• صفحہ اول
  • /
  • اختصاریئے
  • /
  • بغض یا بے حسی؟ مفتی منیب شاکر کے جنازے میں غیر حاضری کا سوال/ اے وسیم خٹک

بغض یا بے حسی؟ مفتی منیب شاکر کے جنازے میں غیر حاضری کا سوال/ اے وسیم خٹک

ایک ہفتہ پہلے پشاور کے باغ ناران میں مفتی منیب شاکر کا جنازہ ادا کیا گیا، اور یہ کسی عام جنازے کی طرح نہیں تھا۔ لوگوں کا ایک جم غفیر موجود تھا، تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورا شہر ان کی آخری رسومات میں شریک ہونے آیا ہو۔ لیکن اس بڑے اجتماع میں ایک غیر معمولی خلا بھی محسوس ہوا وہ لوگ جو آنا چاہیے تھے، جو کسی بھی بڑے سانحے پر اپنی موجودگی درج کرواتے ہیں، وہ کہیں دکھائی نہیں دیے۔

مفتی منیب شاکر کوئی عام شخصیت نہیں تھے۔ وہ ایک جری عالم دین تھے، ان کا خطیبانہ جوش و جذبہ انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ ان کے خیالات، ان کا اندازِ بیان، اور ان کی بے باکی ایسی تھی کہ بہت سے لوگ ان کے سامنے آنے سے کتراتے تھے۔ مسلکی اختلافات اپنی جگہ، مگر ایک ایسی شخصیت جو ایک عرصے تک حق اور سچ کی آواز بنی رہی، اس کے جنازے میں سیاست دانوں، مذہبی قائدین اور سرکردہ شخصیات کی غیر حاضری نے کئی سوالات کو جنم دیا۔

جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، تحریک انصاف، ن لیگ، پیپلز پارٹی یہ تمام جماعتیں، جو مذہبی اور سیاسی میدان میں اپنا اثر رکھتی ہیں، ان میں سے کسی کا بھی کوئی بڑا رہنما جنازے میں شریک نہ ہوا۔ وہی منظور پشتین، جس کے ساتھ مفتی منیب شاکر ہر مشکل وقت میں کھڑے رہے، وہ بھی نہ آئے۔ البتہ ان کی تحریک کے چند کارکنان ضرور موجود تھے، لیکن جو بڑے لیڈر تھے، وہ غائب رہے۔سوائے اے این پی کے میاں افتخار حسین کے کوئی حکومتی عہدیدار بھی نہیں تھا

یہاں تک کہ تعزیت کے لیے بھی کوئی بڑا نام مفتی منیب شاکر کے گھر نہیں پہنچا۔ کیا اختلافات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ ہم ایک شہید عالم دین کے جنازے میں بھی شریک نہیں ہو سکتے؟ کیا ہمارا بغض، ہمارے سیاسی اور مسلکی اختلافات اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ہم مرنے والے کے لیے دعا کے دو الفاظ بھی ادا کرنے سے گریزاں ہو گئے ہیں؟

julia rana solicitors

مفتی منیب شاکر کا جنازہ اس سوال کے ساتھ دفن ہو گیا کہ ہمارے معاشرے میں اخلاص اور تعلق کی جگہ مفادات اور مصلحتوں نے لے لی ہے۔ ایک بڑی شخصیت ہم سے جدا ہو گئی، لیکن جنہیں آنا چاہیے تھا، وہ نہیں آئے۔ تاریخ اس خاموشی کو ضرور یاد رکھے گی۔

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply