اختر شیرانی کی ظریفانہ شاعری /شاہد عزیز انجم

لسان العصر اکبرالہ آبادی بلا شبہ ایک مؤقر و مقتد رظریف شاعر تھے اور لاریب شاعر اختر شیرانی ایک مفتخر و قابلِ قدر رومانی شاعر تھے۔ دونوں کی شاعری میں واضح طور پر بُعد المشرقین ہے۔ اختر شیرانی کے کلام رومانیت نظام کی منجملہ خصوصیات کے ایک وصف خاص یہ بھی ہے کہ انہوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر اپنی شاہراہِ شاعری الگ سے منتخب کی اور بڑے شاہانہ انداز سے اس پر گامزن ہوئے ۔ انہوں نے جہاں شعری ہئیتوں میں تجربے کر کے خزینہ سخن میں قابلِ قدر اضافے کئے وہیں میدان شاعری کو مختلف جہات سے بھی روشناس کیا۔ دراصل اس اختر تابندہ کی تابناک کرنوں نے مطلع رومانیت کو کچھ اس قدر جگمگا دیا کہ ان کی دیگر شاعرانہ جہات ماند ہو کر رہ گئیں، ورنہ اختر شیرانی اپنی شخصیت و شاعری کے اعتبار سے ایک دبستان کی حیثیت رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی سخنورانہ صلاحیتوں سے اپنے عہد کو پوری طرح متاثر کیا ہے۔ اُردو میں رومانی شاعری کے وہ سرخیل تسلیم کئے گئے کیونکہ انہوں نے اس میں اپنی فکر و تخیل کے وہ کرشمے دکھائے کہ اردو شاعری کو انگریزی شاعری کے ہم پلہ بنا دیا۔ رومانی شاعری سے قطع نظر انہوں نے بربط سخن پر قومیت اور وطن پرستی کے سرفروشانہ گیت گنگنائے ۔ مذہبی اور عصری معاملات کو موضوع سخن بنایا ۔ چمنستان ادب اطفال میں گلگشت کی تو طنز و ظرافت کے میدان میں بھی اپنے جاوداں نقوش قدم چھوڑے۔ اس سلسلے میں ستم ظریفی یہ ہوئی کہ نقادان سخن اور دانشوران ادب نے ان کی رومانی شاعری پر تو بھر پور خامہ فرسائیاں کیں مگر مذکورہ جہاتِ شعر میں ان کی خدمات کا جائزہ نہیں لیا اور نہ یہ سوچا کہ :
ہزار بادۂ ناخورده در رگِ تاک است
واضح رہے کہ انگریزی میں مزاح کے لئے Humor، طنز کے لئے Irony اور ظرافت کے لئے Wit کی اصطلاحات مستعمل ہیں اور اکبر الہ آبادی نے اپنے ظریفانہ کلام میں ان کا بھر پور استعمال کیا ہے۔ اکبر اپنی طرز کے موجد وظرافت نگاری کے امام تھے اور بلاشبہ اختر شیرانی کے پیش رو تھے۔ یہاں یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ اختر شہزادۂرومان اور جمالیات کا امام ہوتے ہوئے بھی اکبر الہ آبادی کی ظریفانہ سخن سنجیوں کے دل و جان سے والہ و شیدا ہی نہیں بلکہ ان کے معترف و مداح بھی تھے۔ ان کے مجموعہ کلام ”نغمہ آوارہ “میں اکیس اشعار پر مشتمل” نذر عقیدت “کے عنوان سے ایک نظم ہے جس میں انہوں نے نہ صرف اپنے تاثرات رقم کئے ہیں بلکہ ان کی شاعرانہ عظمت کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ کچھ اشعار بطور تذکرہ ملاحظہ کیجئے:
اے لسان العصر اے پیرمغاں ِ شاعری
اے کہ تو ہے آفتاب آسمان ِ شاعری
خلد ساماں تیرے نغموں سے جہان ِ شاعری
تیرا اک لفظ ہے روحِ رواں ِ شاعری
اختر شیرانی اور اکبر الہ آبادی میں ایک قدر مشترک یہ تھی کہ دونوں مشرقی معاشرے کے پروردہ اور اسلامی تہذیب کے دلدادہ تھے۔ مغربی طرز معاشرت اور اس کے بڑھتے ہوئے مضمرات کے سخت مخالف تھے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے اختر شیرانی نے اپنے مخصوص رحجان شاعری کو برقرار رکھتے ہوئے اکبرؔ کے ظریفانہ رنگ کو اگر جگہ دی تو یہ ایک فطری اور شعوری عمل تھا۔ ویسے بھی ظرافت کے پیرائے میں اگر ڈھنگ سے اظہار خیال کیا جائے تو ہنسی مذاق میں غور وفکر کی دعوت بھی دی جا سکتی ہے ۔ اختر شیرانی کے فکاہاتی کلام میں ان کے مزاح پر طنز غالب ہے۔ یعنی ان کا یہ کلام صرف ہنسنے ہنسانے کی چیز نہیں بلکہ ظرافت کے پس پردہ اصلاح معاشرہ کارفرما ہے۔ علاوہ ازیں حالانکہ انہوں نے چمنستان ظرافت میں وافر تعداد میں گل بوٹے نہیں کھلائے تا هم خانہ بر انداز چمن بن کر جو گل افشانیاں کی ہیں وہ مغتنم ہی نہیں محترم بھی ہیں ۔ ضیافت طبع کے لئے سب سے پہلے بطور ”مطائبہ“ انیس اشعار پر مشتمل ایک غزل نما نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ ہوں۔ جن میں خالص مزاح کی جھلکیاں ذہن و دل میں طمانیت کا احساس کراتی ہیں ۔ کہیں بھی تمسخر اور استہزاء دکھائی نہیں دیتا اور اس کا اندازہ بھی بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ اختر شیرانی کا مزاج اگر چہ لڑکپن سے عاشقانہ تھا مگر ان میں ظرافت بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی :
پوسٹ مین اس بت کا خط لاتا نہیں
اور جو لاتا ہے پڑھا جاتا نہیں
عاشقی سے کیوں ہم استعفیٰ نہ دیں
ہوٹلوں کا بل دیا جاتا نہیں
بوسہ لیں اس سرو قد کا کس طرح
تاڑ پر ہم سے چڑھا جاتا نہیں
تازه واردان بساط شعر و ادب نہ جانتے ہوں گے کہ اختر شیرانی صحافت سے بھی جڑے ہوئے تھے اور اکثر نظم و نثر کے شہ پارے فرضی قلمی ناموں مثلاً لارڈ بائرن آف راجستھان ،ملا فرقان، بالم، مسعوداختر شیرانی ، ضاحک ، عکاس،زبور، سروش ، طور، راجکماری بکاؤلی ، ابن بطوطہ ، ایں جہانی سے قلم بند کرتے تھے اور فکاہی نظموں میں بالعموم اپنے آپ کو ابن بطوطہ لکھ کر” زمیندار“ میں شائع ہوتے تھے ۔ واضح ہو کہ اختر شیرانی اس اسلامی ریاست ٹونک کے باشندے تھے جہاں ملوکیت سے زیادہ مذہبیت اور شعریت کا غلبہ تھا۔ لوگوں کے رسم و رواج ، لباس و پوشاک اور خوردو نوش احکام شرعیہ اور امور دینیہ کے مطابق انجام پذیر ہوتے تھے۔ خواتین سخت پر دے کا اہتمام کرتی تھیں، موسم گرما میں رات کو کھلی چھت پر بھی ننگے سر نہیں ہوتی تھیں ۔ ان کا ناخن تو در کنار کوئی غیر مردان کی آواز تک نہیں سن سکتا تھا۔ ایسے مذہبی ماحول میں پلے بڑھے۔ اختر شیرانی جب لاہور گئے اور وہاں مغربی تہذیب سے متاثر و مناظر دیکھے تو ورطہ حیرانی میں پڑ گئے ۔ اختر شیرانی لانبی اور گھٹاؤں جیسی گھنیری زلفوں کے رسیا تھے ۔ گیسو بریدہ اور پر کٹی حسیناؤں کو دیکھ کر ان کی رگِ حمیت بھڑک اٹھی اور وہ بے اختیار کہہ اٹھے :
لغاتِ خانہ میں گیسو بریدہ ایک گالی تھی
مگر گیسو برید ہ آجکل ہر ایک عورت ہے
فقط گیسو بری کا ذکر کیا ہے اس زمانے میں
کہ عریانی تن بھی داخل تقلید فطرت ہے

julia rana solicitors london

فی زمانہ یہ ماننا پڑے گا کہ عورتیں مردانہ رنگ ڈھنگ اپنا رہی ہیں ۔ لباس و پوشاک میں یک رنگی اتنی بڑھ گئی ہے کہ دور سے مردو زن میں تمیز مشکل ہو جاتی ہے اور اکثر نظریں بھی دھوکہ کھا جاتی ہیں ۔ مگر اس کی شروعات تو اختر شیرانی کے زمانے ہی میں ہو چکی تھی ۔ عورتوں کے مردانہ اطوار پر ان کی ایک نظم ” مرد اور عورت کی یک رنگی“ملتی ہے، جس میں انہوں نے بہت بلیغ انداز میں طنز کی کیفیت کو اشعار کے پیکر میں سمویا ہے :
کل شب کو تھی اک ہال میں جلوہ کناں حور و پری
یا محوِ رقص و نغمہ ، صد ہا بتانِ آذری
دل موہ لینے کے لئے ہر شوخ ادا آمادہ تھی
آنکھوں میں کفر ساحری ، ہونٹوں پر کفر سامری
تہذیب نو کے رنگ سے لبریز تھی ہر اک ادا
ملبوس کی عریانیاں ، انداز کی عریاں گری
مردانہ فیشن سے غرض اس کے سوا کوئی نہیں
”تا کس نہ گوید بعد از یں من دیگرم تو دیگری “
اختر شیرانی کی سماجی ناہمواریوں پر بھی گہری نظر تھی ۔ وہ مطالباتی انداز میں ان پر بھی قلم افشانیاں کرتے رہتے تھے ۔ ”ایڈیٹر کی شان میں“ اسی قسم کی نظم ہے جس میں انہوں نے اردو اخبار نویسوں کا تعارف اس طرح کرایا ہے کہ شگفتگی چھلکتی پڑتی ہے۔ کچھ اشعار دیکھیں کہ اختر شیرانی کس طرح طنز و مزاح کی خوشگوار پھلجھڑیاں چھوڑتا ہے :
قلم ہے ہاتھ میں سگریٹ ہے منہ میں تن کے بیٹھے ہیں
صحافیات کی کرسی پر یوں بن ٹھن کے بیٹھے ہیں
متانت لاکھ مصنوعی ہو لیکن شبہ ہوتا ہے
وزیر ِہند وائٹ ہال میں لندن کے بیٹھے ہیں
اس پوری نظم سے اختر شیرانی کی وسعت نظر کا خوب اندازہ ہوتا ہے ۔ اور زبان و بیان پر ان کی قدرتِ کاملہ کا ثبوت بھی بہم پہنچاتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی نظم”نارضا مندی کی شادی“ میں لائقِ مطالعہ ہے ۔ اخترؔیقیناً اکبر الہ آبادی ، مجید لاہوری کی طرح ایک ظریف شاعر نہیں تھے مگر ان کے ظریفانہ کلام کے اس سرسری جائزے سے یہ بات تو بہر حال تسلیم کرنی پڑے گی کہ ان کی فکاہاتی شاعری میں بھی ان کے سنجیدہ کلام کی طرح خیال وفکر کی ایک وسیع تر اور حسین تر دنیا آباد ہے اور شاید اسی لئے آغا حشر کاشمیری نے یہ سچ ہی کہا تھا کہ:
کہو زاہد سے کیوں ہے اس قدر فردوس پر نازاں
ہزاروں جنتیں آباد ہیں تخیلِ اختر میں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply