گاؤں کی عید / آغر ندیم سحر

میانوال رانجھا کی علمی روایت بہت مضبوط ہے،ملک بھر سے علما کی ایک کثیر تعداد حصول ِ علم کے لیے اس گائوں کا رخ کرتی رہی اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے جاری ہے،اس علمی روایت کو مستحکم بنانے میں استاد العلماء حضرت مولانا غلام رسولؒ (انھے شریف والے بابا جی) اور مولانا ولی اللہ ؒنے بنیادی کردار ادا کیا،یہ مدرسہ آج بھی سراج الہدیٰ کے نام سے موجود ہے جہاں دینی و دنیوی علوم کی ترسیل جاری ہے۔میں اگرچہ ایک دہائی قبل اس گائوں سے لاہور منتقل ہو گیا تھا مگر اس روشن اور بابرکت سر زمین سے کبھی نکل نہیں پایا۔روحانی طور پر آج بھی اپنی جڑوں سے ناطہ برقرار ہے،یہی وجہ ہے کہ سال میں دو مرتبہ عیدین کے اجتماع میں اس سر زمین ِعلم پر حاضر ہوتا ہوں،اپنے پیاروں سے ملتا ہوں،اس علمی روایت سے اپنی جڑت کو مضبوط بناتا ہوں اور واپس چلا آتا ہوں۔عیدین سے یاد آیا،یہاں ایک ہی مرکزی عید گاہ ہے،تیس ہزار کی آبادی والے اس قصبے میں اگرچہ بیس سے زائد مساجد ہیں جو ایک ہی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں مگر عیدین کے لیے یہ اہلیانِ علاقہ کا اجتماعی فیصلہ ہے کہ ہم مرکزی عید گاہ میں ہی جمع ہوں گے،آپ انداز کریں کیسا منظر ہوتا ہے جب ہزاروں کی تعداد میں لوگ ایک ہی مرکز کی جانب گامزن ہوتے ہیں،عید کی تکبریں پڑھتے ہیں اور اللہ کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ایک طویل عرصہ تک عیدین کا خطبہ استاد العلماء حضرت مولانا قاری محمد اشرف دیتے تھے،ان کے وصال کے بعد یہ ذمہ داری مولانا حافظ عنایت اللہ صاحب نے ادا کی۔یہ امر باعث اطمینان ہے کہ وہاں کسی کو بھی اس بات سے اختلاف نہیں ہوتا ہے کہ عید کا خطبہ ہمارے محلے کے خطیب سے کیوں نہیں دلوایا گیا،تمام مساجد کی کمیٹیاں مرکزی عید گاہ کمیٹی کے فیصلے کو من و عن تسلیم کرتی ہیں۔

سال میں دو مرتبہ جب مرکزی عید گاہ کا رخ کرتا ہوں تو ایک طرح سے شہر بھر کے دوستوں،بزرگوں اور اہلِ علم سے ملاقات ہو جاتی ہے،وہ لوگ بھی درشن کروا دیتے ہیں،جن سے ملنا عام دنوں میں ممکن نہیں ہوتا۔یہ ایک بنیادی وجہ ہے کہ میں عیدین پر کہیں بھی ہوں،اپنے گائوں پہنچ جاتا ہوں۔والدہ کی قدم بوسی،اپنے عزیزوں سے ملاقاتیں،دوستوں سے گپ شپ کی محافل اور علمی و ادبی شخصیات سے ملاقات کا سلسلہ تین دن تک جاری رہتا ہے۔عید کے موقع پر شہر ِ خموشاں کا بھی رخ کرتا ہوں جہاں منوں مٹی کے نیچے موجود نگینوں سے یادیں تازہ کرتا ہوں’’خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں‘‘۔مرزا غالب نے کہا خوب کہا تھا:

سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگار طاقِ نسیاں ہو گئیں

ہر سال جب عید الفطر پر گائوں جاتا ہوں تو کئی لوگ کم ہو چکے ہوتے ہیں،وہ لوگ جو گزشتہ عید پر گلے ملتے ہیں،اگلی عید پر نہیں ہوتے،یہ لمحہ بھی کتنا تکلیف دہ ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے رفتہ رفتہ وہ چراغ بجھ رہے ہوں،جن سے ایک دنیا نے روشنی پائی ہو،یہاں بھی ایسی ہی صورت ہے کہ ہم خود کو فسانہ ہوتے دیکھ رہے ہوتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے۔

ہر سال عید کے دن والد مرحوم علی الصبح ہی جاگ جایا کرتے،وہ حسب ِ معمول جلدی ہی جاگا کرتے تھے کیوں کہ تہجد ان کا معمول تھا،عید کے دن تو ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔رمضان کے روزوں کے بعد جیسے صلہ ملنے کی خوشی ہوتی ہے۔وہ ایک صاحب ِ علم اور صاحب ِ حلم انسان تھے،بارعب اور گرجدار آواز رکھنے والے،دوستوں اور عزیزوں کی محافل میں ایک جداگانہ شناخت رکھتے تھے،پنچایت میں سر پنچ کا کردار ادا کرتے،لوگوں سے رہ و رسم بنانے اور نبھانے میں بھی ماہر تھے،ایک زمانہ ان کا معترف تھا،اس وجہ سے بھی کہ وہ انتہائی سخت گیر تھے،اصولوں کے اور زبان کے پکے،کھرے اور شفاف۔عید کے دن وہ سب کو نہ صرف جگاتے بلکہ تلقین کیا کرتے کہ مرد حضرات جلدی عید گاہ پہنچیں،خواتین گھروں میں عبادت کریں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ پورا رمضان نصیب ہوا۔ہر عید پرشہر ِ خموشاں میں ان سے ملاقات کو بھی جاتا ہوں،ان کے بعد عیدیں واقعی سنسان ہیں،وہ دن اور وقت کبھی واپس نہیں آئے گا۔عیدیں اور شبراتیں تو آتی رہیں گی،وہ نہیں آئیں گے جنھیں ہم خود شہر ِ خموشاں چھوڑ کر آئے ہوتے ہیں۔

julia rana solicitors

عید الفطر پر صدقہ و فطرانہ کا خاص اہتمام ہوتا ہے،عید کی نماز سے پہلے یا کم از کم ماہِ رمضان میں یہ فریضہ سر انجام دینا ہوتا ہے ،یہی موقع ہوتا ہے ایسے لوگوں کو یاد کرنے کا جو معاملات زندگی بہتر نہیں چلا سکتے،وہ لوگ جو زندگی میں متوسط حالات سے گزر رہے ہیں،ان کا ساتھ دیں،انھیں اپنی خوشیوں میں شامل کریں،انھیں بھی انسان سمجھیں ۔ہمارے ارد گرد کتنے ہی ایسے خاندان ہوں گے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں،ہم رمضان میں ان کے لیے راشن کا انتظام کرتے ہیں جو یقینا احسن قدم ہے مگر اس کا کوئی مستقل حل نکالنا ہوگا،ہم جنھیں صرف رمضان میں یاد کرتے ہیں،انھیں سال کے باقی دنوں میں بھی یاد رکھنا ہوگا تاکہ وہ اپنے معاملات زندگی کو انتہائی خوش اسلوبی سے چلا سکیں،ایک ماہ میں تو سب یاد کرتے ہیں،آپ اس مرحلے کو آگے بڑھائیں تاکہ ہم سب ایک ایسے معاشرے کی تشکیل کر سکیں جس سے امن اور بھائی چارے کی خوشبو آتی ہو،یہ خوشبو ایک ایسا عطر ہے جس سے ہمارا وجود جگمگاتا رہے گا۔

Facebook Comments

آغر ندیم سحر
تعارف آغر ندیم سحر کا تعلق منڈی بہاءالدین سے ہے۔گزشتہ پندرہ سال سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔آپ مختلف قومی اخبارات و جرائد میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔گزشتہ تین سال سے روزنامہ نئی بات کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔گورنمنٹ کینٹ کالج فار بوائز،لاہور کینٹ میں بطور استاد شعبہ اردو اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل بھی کئی اہم ترین تعلیمی اداروں میں بطور استاد اہنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔معروف علمی دانش گاہ اورینٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم اے جبکہ گورنمنٹ کالج و یونیورسٹی لاہور سے اردو ادبیات میں ایم فل ادبیات کی ڈگری حاصل کی۔۔2012 میں آپ کا پہلا شعری مجموعہ لوح_ادراک شائع ہوا جبکہ 2013 میں ایک کہانیوں کا انتخاب چھپا۔2017 میں آپ کی مزاحمتی شاعری پر آسیہ جبیں نامی طالبہ نے یونیورسٹی آف لاہور نے ایم فل اردو کا تحقیقی مقالہ لکھا۔۔پندرہ قومی و بین الاقوامی اردو کانفرنسوں میں بطور مندوب شرکت کی اور اپنے تحقیق مقالہ جات پیش کیے۔ملک بھر کی ادبی تنظیموں کی طرف سے پچاس سے زائد علمی و ادبی ایوارڈز حاصل کیے۔2017 میں آپ کو"برین آف منڈی بہاؤالدین"کا ایوارڈ بھی دیا گیا جبکہ اس سے قبل 2012 میں آپ کو مضمون نگاری میں وزارتی ایوارڈ بھی دیا جا چکا ہے۔۔۔آپ مکالمہ کے ساتھ بطور کالم نگار وابستہ ہو گئے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply