ایک شعر سے جدید دنیا تک /علی عبداللہ

کہیں پڑھا تھا کہ اچھی نثر وہی ہوتی ہے جو مسلسل شاعری کی طرف رجوع کرے- مگر نطشے کہتا ہے کہ نثر شاعری کے ساتھ مسلسل، شائستہ جنگ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ یہ دو مختلف نقطہ ہائے نظر ہیں؛پہلا خیال کرتا ہے کہ نثر کو شاعری سے فیض حاصل کرنا چاہیے، جبکہ دوسرا کہتا ہے کہ نثر کو شاعری سے آزاد رہنے کے لیے اس سے مسلسل نبرد آزما رہنا ہوگا۔ غالب کا کمال یہی ہے کہ وہ شاعری کے اس تخلیقی جوہر کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور نثر کی فکری گہرائی کو بھی چیلنج کرتے ہیں۔ ان کے کچھ اشعار محض جمالیاتی لطف کے لیے نہیں بلکہ ایک گہری فکری کشمکش کو جنم دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت محسوس ہوا جب میں نے غالب کا یہ شعر پڑھا:

“پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے”

یہ شعر پڑھتے ہی ذہن میں خیالات کا ایک در وا ہوا۔ ایسا لگا جیسے غالب نے یہاں محض شراب نوشی کی بات نہیں کی، بلکہ حقیقت اور معرفت کی جستجو کو ایک استعارہ بنا دیا ہے۔ یہاں خم ایک مرکزی حقیقت، ایک ماخذ، ایک سرچشمہ ہے، جب کہ شیشہ، قدح، کوزہ اور سبو وہ تمام واسطے اور ذرائع ہیں جو حقیقت تک پہنچنے کے راستے دکھاتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اصل ماخذ موجود ہے تو ہم واسطوں پر کیوں اکتفا کریں؟ کیوں نہ براہ راست سرچشمے تک پہنچیں؟ یہی وہ بنیادی سوال ہے جس نے فلسفہ، تصوف اور انسانی فکر کو صدیوں سے متحرک رکھا ہے: کیا ہم جو کچھ دیکھتے ہیں، وہی حقیقت ہے، یا اصل حقیقت ان پردوں کے پیچھے کہیں چھپی ہوئی ہے؟

انسان ہمیشہ سے اس کشمکش میں مبتلا رہا ہے کہ آیا حقیقت کو براہ راست جانا جا سکتا ہے یا اسے سمجھنے کے لیے کسی ذریعے، کسی واسطے کی ضرورت ہوتی ہے؟ فلسفہ، تصوف، اور سائنس تینوں نے اپنے اپنے طریقے سے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ غالب کا شعر بھی اسی نکتے کو چھیڑتا ہے۔ اگر خم کو معرفت یا حقیقت کا استعارہ مان لیا جائے، تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم براہ راست حقیقت کو سمجھ سکتے ہیں، یا ہمیں ہمیشہ کسی نہ کسی واسطے پر انحصار کرنا پڑے گا؟ یہاں غالب کے الفاظ میں ایک اور لطیف پہلو بھی موجود ہے۔ “پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار” میں صرف خم دیکھنے کی خواہش نہیں بلکہ اس سے براہ راست فیض پانے کی جستجو بھی نظر آتی ہے۔ غالب صرف ظاہری علم پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ وہ حقیقت کو براہ راست محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محض علم حاصل کرنا کافی نہیں، بلکہ اس علم کو براہ راست تجربے میں بدلنا ضروری ہے۔ یہاں پر غالب کا فلسفہ تصوف کے قریب آ جاتا ہے، جہاں علم صرف کتابی نہیں بلکہ ایک داخلی تجربہ ہوتا ہے۔

اگر ہم آج کی دنیا کو غالب کے اس شعر کے تناظر میں دیکھیں، تو یہ شعر اور بھی زیادہ معنویت اختیار کر لیتا ہے۔ آج کے انسان کو جو حقیقت دکھائی جاتی ہے، وہ اکثر حقیقت نہیں ہوتی بلکہ ایک “ڈیجیٹل سراب” ہوتی ہے۔ ہر طرف معلومات کی یلغار ہے، لیکن ان میں سے کتنی سچ ہیں اور کتنی محض گمراہ کن ہیں؟ یہاں “شیشہ، قدح، کوزہ اور سبو” ان تمام واسطوں کی علامت بن جاتے ہیں جو ہمیں حقیقت تک پہنچانے کے دعویدار ہیں؛۔ سوشل میڈیا، نیوز چینلز، تعلیمی نظام، حتیٰ کہ ہماری اپنی روایتی سوچ کے سانچے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان واسطوں کو دیکھ کر مطمئن ہو جائیں، یا اصل ماخذ تک پہنچنے کی کوشش کریں؟

آج کے دور میں “خم” وہ حقیقی معلومات، وہ غیر جانبدار تحقیق، اور وہ تنقیدی سوچ ہے جو ہمیں اصل حقیقت تک پہنچا سکتی ہے۔ مگر بیشتر لوگ ان واسطوں کے جھرمٹ میں الجھے رہتے ہیں، جو سچائی کا صرف ایک دھندلا عکس دکھاتے ہیں۔ جعلی ویڈیوز، سوشل میڈیا کے وائرل بیانیے، اور ایجنڈا پر مبنی خبروں نے حقیقت کو مسخ کر دیا ہے۔ امام غزالی نے بھی اسی نکتے پر روشنی ڈالی تھی کہ جو کچھ ہمیں نظر آتا ہے، وہ حقیقت ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی- اگر ہم گہرائی میں جا کر تحقیق نہ کریں، تو ظاہری مظاہر کے دھوکے میں آ سکتے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سنی سنائی باتوں پر قناعت کرنے کے بجائے تحقیق اور تنقیدی سوچ کا سہارا لیں- یعنی ہر چیز کو سطحی نظر سے دیکھنے کی بجائے، اس کے پیچھے چھپی حقیقت کو کھوجیں اور فلسفیانہ اور منطقی سوچ کو فروغ دیں، تاکہ ہم سچائی کو صرف محسوس نہ کریں بلکہ جان بھی سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غالب کا یہ شعر ہمیں یہ بھی باور کرواتا ہے کہ حقیقت کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم واسطوں سے آگے بڑھیں۔ مگر یہ بھی ممکن ہے کہ “خم” خود بھی ایک اور واسطہ ہو، ایک اور پردہ، جو کسی اور حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہو۔ یہی وہ فکری کشمکش ہے جو انسانی سوچ کو آگے بڑھاتی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ ہم حقیقت کو پا سکتے ہیں یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم حقیقت کی تلاش میں سنجیدہ بھی ہیں یا نہیں؟ آج بھی ہم اسی دو راہے پر کھڑے ہیں یا تو ہم “شیشہ و قدح و کوزہ و سبو” میں الجھے رہیں، یا “خم” کی طرف بڑھنے کی جستجو کریں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply