• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • محکمہ تعلیم میں بے روزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز کی انٹری/اے وسیم خٹک

محکمہ تعلیم میں بے روزگار پی ایچ ڈی ہولڈرز کی انٹری/اے وسیم خٹک

خیبرپختونخوا میں محکمہ تعلیم کی 16 ہزار 454 آسامیوں کے لیے 8 لاکھ 66 ہزار امیدواروں نے درخواستیں جمع کیں، جن میں 406 پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز، 7 ہزار 161 معذور افراد اور 4 خواجہ سرا بھی شامل ہیں۔

اس پر حیرت کی بات نہیں کہ اسکولوں میں تدریسی اسامیوں کے لیے بے روزگار پی ایچ ڈی ڈگری ہولڈرز نے بھی درخواستیں دی ہیں۔ یہ وہ افراد ہیں جو روزگار نہ ملنے پر مزید تعلیم حاصل کرتے گئے، پہلے ایم فل کیا، پھر پی ایچ ڈی کرلی، لیکن اس کے باوجود بھی بے روزگار ہیں۔ اس مسئلے پر ایک مکمل کتاب لکھی جا چکی ہے، جس میں واضح کیا گیا ہے کہ ملک بھر میں پی ایچ ڈی کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے، اور اس کی بنیادی وجہ بے روزگاری ہے۔

پرائیویٹ تعلیمی ادارے اور یونیورسٹیاں پی ایچ ڈی میں داخلے کو انتہائی آسان بنا چکی ہیں، اور ڈگریاں عام اشیاء کی طرح بانٹی جا رہی ہیں۔ ہر کوئی پی ایچ ڈی میں داخلہ لے کر چند سالوں میں کٹ، کاپی، پیسٹ یا مالی وسائل کے ذریعے تحقیق مکمل کر کے ڈگری حاصل کر لیتا ہے، جب کہ ان میں سے بیشتر کو تحقیق کے بنیادی اصولوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔

اس پورے عمل میں اساتذہ بھی شامل ہیں، جنہیں ہائیر ایجوکیشن کمیشن فی طالب علم کے حساب سے مالی فوائد فراہم کرتا ہے، اور یونیورسٹیوں کی رینکنگ بھی تحقیق کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ریسرچ جرنلز ایک الگ کاروبار بن چکے ہیں، جہاں پیسے دے کر تحقیقی مقالے شائع کرائے جاتے ہیں۔ اکثر ریسرچرز کو نہ تو اپنے مقالے کے عنوان کا علم ہوتا ہے، نہ ہی اس کے اصل جریدے یا موضوع کا۔ بس پیسے دے کر کسی دوست کے مقالے میں نام شامل کرا لیا جاتا ہے، اور اسی کو اپنی تحقیق سمجھ لیا جاتا ہے۔

اساتذہ بھی طلبہ کے مقالوں میں زبردستی اپنا نام شامل کراتے ہیں، اور طلبہ بھی خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کے سپروائزر کا نام ساتھ آگیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب ایسے افراد پی ایچ ڈی مکمل کر کے عملی زندگی میں آتے ہیں، تو وہ بے روزگار ہی رہتے ہیں۔ اب یہی افراد اسکولوں میں تدریسی اسامیوں کے لیے بی اے اور ایف اے کے امیدواروں سے مقابلہ کر رہے ہیں۔

یہی تحقیق کا حال رہا تو مستقبل میں یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ اسکولوں میں “الف سے ادوانا”، “ب سے بکروٹی” اور “ک سے کاگ” ہی پڑھائیں گے۔ اگر قسمت سے کوئی ڈرائنگ ماسٹر بن بھی گیا، تو نان پروفیشنل ہونے کی وجہ سے بچوں کو “طوطا” بنانا سکھاتے سکھاتے “کوا” اور “شیر سے سینگوں والا گدھا” بنا دے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

یونیورسٹیوں کو مقدار کے بجائے معیار پر توجہ دینی چاہیے، خاص طور پر تحقیق کرنے والوں کو اس قابل بنانا چاہیے کہ وہ اپنے شعبے میں مہارت حاصل کریں اور عملی دنیا میں اپنی ڈگری کا دفاع کر سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نہ صرف یہ افراد خود بے روزگار رہیں گے، بلکہ ملک کو بھی ان کی تحقیقات سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اللہ ہی ملک کی یونیورسٹیوں کو حقیقت میں معیاری تعلیم فراہم کرنے کی توفیق دے۔ آمین

Facebook Comments

اے ۔وسیم خٹک
پشاور کا صحافی، میڈیا ٹیچر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply