ٹھیک سے یاد نہیں یہ ملاقات خواب میں ہوئی تھی یا جاگتے میں مگر کچھ ملاقاتیں، کچھ باتیں دل پر ایسی لکیر کھینچ دیتی ہیں جو وقت کی گرد میں بھی نہیں مٹتی۔
یہ ایک ایسی ہی ملاقات کی کہانی ہے
وہ دن معمول کے دنوں جیسا ہی تھا، مگر اب سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ شاید وہ دن پہلے سے ہی لکھا جا چکا تھا۔ میں ایک کیفے میں بیٹھا کافی کی چسکیاں لے رہا تھا۔ باہر ہلکی سخت سردی تھی اور اندر گرم ماحول میں کافی کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی ۔
اچانک نظر سامنے والی میز پر جا ٹھہری۔
ایک صاحب بیٹھے تھے، کچھ شناسا سے، مجھے لگا میں نے انہیں کہیں دیکھا ہے..!
میں نے غور سے دیکھا، وہ چہرہ میں نے کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا تھا۔ کچھ لمحے تذبذب میں گزارے، پھر ہمت کر کے ان کے قریب جا پہنچا۔
“معاف کیجیے گا، کیا آپ۔۔ ابراہم ماسلوف ہیں؟”
وہ مسکرائے، جیسے کوئی استاد کسی جستجو کرنے والے شاگرد کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔
“ہاں، میں ہی ہوں۔ مگر تم نے پہچان کیسے لیا؟”
آپ ایک معروف ماہر نفسیات ہیں میں آپ کا ایک شاگرد ہوں لیکن ملاقات آج ہو رہی ہے آپ کی کتابیں اور خاص طور پر آپ کی وہ مشہور تھیوری کے بارے میں کچھ سن رکھا ہے لیکن آج آپ سے آپ کی زبانی تفصیل سے سننا چاہتا ہوں.
یہ سن کر وہ ہنس دیے۔ چائے کا کپ ہاتھ میں
گھماتے ہوئے بولے، “تو جاوید، تم میری تھیوری کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟”
میں نے کندھے اچکائے، “اتنا جانتا ہوں کہ آپ نے انسانی ضروریات کے پانچ درجے بتائے ہیں۔ مگر اگر آپ خود سنائیں، تو شاید بات دل میں اتر جائے۔”
“تو آؤ، آج تمہیں وہ کہانی سناتا ہوں
جو ہر انسان کو سننی چاہیے۔ اور جاوید، یہ بات اپنے بچوں کو، ان کے بچوں کو، اور اپنے وطن کے اساتذہ کو ضرور بتانا، تاکہ وہ اپنے شاگردوں کو تعلیم کے ابتدائی دور میں ہی یہ ان پانچوں درجے کا راستہ دکھا سکیں۔ کیونکہ جب تک کسی کو پتہ ہی نہ ہو کہ منزل کیا ہے، تو وہ وہاں کیسے پہنچے گا؟”
یہ کہہ کر انہوں نے
ایک گہری سانس لی اور بولنا شروع کیا۔
پہلا درجہ: زندگی کی بنیادی ضرورتیں
“انسان جب دنیا میں آتا ہے، تو اس کے پاس کوئی خواب نہیں ہوتا، کوئی فلسفہ نہیں ہوتا۔ سب سے پہلی ضرورت روٹی، پانی، نیند اور ہوا کی ہوتی ہے۔ جب پیٹ خالی ہو، تو دنیا کی کوئی بھی چیز قیمتی نہیں لگتی۔”
میں نے سر ہلایا، “یہ بالکل ویسا ہے جیسے کوئی صحرا میں بھوک اور پیاس سے نڈھال ہو، اور سونے چاندی کے ڈھیر پر بیٹھا ہو، مگر اس کی نظر صرف ایک گلاس پانی پر ہو۔”
وہ مسکرائے، “بالکل! اگر تمہارے پاس دولت کے انبار ہوں، مگر تم کھا نہ سکو، سو نہ سکو، تو سب کچھ بے معنی ہو جاتا ہے۔”
دوسرا درجہ: تحفظ اور سلامتی ہے
“جب کھانے پینے کی فکر ختم ہو جاتی ہے، تو دوسرا سوال پیدا ہوتا ہے: کیا میں محفوظ ہوں؟ ہر شخص چاہتا ہے کہ اس کے پاس چھت ہو، صحت ہو، بچاؤ ہو، اور اس کی نوکری یا روزگار محفوظ ہو۔”
میں نے سوچتے ہوئے کہا، “جیسے اگر ایک آدمی کے پاس جاب تو ہو، مگر اسے ہر وقت نوکری چھن جانے کا خوف ہو، تو وہ کبھی سکون میں نہیں رہ سکتا؟”
“بالکل! اسی لیے لوگ گھروں میں تالے لگاتے ہیں، انشورنس کرواتے ہیں، اور مستقبل کے بارے میں سوچتے ہیں۔ مگر جاوید، انسان صرف تحفظ کے لیے نہیں جیتا، اس کے اندر اور بھی بہت کچھ ہے۔”
تیسرا درجہ: محبت اور تعلقات کا ہوتا ہے
“جب انسان محفوظ ہو جاتا ہے، تو اسے احساس
ہوتا ہے کہ وہ اکیلا ہے۔ اب وہ چاہتا ہے کہ کوئی اسے چاہے، اس کی فکر کرے، اس کے ساتھ ہنسے اور روئے۔”
میں نے مسکراتے ہوئے کہا، “یہ بالکل ویسا ہے جیسے ایک کامیاب بزنس مین جس کے پاس سب کچھ ہے، مگر اگر اس کے اپنے لوگ اس سے دور ہو جائیں، تو وہ اندر سے خالی ہو جاتا ہے۔”
“شاباش! اسی لیے لوگ رشتے بناتے ہیں،
دوست بناتے ہیں، کیونکہ بغیر محبت کے، زندگی
بے رنگ ہو جاتی ہے۔ مگر جاوید، یہی وہ مقام ہے جہاں زیادہ تر لوگ پھنس کر رک جاتے ہیں ۔”
چوتھا درجہ: عزتِ نفس اور پہچان کا ہے
“یہاں پہنچ کر انسان چاہتا ہے کہ لوگ اس کی عزت کریں، اس کی قدر کریں، اور اسے ایک اہم شخصیت سمجھیں۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کچھ لوگ عام انسان سے خاص انسان بن جاتے ہیں۔”
میں نے کہا، “جیسے ایک استاد
جو بچوں کو علم دیتا ہے، وہ صرف تنخواہ کے لیے نہیں پڑھاتا، بلکہ اس کی خوشی اس وقت ہوتی ہے جب شاگرد اسے عزت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاد جی نے ہمیں سکھایا تھا!”
ماسلو نے سر ہلایا، “یہی وہ درجہ ہے جہاں انسان عام ہجوم سے نکل کر الگ مقام بناتا ہے۔ مگر جاوید، سچ پوچھو، تو یہاں بھی بہت کم لوگ پہنچ پاتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر لوگ زندگی صرف پہلے تین درجوں میں گزار دیتے ہیں۔”
پانچواں درجہ: خود شناسی حقیقت پسندی ہے
“یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی صلاحیتوں کو مکمل طور پر پہچانتا ہے اور دنیا میں کچھ بڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر جان لو، یہ درجہ صرف ایک فیصد لوگ حاصل کر پاتے ہیں!”
میں نے حیرت سے پوچھا، “کیا مطلب؟”
“دیکھو، پہلے تین درجوں میں تو جانور بھی محنت کرتے ہیں۔ ایک بلی بھی کھانے کی تلاش میں دوڑتی ہے، پرندے بھی اپنے گھونسلے بناتے ہیں، اور کتے بھی محبت چاہتے ہیں۔ مگر چوتھے اور پانچویں درجے میں صرف انسان آتے ہیں! یہاں وہ لوگ پہنچتے ہیں جو خود کو پہچانتے ہیں، جو دنیا کو کچھ دے کر جاتے ہیں۔”
آخری نصیحت
ماسلو نے مجھے دیکھ کر کہا، “جاوید، تمہیں اللہ نے زندگی دی ہے، تو کوشش کرو کہ تم پانچویں درجے تک پہنچو۔ صرف کھانے پینے، گھر بنانے، اور نوکری کرنے کے لیے مت جیو۔
کچھ ایسا کرو کہ تمہارا وجود دنیا میں روشنی پھیلائے۔ اور یہ بات اپنے بچوں کو ضرور سکھاؤ۔ ان کے بچوں کو بھی، اور پاکستان کے اساتذہ کو بھی کہ وہ پانچویں جماعت تک کے بچوں کو یہ سکھا دیں۔
کیونکہ جب کوئی بچہ ان پانچ درجوں
کو سمجھ لے گا، تبھی وہ وہاں تک پہنچ سکے گا۔ ورنہ وہی ہوگا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے— لوگ پہلے تین درجوں میں ہی پھنس کر زندگی گزار دیتے ہیں، اور دنیا میں تبدیلی نہیں آتی!”
یہ بات سن کر میں اندر تک ہل گیا.!
میں نے وعدہ کیا کہ میں اس پیغام کو ضرور پہنچاؤں گا۔ شاید اسی لمحے، میں نے خود بھی فیصلہ کر لیا تھا کہ میری زندگی صرف ضروریات پوری کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ایک بڑا مقصد حاصل کرنے کے لیے ہوگی۔
بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں