یہ ویڈیو کل نظر سے گزری اور دل لرز اٹھا کہ پیپر دینے والا بچہ کس قدر سٹریس میں ہوگا اس کی ذہنی کیفیت کتنی پیچیدہ تھی وہ کیا کیا سوچ رہا تھا۔
اس عمر میں اوور تھنکنگ اف خدایا۔۔کتنے ماہ وسال سے وہ اس کرب میں مبتلا ہوگا کہ میرے گریڈ کم آتے ہیں والدین کا خوش نہ ہونا بہن بھائی یا کزنز رشتہ داروں کے زیادہ گریڈز لانے والے بچوں کے درمیان تضحیک کا نشانہ بننا اور والدین کی حوصلہ افزائی سے محروم رہنا ,یہی عوامل ایک بچے کا دھیان علوم سے ہٹا کر ذہنی ٹینشن کی طرف لے جانے کے لیے کافی ہیں۔
اگرچہ سکول ٹیچر ،ہوٹنگ سٹوڈنٹس بھی سب غلط کرتے ہیں مگر میں ایسی ذہنی حالت کا ذمہ دار صرف اور صرف والدین کو ٹھہراؤں گی آپ کا بچہ آپ کا اپنا ہے سوتیلا نہیں ہے ۔
آپ والدین ہیں رب العزت نے آپ کو والدین کا رتبہ دے کر بچے کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داری دی ہے مگر یاد رکھیں اس کی ذہنی اور جسمانی صحت اس سے کہیں ضروری ہے وہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے ۔
ہوسکتا ہے بچے میں شروع سے کمزوریاں چلی آرہی ہوں تب آپ نے بچہ سمجھ کر نظر انداز کیا کہ وقت کے ساتھ سیکھ جائے گاسیٹ ہوجائےگا، تب اسےزیادہ شفقت اور زیادہ توجہ کی ضرورت تھی لیکن وہ وقت غفلت کی نذر ہوگیا ۔
اب بچہ بڑا ہوگیا ہے اس کی کمزوریاں دور ہونے کی بجائے پختہ ہوگئیں ۔ساتھ ہی بچے کے سینڈرز بڑے اور اس سے زیادہ گریڈز لینے کی توقعات آئے روز بڑھتی گئیں مگر بچے کی کارکر دگی نہ بڑھ سکی ۔۔کیسے بڑھتی؟ جب بچہ ذہنی دباو کاشکار ہے تو وہ کیسے پڑھے گا اور آگے بڑھے گا ۔
پھر ایسے ہی درد ناک واقعات سامنے آتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔
میرے میکے میں پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا بہنیں اچھا پڑھتی تھیں اور بیٹا باپ کی امیدوں پر پورا نہیں اتر پا رہا تھا میٹرک میں اس کے گریڈز اچھے آئے مگر ٹاپر نہ بن سکا اور باپ سے یہ برداشت نہ ہوا اکلوتے چشم و چراغ کا یوں پیچھے رہنا اس کے لیے انا کا مسئلہ بن گیا بچے پر ایسا تشدد کیا کہ بیچارا جان کی بازی ہار گیا۔ اور کیس کو خودکشی کا نام دے دیا گیا۔
باپ جلاد بن گیا اُف۔۔
اس طرح کے کئی واقعات میٹرک کے پیرز اور رزلٹ کے دوران سامنے آتے ہیں ایک سادہ سے امتحانی عمل کو ہم سب مل کر بچوں کے لیے پیچیدہ اور تکلیف دہ بنا رہے ہیں ۔
سارے پڑھے لکھے افراد یہ بھی جاتنے ہیں کہ ہماری ڈگریز کی ویلیو کیا ہے میٹرک کی حیثیت ہی کیا ہے جس کی ڈگری کے لیے اپنے بچوں کو قربانی کا بکرا بنا دیا جائے ۔
اس کے تعلیمی مسائل احساسات کچل کر اسے روبو سٹوڈنٹ بنانےکی کوشش کی جائے ۔خدارا اپنے بچوں کے مسائل سمجھیں ان کی مشکلیں مت بڑھائیں۔
آج میرے بیٹے کا کلاس نہم کا پہلا پیپر ہے میرایہ بچہ جہاں محنتی ہے وہاں بہت معصوم اور کنفیوزڈ بھی ہے شاید اسی لیے باقی دونوں بچوں کی نسبت احساس توجہ اور شفقت اس پر زیادہ رہتی ہے۔
شروع میں اس کے ساتھ
Dyslexia,_phonics difficulties
کے ایشو رہے ہیں۔
جس بچے کے ساتھ کچھ نہ کچھ ایشو ہو وہ ضرور ذہنی دباو میں رہتا ہے خواہ کم یا زیادہ اب یہ والدین پر ہیں کہ اسے کیسے ہینڈل کرتے ہیں ۔
بالکل آزاد چھوڑ دینا یا غیر محسوس طریقے سے توجہ بڑھا دینا۔
چونکہ بیٹے کا بورڈ کا پہلا پیپر ہے اس لیے تیاری کے باوجود کنفیوز لگ رہا تھا ۔
سحری کے بعد کتاب کھول کر بیٹھ گیا حالانکہ تیاری رات تک مکمل کرلی تھی جتنی کہ وہ کر سکتا تھا۔
اس کی معصومیت اور تفکرات دیکھ کر میں نے کہا۔
“آپ جتنا پڑھ سکتے تھے آپ نے پڑھ لیا ہے جب پیپر سامنے آئے تو بنا پریشان ہوئے سکون سے حل کریں بس ۔ مجھے آپ کے پاس یا فیل ہونے سے کیوں ایشو نہیں ہے ۔نہ کہ کم گریڈز آنا کوئی بے عزتی کی بات ہے”۔

Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں