تیئس مارچ /شہناز احد

گزشتہ کچھ دنوں سے!نہیں ہفتوں سے طبیعت ویسی نہیں جیسی کہ ہوتی تھی یا ہونی چاہیئے۔ اس میں طبیعت کا کوئی قصور نہیں غلطی یا غلطیاں ساری کی ساری ہماری خود کی ہیں۔ ۹۹ ٹمپریچر کو دنوں خاطر میں نہ لانا۔ ۱۰۰یا اس سے اوپر ہو تو دو پیناڈول کھاکے نامعلوم فتوحات کے لئے گھر سے نکل پڑنا۔
آخری بار گھر سے ۸ مارچ کی شام اپنےبچوں جیسی فےفے کے جنم دن کی بدھائی  دینے نکلی تھی۔ بعد کھانے کے اٹھتے سمے فےفے نے کہا بس آپ اور مما ایسے ہی زندگی کو انجوائے کریں۔ جس کام کو دل چاہے وہ کریں نہ چاہے تو مت کریں۔ میں نے ہنستے ہوۓکہا” میں ایسا ہی کرتی ہوں، کسی کے دباؤ میں کچھ نہیں کرتی لیکن یہ نہیں کہا کہ دل تو اب بھی بہت کچھ کرنے اور کرتے رہنے کو چاہتا ہے۔ جب کہ بہت سارے احباب و اقربا کا خیال ہے کہ اب چال دھیمی کر لی جاۓ،تب ہی یہ بھی کہاکہ میں عمر کے نمبروں کے چکر میں نہیں پڑتی۔ صرف یہ دیکھتی اور سوچتی ہوں کہ میں یہ کام کر سکتی ہوں یا نہیں اور اندر سے جو جواب آتا ہے بس پھر وہ کرتی ہوں اور جواب ہمیشہ وہ ہی آتا ہے جو میں چاہتی ہوں”۔ اس بات پے ہم تینوں نے قہقہہ لگایا اور محفل برخاست ہوگئی ۔

اگلی صبح اندرونی درجہ حرارت ۱۰۱تھا۔ خاموشی سے بیٹھ کے اپنا اور گزرے دنوں کا تجزیہ کیا پھر نیک پروین کی طرح لیب گئی ،بہت سارے ٹیسٹ  خود ہی  کرواۓ کہ زندگی کے چالیس سال ڈاکٹروں اور ہسپتالوں میں گزارنے کے بعد اتنا تو میرا حق بنتا ہے کہ اپنی جسمانی تحقیقات کاکام خود کر لوں۔ اگلے چند دنوں میں ایک ایک کر کے سب ہی کچھ نارمل آیا لیکن حرارت کا پارہ مزید کئی دن کے بعد نارمل ہوا تو کچھ اور سامنے آگیا۔

عجب اتفاق ہے کہ آج صبح بیدار ہوئی تو اندر سے ایک عجیب سا احساس آیا کہ میں تو ٹھیک ہوں اور گزرے ہفتوں میں جوبھی ہوا بس ہوگیا۔ کئی دنوں بعد دل سے ناشتہ کیا،دل سے اخبار پڑھا،بہت کچھ محسوس کیا،کئی  بار دل تیزی سے دھڑکا اور کئی بار ڈوبتا سا لگا، ہم بہت زیادہ سوچنے اور محسوس کرنے والوں کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر وقت حال کے واقعات کو ماضی سے اور ماضی کے تانوں کو مستقبل کے بانوں سے جوڑتے رہتے ہیں۔

میرا مسئلہ اس وقت یہ بھی ہے کہ گزرے ہفتوں کے دوران میں خاصی قنوطیت کا شکار بھی رہی ہوں۔ بہت ساری پڑھی ہوئی کتابوں کو پھر سے پڑھا ہے ، ان کے تانوں بانوں کو الگ کرنے کی کوشش بھی کی ہے لیکن یہ سوچوں کا گھوڑا کب قابو میں رہا ہے ہمیشہ آگے ہی کو بھاگتا ہے۔ بھاگتے، بھاگتے لمحہ بھر کو گردن موڑتا ہے نا معلوم احساس کو جھٹکتا ہے، دم ہلاتا ہے اور دوڑنے لگتا ہے۔

۲۳ مارچ کے روز بھی  اخبار میں پانچ ایسے افراد کے مضامین چھپے ، جن کو چھپنا ہی ہوتا ہے اور جن کی تحریروں کے بغیر یہ روزنامہ چھپ نہیں سکتا تھا۔ بے چارہ اخبار!

اخبار پڑھتے پڑھتے کچھ غنودگی سی آگئی اور نہ جانے کہاں سے۵۴ برس پہلے کی وہ شب اور اس شب کی سرگوشی کانوں میں،دماغ میں گونج سی گئی۔

وہ ۲۳ مارچ ہی کی شب تھی،ہفتہ بعد ماموں کی شادی تھی اور ہم سب نانی کے گھر جمع تھے۔ ماموں کو اگلی صبح ایک بہت ضروری میٹنگ کے سلسلے میں مشرقی پاکستان جانااور آنا تھا۔ نانی سمیت ان کی اولادیں سب ہی تھوڑی بہت گومگو کیفیت کا شکار تھیں۔ رات کے کھانے کے بعدہم سب ڈرائنگ روم میں لگے فرش محمدی پر لیٹے بیٹھے، آنے والی شادی اور اس سے جڑے پروگراموں پر ہنسی ٹھٹھول کر رہے تھے کہ دبے قدموں ماموں داخل کمرہ ہوۓ ایک خاموش نظر سے صورت حال کا جائزہ لیا۔ اس وقت ہم سب ماموں سے بہت ڈرتے تھے۔ ہماری بولتیاں بند اور ہنسی منجمد ہوگئی  تھیں۔
چند لمحے کھڑے رہنے کے بعد وہ نانی ،بڑی ممانی اور ہماری امی کو اشارہ کرتے ہوۓاپنے کمرے میں چلے گئے۔ اندر سے ایک دھیمی سرسراتی ہوئی آواز باہر آئی” میں کل مشرقی پاکستان نہیں جارہا ہوں وہاں کے حالات خراب ہیں، آج بہت ہنگامے ہوۓ ہیں۔ سنا ہے پاکستان کا جھنڈا بھی نہیں لہرایا جاسکا ہے”۔ اس گفتگو کا ٹیپ کابند تھابی بی سی نے بتایا ہے۔
کمرے سے باہر آنے والے پہلے فرد ماموں تھے جو خاموشی سے باہر کی طرف چلتے چلے گۓ۔
چند لمحوں بعد نانی یہ کہتی ہوئی برآمد ہوئیں۔ میں ذرا شکرانے کے نفل پڑھ لوں۔ بچوں شور مت کرنا۔ میرے پیٹ میں کچھ اچھل کود ہو رہی تھی دروازہ سے قریب ہونے کے باعث میں نے اندر ہونے والی ساری گفتگو سنی تھی اور مجھے امی کے باہر آنے کا شدت سے انتظار تھا۔ وہ یہ کہتی ہوئی باہر آئیں میرے پیٹ میں کچھ ہورہا ہے۔ ممانی ہمیشہ کی طرح مسکراتی اور یہ کہتی ہوئی باہر نکلیںI thinks it’s time to sleep. انھوں نے اپنے بچوں کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور احاطہ پار کر گئیں۔ پیٹ خالی کرنے کے بعد امی خالہ کے کان میں بہت دیر تک کھسر پھسر کرتی رہیں اور وقفے وقفے سے ہم سب کو سو جانے کی تلقن۔۔
اس رات کمرے میں جانے والوں سمیت میں بھی شاید ہی سوئی تھی۔

اگلی صبح اخبار پر سب سے پہلے جھپٹنے والوں میں، میں نمبر ایک تھی۔ سیاہ حاشیوں میں لکھی کچھ خبریں رات کی باتوں سے میل کھا رہی تھیں۔
آنے والے دن بہت ہنگامہ خیز تھے،اخبار سچی، جھوٹی اور خیالی خبروں سے بھرا ہوتا تھاادھر گھر میں روزانہ کی بنیاد پر نوابشاہ،حیدرآباد اور کوئٹہ سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ ماموں کی شادی ہماری زندگیوں کی پہلی شادی تھی،کپڑوں ، مہندی اور چوڑیوں کی میچنگ کی گفتگو ختم ہی نہ ہوتی تھی۔ اخبار بھاگتے دوڑتے سامنے سے نکل جاتاتھا۔ ان دنوں ٹی وی شام ڈھلے چند گھنٹوں کے لئے آتا تھااور سرکار نامہ سنا کے آج کل کی late evening تک ختم ہوجاتاتھا۔ شادی وقت مقررہ پر ہوگئی۔ اس ۲۳ مارچ کے قصے چلتے رہے ،چلتے رہے۔۔

اپنی کروٹ تلے دبا آج کااخبار باہر نکالتے ہوۓ اور اس کی تہوں کو ہموار کرتے ہوۓ مجھے بے اختیار سن ۸۰ کی دہائی کے بہت سارے ۲۳ مارچ یاد آنے لگے اور ہنسی بھی، کبھی حکم آتا تھا”کوئی  جھنڈا نہیں لہراۓگا،کبھی آرڈر نکلتا چراغاں نہیں ہوگا،ملی نغمہ نہیں بجےگا،یہ نہیں ہوگا اور وہ نہیں ہوگا وغیرہ “۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ جو مہینے بھر سے زیادہ کےخرابی طبیعت یا طبیعت کی خرابی کے شب روز گزرے ہیں اور جن میں ،میں نے بہت سی پڑھی ہوئی کتابوں کو پھر سے پڑھا ہے،خود کو سبق دینے اور یادداشت کے خانے میں پیچھے چلی جانے والی باتوں کو زندہ کرنے کے لئے مثلاًبھٹو ضیا اور میں- مصنف فیض علی چشتی، ضیا الحق کے ہمراہ- کے ایم عارفِ،”
یہ دونوں کتابیں اپنے مصنفین سمیت وہ آئینہ ہیں جن میں گزرا اور آنے والا وقت نظر آنے کی کوشش کرتا نظر آتا ہے۔
ان دنوں میں نے تیسری دفعہ صحافی،ساتھی اور دوست علی احمد خان کی “جیون ایک کہانی” کو بھی پڑھا۔
میں نے عظمت اشرف کی لکھی” ریفیوجی” کوبھی ایک بار پھر پڑھا ہے۔
عظمت اشرف نے اپنی کتاب کے انتساب میں لکھا ہے
“تین نسلوں پہ محیط،
پُرامن گھر کے متلاشی ایک خاندان کی سچی کہانی،
اس ہی کے ایک فرد کی زبانی
دنیا بھر کے کروڑوں پناہ گزینوں کے نام،
ان کی جراتوں اور گر کے دوبارہ کھڑے ہونے کے حوصلوں کے اعتراف میں”
یاد تو مجھے اس وقت شام جی کی “ شام بخیر “بھی آرہی ہے۔
یادیں بھی بس بیری کا پیڑ ہوتی ہیں، پتھر لگا نہیں اور ٹپاٹپ شروع-
اور یہ کیا فون میں سے کوئٹہ کی ایک دوست کی آواز آرہی ہے”بہت پریشان ہیں، کچھ سمجھ نہیں آرہا،کیا کریں، یہ کیا ہورہا ہے،بس دعا کرو”۔
دعاؤں سے کون سا مسلہ حل ہوا ہے اس فانی دنیاکا۔
اخبار کی تہہ بدلتے ہوۓ اس کی لوح تلے لکھا” ۲۳ مارچ” پتہ نہیں کیوں مجھے لگا اشک بار سا ہے۔ قریب لاکے دہکھا تو لگا میرا منہ چڑا رہا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply