ہمارے معاشرے میں وکیلوں کے بارے میں عمومی سوچ یہی ہے کہ وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ میں بدلنے کے ماہر ہوتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ جب کوئی بھی مقدمہ عدالت میں آتا ہے تو لوگ فوراً فیصلہ سنا دیتے ہیں کہ ایک فریق سچا ہے اور دوسرا جھوٹا۔ ان کے نزدیک جو وکیل کسی ملزم کا دفاع کر رہا ہوتا ہے، وہ گویا اس کے جرم کو چھپانے میں شریک ہے۔ خاص طور پر اگر معاملہ کسی سنگین جرم کا ہو، جیسے قتل، تو عام لوگ وکیل کو بھی اسی صف میں شامل کر دیتے ہیں، جس میں وہ ملزم کھڑا ہوتا ہے۔ مگر یہ سوچ درحقیقت عدلیہ اور قانون کے بنیادی اصولوں سے ناآشنائی کی علامت ہے۔
میں نے جب بارہویں کا امتحان پاس کیا تو اس کے بعد میڈیکل کالج میں داخلے کا ٹیسٹ دے دیا جس میں ٹیسٹ تو پاس ہو گیا لیکن میرٹ کم ہونے کی وجہ سے داخلہ نہ ہوسکا تو اس وجہ سے دوسری ڈگری کا انتخاب کرنا پڑا۔ کچھ دن سوچنے کے بعد میں نے قانون کی ڈگری کا انتخاب کیا۔ داخلہ لینے کے بعد پھر لوگ مجھ سے جب بھی پوچھتے ہیں اور میں قانون کی ڈگری کا بتاتا ہوں تو وہ آگے سے کہتے ہیں اس کا کیا کرنا ہے، یہ تو حرام کا پیشہ ہے۔ میں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں اور اس تحریر کا بھی یہی مقصد ہے۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ عدالتی نظام محض الزامات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ثبوتوں، گواہوں اور قانونی نکات کی روشنی میں فیصلے کرتا ہے۔ دنیا کے ہر مہذب معاشرے میں یہ اصول تسلیم کیا جاتا ہے کہ جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہو، وہ بے گناہ ہے۔ وکیل کا کام کسی بھی شخص کے حق میں غلط بیانی کرنا یا جھوٹ بولنا نہیں ہوتا، بلکہ وہ صرف عدالت کے سامنے شواہد اور دلائل پیش کرتا ہے تاکہ جج کے لیے یہ ممکن ہو کہ وہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ فیصلہ دے سکے۔ اگر کسی بھی فریق کو وکیل کرنے کا موقع نہ دیا جائے تو انصاف کا پورا تصور بے معنی ہو جائے گا، کیونکہ پھر ہر شخص محض الزام کی بنیاد پر مجرم قرار پائے گا۔
یہاں ایک فرضی مثال لیجیے: تصور کریں کہ ایک شخص پر قتل کا الزام عائد ہوتا ہے۔ پولیس رپورٹ میں درج ہے کہ وہ موقع واردات پر موجود تھا اور مقتول کے قریب تھا۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ وہاں موجود ضرور تھا مگر قتل میں ملوث نہیں تھا۔ اگر اسے صفائی کا موقع نہ ملے اور محض الزام کی بنیاد پر اسے سزا دے دی جائے تو یہ کیسا انصاف ہوگا؟ ایسے بے شمار کیسز میں وکیل کا کردار یہی ہوتا ہے کہ وہ عدالتی نظام کو یہ باور کروائے کہ محض ایک الزام یا قیاس آرائی کو بنیاد بنا کر کسی شخص کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مزید یہ کہ اگر کوئی قاتل قتل کرتا ہے تو کیا وہ بلا وجہ ہوسکتا ہے کیونکہ کہ زیادہ تر قتل کسی وجہ کے بنیاد پر یا حق دفاع میں کی جاتی ہے اور یہی انسانی رویے یا قانونی فلسفے کے تحت مجرم کو سزا سے استثنا فراہم کرتا ہے۔ وکیل کا فرض ہے کہ وہ تمام دستیاب شواہد کو عدالت کے سامنے پیش کرے، ان کا تجزیہ کرے اور قانونی نکات پر روشنی ڈالے تاکہ کسی بے گناہ کو ناانصافی کا شکار نہ ہونا پڑے۔
یہ اعتراض بھی عام طور پر سننے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی قاتل یا چور وکیل کے پاس جائے تو وکیل اس کی وکالت کیوں کرتا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ مجرم کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے؟ یہاں ہمیں عدلیہ کے بنیادی اصولوں کو سمجھنا ہوگا۔ عدالت میں ہمیشہ دو فریق ہوتے ہیں: ایک مدعی اور دوسرا مدعا علیہ۔ ہر فریق کو مکمل قانونی حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنا دفاع کرے۔ اگر ملزم واقعی مجرم ہے تو عدالت کے سامنے پیش کیے گئے شواہد اس کے خلاف ہوں گے اور جج اپنے فیصلے میں اسے مجرم قرار دے گا۔ مگر اگر اسے دفاع کا موقع ہی نہ دیا جائے تو وہ انصاف کہاں گیا جس کی بنیاد پر عدلیہ قائم ہے؟
یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ وکیل جھوٹ بول کر مقدمے جیتنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدالت میں وکیل کے سامنے ایک نہایت تجربہ کار جج اور ایک ماہر مخالف وکیل موجود ہوتا ہے۔ اگر کوئی وکیل جھوٹ بولنے کی کوشش کرے تو دوسرا وکیل فوراً اس کی غلط بیانی کو بے نقاب کر سکتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ کسی ایک وکیل کی تقریر پر نہیں بلکہ مکمل شواہد، قانونی نکات اور جج کے تجزیے پر ہوتا ہے۔ اس لیے یہ ممکن نہیں کہ کوئی وکیل محض چالاکی سے جھوٹ بول کر مقدمہ جیت جائے۔
پاکستان میں عدلیہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وکیلوں کا کردار ہمیشہ بنیادی حیثیت رکھتا آیا ہے۔ پاکستان کی بنیاد رکھنے والے قائداعظم محمد علی جناح خود ایک وکیل تھے اور انہوں نے اپنی قانونی مہارت سے مسلمانوں کے حقوق کے لیے مؤثر جدوجہد کی۔ اگر وکیلوں کا کام صرف جھوٹ بولنا ہوتا تو کیا وہ ایک مضبوط نظریے کی بنیاد پر پاکستان کا مقدمہ لڑ سکتے تھے؟ اسی طرح پاکستان میں جب بھی آمریت کے خلاف جدوجہد ہوئی، وکیل سب سے آگے نظر آئے۔ عدلیہ بحالی تحریک اس کی بہترین مثال ہے جہاں وکلا برادری نے جمہوریت اور قانون کی بالادستی کے لیے ہر ممکن قربانی دی۔ اگر وکیل محض پیسہ بنانے اور جھوٹ بولنے والے ہوتے تو کیا وہ کسی قومی جدوجہد کا حصہ بنتے؟
یہ بھی ضروری ہے کہ وکالت کے پیشے کو باقی شعبوں کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھا جائے۔ اگر کسی ڈاکٹر کی غفلت سے کوئی مریض مر جائے تو کیا تمام ڈاکٹروں کو قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ اگر کوئی صحافی غلط رپورٹنگ کرے تو کیا پوری صحافت کو بدنام کیا جا سکتا ہے؟ اگر ایک پولیس افسر رشوت لے تو کیا پوری پولیس فورس کو کرپٹ کہا جا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ اسی طرح اگر چند وکیل غیر اخلاقی راستہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورا وکالتی پیشہ ہی بددیانتی پر مبنی ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ وکیل انصاف کی بنیاد ہیں۔ اگر وکیل نہ ہوں تو عام شہریوں کو اپنے حقوق کی آگاہی نہ ہو، کوئی کمزور شخص طاقتور کے خلاف آواز نہ اٹھا سکے، اور عدالتوں میں حقیقی انصاف فراہم کرنا ناممکن ہو جائے۔ وکیلوں کی محنت ہی ہے جو عدالتی نظام کو متحرک رکھتی ہے۔ ان کی مدد سے ہی جج قانونی نکات پر غور کرتے ہیں، شواہد کا تجزیہ کرتے ہیں اور قانون کی صحیح تشریح کر پاتے ہیں۔
یہ غلط فہمی ختم ہونی چاہیے کہ وکیل جھوٹ کے سوداگر ہوتے ہیں۔ وکیل کا کام سچ کو جھوٹ میں بدلنا نہیں بلکہ عدالت کے سامنے حقائق کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ عدالت میں فیصلہ ثبوتوں اور شواہد کی بنیاد پر ہوتا ہے، نہ کہ کسی وکیل کی چالاکی پر۔ اگر انصاف کو قائم رکھنا ہے تو وکیلوں کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہوگا۔ وکیل جھوٹ کے نہیں بلکہ انصاف کے سپاہی ہیں اور جب تک عدلیہ کا وجود ہے، وکیل اس کے بنیادی ستون کے طور پر کھڑے رہیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں