جب ایک لائبریری میں ٹرائل ہو رہا تھا/قاسم یعقوب

یہ ایک دہائی عرصہ پہلے کی بات ہے حکومتِ وقت نے سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے لیے ٹرائل کا فیصلہ کیا تھا۔ اس ضمن میں عدالتِ عظمیٰ نے نہایت اہم فیصلہ کیا اور تین ججز پر مشتمل ایک بنچ بنا دیا جس نے مشرف پر High Treason کیس کو سننا تھا۔ پوری قوم اس انتظار میں تھی کہ دیکھیں اس پہاڑ کے نیچے سے کیا نکلتا ہے۔ چوہا نکلنے کی شنید بھی تھی اور آتش فشاں کے پھٹنے سے المناک حادثے کی پشین گوئی بھی ستارہ شناس کر رہے تھے۔ خیر آتش فشاں تو نہ نکلاالبتہ چوہا ضرور نکلا، مگر مرا ہُوا۔۔۔۔۔ اس بنچ کو ایک حکم کے تحت نیشنل لائبریری اسلام آباد کے احاطے میں قائم کر دیا گیا۔ یونہی لائبریری کو عدالت کی jurisprudence قرار دیا گیا، قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں نے اس کا انتظام سنبھال لیا اور لائبریری دیکھتے ہی دیکھتے کسی ملک کی سرحد پر بنی فوجی چھاؤنی کاسا منظر بنا دی گئی۔ بہت کم لوگوں کو پتا ہے اور جن کو پتا ہے انھوں نے توجہ نہیں دی ہوگی کہ سابق ڈکٹیٹرمشرف کا ٹرائل جس خصوصی عدالت کے سپرد تھا وہ اپنا بنچ ایک لائبریری کے عین بیچ میں لے کر بیٹھی تھی۔ مشرف کوآرٹیکل 6 کے تحت سزائے موت کی شنید تھی ، مگر اس دوران ا پنے تہذیبی اعصاب کا امتحان ایک لائبریری دے رہی تھی۔ جی ہاں یہ ایک کتب خانہ ہی تھا جو کسی جنگی منظر سے کم دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ جس دن سے یہاں عدالت منتقل ہوئی ، لائبریری کو آہنی تاروں اور بارود سے محفوظ بنانے کے لیے لوہے کے بڑے بڑے بیرئیرز سے جکڑ لیا گیا تھا۔ کسی بھی طرف سے اور کسی بھی اوقات میں اس لائبریری میں داخلہ نہ صرف ممنوع تھا بلکہ اتنا خوفناک بھی کردیا کہ اگر اجازت مل بھی جائے تو اندر جاتے جاتے جتنی جگہوں پر تلاشی لی جاتی اور جس طرح کے حفاظتی مناظر سے گزرنا پڑتا ، کتاب کا نازک قاری برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ عدالت تو ہفتے میں ایک دن ہی سماعت کرتی ہے مگر لائبریری کے دروازے پورا ہفتہ بند رہتے ہیں۔
اس لائبریری کا نام نیشنل پبلک لائبریری ہے جو ایک طرح کی پاکستان کی مرکزی لائبریری بھی ہے۔یہاں لاکھوں کتب، مخطوطات، اخبارات، تحقیقی مقالے، اور نایاب تاریخی دستاویزات موجود ہیں۔ اس کتب خانے میں ۵۰۰ قارئین بیک وقت مطالعہ کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اس میں ۱۵ تحقیقی کمرے، ایک بڑا آئیڈیٹورئم بھی ہے، جس میں ۵۰۰ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش موجود ہے اور مائکروفلمز کی نمائش کے لیے بڑے ڈیجیٹل کمرے بھی دستیاب ہیں۔ ای بکس، تحقیقی جرائد، اور آن لائن ڈیٹا بیس کے علاوہ لیکچر ہال اور سیمینار رومز علمی و تحقیقی سرگرمیوں کے لیے مخصوص ہیں۔
یہ لائبریری پہلے پہل ۱۹۵۱ میں قائم ہوئی مگر اس کا پہلا نام لیاقت میمورئیل لائبریری تھا جو کراچی میں بنائی گئی۔ اسلام آباد کے نقشے کی منظوری کے وقت اس کو اسلام آباد شفٹ کر دیا۔ اور ساتھ ہی اس کا نام بھی نیشنل لائبرری کر دیا گیا۔ آپ اس سے بھی اندازہ لگائیں کہ اس وقت کتاب اور کتاب دوستی کی کتنی اہمیت تھی کہ اسے عین اسلام آباد کے ریڈ زون یعنی سب سے اہم عمارتوں کے زون میں رکھا گیا ۔کس کو خبر تھی کہ اس لائبریری کے آس پاس اور عین بیچ میں اس طرح دھرنے اور ٹرائل ہوں گے۔
آئی ایس ایس نمبرز کا ریکارڈ اور پاکستان بھر کی لائبریریوں کا بالواسطہ تعلق بھی اسی لائبریری سے رہتا ہے۔ لائبریری مارگلہ کے پہاڑوں کے دامن میں ،عین وزیرِ اعظم سیکٹرایٹ کے عقب میں واقع ہے۔ وزیرِ اعظم سیکٹرایٹ اور لائبریری کا درمیانی فاصلہ کوئی ۵۰میٹرز تک کا ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت کی کارروائی کے دوران اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اپنی کھڑکی سے اس لائبریری کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوں اور دعاؤں کے ساتھ کوئی ورد بھی کرتے ہوں۔میرا اس لائبریری میں کئی دفعہ جانا ہوا ہے۔ نہایت شاندار عمارت اور اسلام آباد کے ریڈ زون میں واقع اس لائبریری میں عوامی دخل پہلے بھی بہت کم تھا۔ بہت کم لوگ اس طرف کتاب پڑھنے اور کسی تحقیقی کام کی نوعیت سے جاتے تھے۔ لائبریری کا ایک بہت بڑا شاندار ہال بھی ہے جس میں شہر کے سرکاری اور نیم سرکاری ادارے تقریبات کا اہتمام کرتے رہتے تھے جو ریڈ زون میں ہونے کی وجہ سے اب تقریبا ختم کر دی گئی ہیں۔ کچھ سال پہلے اکادمی ادبیات پاکستان کی ایک ادبی کانفرنس بھی یہی منعقد ہوئی تھی۔ نیشنل لائبریری کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں نایاب کتب، نقشہ جات، مخطوطات، اخبارات و رسائل کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جوایک آرکائیو میں محفوظ ہے۔گویا یہ آرکائیو کا مرکز بھی ہے۔
اگر مجھ سے پوچھا جائے تو میں مشرف کے ٹرائل میں دلچسپی لینے کی بجائے کتابوں تک رسائی کوترجیح دوں گا۔ٹرائل کے دوران مجھے بھی ایک دفعہ نیشنل لائبریری کی طرف جانے کا اتفاق ہُوا تھا مگر مجھے بہت پہلے ہی یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ لائبریری آج کل بند ہے۔ میرے استفسار پر کہ کتنے دن یہ ظلم ہوتا رہے گا تو جواب ایک خاموش لاعلمی کے شکل میں نموددار ہوا۔۔میں لائبریری میں گزارے اپنے گذشتہ لمحات کو یاد کرتا ہوں کہ کتب خانے میں محفوظ کتابوں میں کیا یہی لکھا تھا کہ آہنی باڑوں کے حصار میں اس کتب خانے میں عدالت کا روسٹرم رکھ دیا جائے اور پھر محض دکھاوا کے انصاف کا بازار سجا لیا جائے۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ لفظ ومعنی کے رشتوں کو قتل کر کے ناانصافی کے لاشے پر انصاف کا ڈھول پیٹا جائے۔
اصل میں یہ لائبریری یا عدالت کا نوحہ نہیں تھا یہ تو کتاب کلچر اور اُن قدروں کی موت کا نوحہ تھا جو رفتہ رفتہ قوم کے بدن سے آخری سانسوں کی طرح موت بن کر لپٹتا جا رہا ہے۔کتاب، لفظ اور معنی کی یہ تکون آثارِ قدیمہ کی طرح مٹی کی تہوں میں چھپتی جا رہی ہے۔ صدیوں بعد ہمارے ملبے سے ہماری نام نہاد قدروں کی بازیافت ہو گی۔ ہم نے شرمندہ ہونا تو سیکھا نہیں لہٰذا واقعہ آتا ہے ، رکتا اور چلا جاتا ہے، ہم بے حس ہی رہتے ہیں۔۔ نیشنل لائبریری کی عمارت جس خوف میں مبتلا رہی، عین ممکن ہے وہ میرا اپنا خوف ہو اور لائبریری شاید ان دیوہیکل مصروف عمارتوں میں رہنے کی عادی ہو چکی ہو۔ جو قوم اپنے کتب خانوں کو ٹرائل کورٹ بنا کر غیرمعینہ مدت تک کے لیے بند کرسکتی ہے وہ ایک ہی حکم سے پوری لائبریری کے وجود کا بھی انکارکر سکتی ہے اور یہاں کسی سرکاری دفتر کو کھول کر ’’زندگی آموز سرگرمی‘‘ کا آغاز بھی کر سکتی ہے۔ لائبریری اسی لیے خاموش اور مطمئن کھڑی یہ ظلم دیکھ رہی تھی اور اپنی بقا کی جنگ میں مصلحت پسندی کا شکار ہو چکی تھی۔ مجھے بھی یہ لائبریری کہہ رہی تھی کہ بس خاموش رہو۔

میں نے اس کتب خانے کی بات مان لی اور خاموش ہو گیا تھا۔

مجھے یاد ہے ایک عرصے بعد لائبریری کھلی تو میں اس سے ملنے گیا تھا۔
اپنی پوروں پر کتابوں پر جمی گرد جمع کرتا رہا تھا
پھر لوٹا تھا تو بہت دیر اپنے مٹی زدہ ہاتھ دیکھتا رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

رات جب اندھیرا بڑھنے لگا تھا تو میں نے اس گرد بھری پوروں سے ایک چراغ بنایا تھا جس نے میرے کمرے کو لفظ آشنا روشنی سے بھر دیا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply