چندر مکھی/ محمد عامر حسینی

نوٹ برائے وضاحت:
یہ ایک افسانوی تحریر ہے۔ اس میں بیان کردہ تمام کردار، واقعات، مقامات اور ادارے مکمل طور پر فرضی ہیں۔ اگر کسی حقیقی واقعے یا شخصیت سے مشابہت محسوس ہو تو اسے محض اتفاق سمجھا جائے۔
یہ کہانی کسی صوبے کی چندر مکھی نامی لڑکی کی گرفتاری، اس پر قائم مقدمات یا ریاستِ وقت پر تنقید ہرگز نہیں ہے۔ یہ ایک ادبی تخیّل ہے — ایک ایسی فرضی دنیا کی بازگشت، جو شاید ہماری دنیا سے کچھ مختلف ہو، شاید نہیں۔

افسانہ: خوفستان کی چندر مکھی

خوفستان کے مشرقی کنارے پر ایک پرانا درخت تھا ۔ نیم اور برگد کے بیچ میں اُگا ہوا، جس کی جڑیں مٹی سے زیادہ خاموشی میں پیوست تھیں۔ اسی درخت کی چھاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی ۔ چندر مکھی۔

چندر مکھی کی آنکھوں میں خواب نہیں تھے، سوال تھے۔ اس کے لفظوں میں نعرہ نہیں تھا، زخم تھا۔ وہ جب بولتی، تو خوفستان کے در و دیوار ہلنے لگتے۔ اس کی آواز میں وہ لکنت تھی جس سے نسل، صنف اور وفاداری کے پیمانے ہانپنے لگتے۔

اور یہی اس کا پہلا جرم تھا۔

کہا جاتا ہے، چندر مکھی نے بچپن میں ایک بار اسکول اسمبلی میں ترنگا گاتے ہوئے سر اُٹھا لیا تھا۔
کسی نے تب دھیرے سے کہا تھا:
“یہ برہمن نہیں، مہار ہے۔۔دھیان رکھنا۔”

بہت برس بعد، جب وہ جنگل کے قریب ایک چھوٹے سے لائبریری میں نوجوانوں کو آئین پڑھا رہی تھی،
ایک دن اس کے دروازے پر خوفستان پولیس کے جوتے آ کھڑے ہوئے۔

ایف آئی آر لکھی گئی ۔
نہ تاریخ، نہ وقت، نہ جگہ۔
بس ایک ’’اندیشہ‘‘ درج ہوا:

“چندر مکھی، مہار ذات کی لڑکی، ریاست دشمن عناصر سے جُڑی ہے،
ماواسٹ گوریلوں کو نظریاتی پناہ دیتی ہے،
اور خوفستان کے وقار کے خلاف زہر اگلتی ہے۔”

پھر ایک سطر اور تھی،
جو نہ کاغذ پہ لکھی گئی تھی، نہ قانون میں موجود تھی،
بلکہ ذہنوں کی تاریکی میں پلتی ایک تہمت تھی:
“یہ نہ مرد ہے، نہ عورت۔ یہ انردھ ہے۔
ایک خلل ہے نظام میں۔”

گویا شناخت جرم ہو گئی،
اور عدم شناخت ۔۔ جرمِ عظیم۔

چندر مکھی کو جیل میں ڈال دیا گیا،
جیسے کسی بھٹکی ہوئی نظم کو دریا میں پتھر باندھ کر پھینک دیا جائے۔

عدالت میں جب کیس پیش ہوا،
تو جج نے صرف یہ پوچھا:
“چالان پیش ہوا؟”
تفتیشی افسر نے سر جھکا کر کہا:
“زبانی چالان پیش کر دیا ہے حضور۔”

جج نے مسکرا کر قلم رکھا اور بولا:
“زبانی ہی کافی ہے۔
لفظوں کے جنگل میں اب تحریر کہاں لکھی جاتی ہے؟”

چندر مکھی کا وکیل جھنجھلایا:
“یہ دفعہ تو اُس مقدمے سے جُڑی ہے جو عدالت خود ختم کر چکی ہے!”
جج نے کہا:
“جو مقدمے ہم ختم کریں، وہی تو ہمیں دوبارہ زندہ کرنے پڑتے ہیں۔
یہی انصاف ہے خوفستان میں۔”

کہا جاتا ہے، چندر مکھی اب آزاد ہے۔
بازار سے خاموشی خرید چکی ہے۔
سوشل میڈیا پر اُس کی آخری تصویر —
ایک کتاب ہاتھ میں،
اور آنکھوں میں ایک سوال:
“کیا سوال کرنا جرم ہے؟”

اور جواب؟
قانون کی زبان میں: “ہاں۔”

اگر آپ کبھی خوفستان جائیں،
اور کسی سنسان راستے پر درخت کی چھاؤں میں ایک لڑکی کو بیٹھا پائیں،
تو کچھ نہ کہنا۔
بس چپ چاپ سُن لینا۔

Advertisements
julia rana solicitors

شاید وہ چندر مکھی ہو۔
یا شاید۔۔
آپ خود۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply