُس کا نام اتل اگروال ہے ، جو خود ایک بی جے پی نواز جرنلسٹ ہے ۔ بھلا کیوں طلاق کی یہ خبر موضوعِ بحث ہے ؟ اس کا ایک بڑا سبب اس جوڑے کا سولہ سال تک ایک ساتھ رہنا ہے ۔ دونوں کا ایک بیٹا بھی ہے ۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ سولہ سال کے طویل عرصہ تک ساتھ ساتھ رہنے کے بعد بھلا ایسا کیا ہوا کہ دونوں میں علاحدگی ہو گئی ؟ اس سوال کا جواب اس جوڑے نے تو نہیں دیا ہے ، لیکن یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ طلاق کا سبب کوئی ایسی بات ہوگی ، جس نے دونوں کے لیے ایک دوسرے کے وجود کو ناقابلِ برداشت بنا دیا ہوگا ۔ اور جب میاں بیوی کے لیے ایک دوسرے کا وجود برداشت سے باہر ہو جائے تو بہتر علاحدہ ہونا ہی ہوتا ہے ، اور زندگی میں ایسا موقع کبھی بھی آ سکتا ہے ۔ یہ وہ بات ہے ، جو ’ طلاقِ ثلاثہ ‘ کے کیس میں سمجھانے کی کوشش کی جا رہی تھی ، لیکن اسلامو فوبیا کے بخار میں تپتے ہوئے لوگوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی ۔ چترا ترپاٹھی نے اُس موقعے پر ، طلاق ثلاثہ کے بہانے ، مسلم فرقے پر طنز کسنے کا ، ذلیل کرنے کا اور اسلام کو بدنام کرنے کے لیے زہریلے ’ ڈیبیٹ ‘ کرانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا ۔ بات صرف طلاق ثلاثہ تک رہتی تو بھی غنیمت تھا کہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ ایک غیر مسلم خاتون اینکر مسلم عورتوں کی حمایت میں کھڑی ہے ، لیکن بات طلاقِ ثلاثہ سے آگے بڑھ کر پوری اسلامی شریعت کو نشانہ پر لینے تک پہنچ گئی تھی ، جو افسوس ناک تھا ۔ اب لوگ چترا ترپاٹھی سے سوال کر رہے ہیں کہ محترمہ دیکھا کبھی کبھی طلاق کا لینا یا طلاق کا دینا کیوں ضروری ہوجاتا ہے ! اس لیے کہ زندگی میں جو پریشانیاں در آئی ہیں ، جو مسائل کھڑے ہو گیے ہیں ، وہ چھٹ جائیں ۔ میں کسی کے طلاق کے حق میں نہیں ہوں ، لیکن طلاق کے نام پر کسی کے مذہب کو نشانہ بنانے کے خلاف ہوں ۔ اور اگر کوئی عورت یا مرد طلاق کے لیے کوشاں ہے ، اور جائز وجوہ کی بنیاد پر کوشاں ہے ، تو اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ طلاق لے ، یہ چترا ترپاٹھی کا حق تھا ، لیکن یہ بات اُسے دیر سے سمجھ میں آئی ۔ رہی بات دھرمیندر اور ہیما مالنی کی تو دونوں نے چونکہ مسلم مذہب اپنا کر شادی کی تھی ، اس لیے ان دنوں دونوں خبروں میں ہیں ۔ ہیما مالنی کے ، اوڈیشہ کے جگناتھ پوری مندر میں جانے پر ، پجاری بہت ناراض ہوئے تھے کہ یہ تو مسلمان ہے یہ کیسے مندر میں آ گئی ! بات تو سچ ہی ہے ۔ یہ اور دھرمیندر اس لیے مسلمان بنے تھے کہ ان کی شادی ہو سکے ، دھرمیندر کی پہلے ہی سے ایک بیوی ہے جس کا نام پرکاش کور ہے ، اور ہندو دھرم میں ایک بیوی کے رہتے دوسری عورت سے شادی غیر قانونی ہے ، لیکن یہ کام ان دونوں نے ، جن میں سے ایک ہیما مالنی اب بی جے پی کی ایم پی ہے ، اور دھرمیندر بی جے پی کے سابق ایم پی ہیں ، کیا ۔ یہ اسلام مذہب سے ، کم از کم ہیما مالنی تو خود کو کٹر ہندوتوادی جتاتی ہیں ، نفرت کرتے ہیں لیکن اپنے مطلب کے لیے اسلام کا ہی دامن تھامتے ہیں ! کیا اس سے یہ نہیں لگتا کہ یہ ہندوتوادی بس ’ مفاد پرست ‘ یا ’ موقع پرست ‘ ہیں ؟ رہے عامر خان تو حاجی بن گیے ہیں لیکن ’ لو جہاد ‘ کو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے ہیں ، پہلے رینا سے شادی کی ، پھر کرن راؤ سے اور اب گوری اسپراٹ نامی ایک بچے کی ماں پسند آ گئی ہے ! ان کی بیٹی ارا خان نے ایک ہندو سے شادی کی ہے ، بہن نکہت کے نام کے ساتھ ہیگڈے لگا ہوا ہے ! کیا ہندو تووادی تنظیموں کو یہ نظر نہیں آ رہا ہے ؟ یا بڑے لوگوں کو ہر طرح کی چھوٹ ہے اور ہر طرح کا قانون صرف غریب مسلمانوں کے لیے ہے ؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply