غیر معینہ مدتی تاریخ کی جَھل پَٹ سے آزاد ہو کر حال کو بنیاد بنا کر دیکھا جائے تو تاریخ کا جبر، تعصب یا طرفداری (biases) ہضم ہو سکتی ہے۔ جو دیکھا نہیں وہ تاریخ ہے اور یہ سچ جھوٹ کا ملغم ہے (manipulation) لیکن جو دیکھ رہے ہیں وہ آنکھوں کے سامنے ہے۔ حقائق ہیں۔ آج یعنی حال ایک تاریخی موڑ ہے۔ ایک قوم کے بچوں بوڑھوں خواتین نوجوانوں کو دھرتی سے خاک بنا کر اڑا دیا گیا ہے۔ ایک انسان کا قتل تمام جہان کا قتل ہے۔ ہم نے سب سے پہلے خدا (some code of conduct or any supreme authority) کو طرفدار بنا دیا ہے حالانکہ وہ تمام کائنات کا یکساں مالک ہے۔ لم یزل ہے۔ خدا کی بے دخلی کے بعد اب عقل و شعور کا ماتم چہلم چل رہا ہے۔ ہم نہ رہے، دل نہ رہا یا دیگر الفاظ میں وہ دل نہیں رہا وہ طبیعت نہیں رہی والی کیفیات کا غلبہ ہے۔ انسانی تاریخ اوجھل ہے اور حال غارت ہے۔ جب شروع میں اکتوبر سات کو یہ سلسلہ شروع ہوا تو حیوانِ ناطق کا دل کانپ رہا تھا لیکن ہماری سکرینوں پہ ہر دوسری ویڈیو تباہی کے مناظر پیش کر رہی ہے۔ ایسے میں یہ عادت استوار ہو چکی ہے۔ یہ عادت ذہنوں کو ہِیچ بنا رہی ہے اور دلوں کو بے حِسی سے بھر رہی ہے۔ دنیا کے بااثر ممالک حیران کن طور پہ چپ ہو چکے ہیں۔ دل بھی مر گیا، روح بھی بکھر گئی، دماغ بھی سُن کر دیا گیا اور جسم بھی لاغر کر دیے گئے ہیں۔ دنیا کے اس تاریخی موڑ پہ اب خدا اپنا کیا فیصلہ سناتا ہے وہی جانے ہے لیکن بحیثیت انسان یہ صورتحال انتہائی مذموم و محقور ہے۔ اس میں امید یہ ہے کہ عوام نے بلا تفریق نسل مذہب جنس قوم احتجاج کیا ہے، ایکائی کا ثبوت دیا ہے اور حیرانی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نسل کشی کا موازنہ کرنا بھی ٹھیک نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اب پانچ طرح کی دنیائیں وجود میں آ چکی ہیں۔ ظالم، مظلوم، مزاحم، تماشائی اور احتجاج کنندگان !
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں