پہلے ایک شعر ملاحظہ کرلیں؎
کون ہوں میں کہاں ہوں میں کس کے لیے بنا ہوں میں
رازِ حیات ہے نہاں بس اسی ایک سوال میں
یہ شعر پڑھ کر یا سن کر بے اختیار دل چاہتا ہے کہ شاعر کا نام جانا جائے ۔ یہ بے اختیاری اس لیے ، کہ فلسفۂ زندگی یا زندگی کے فسانے کی روداد اور اس سے وابستہ سوالوں کو دو مصرعوں میں اتنے سہل انداز میں بیان کرنے والا شاعر ، یہ حق رکھتا ہے ، کہ اس کا نام بھی جانا جائے اور اس کی شعری کائنات کے موضوعات پر نظر بھی ڈالی جائے ۔ اور کیف و سرور کی اس کیفیت کو بھی محسوس کیا جائے جس کا تعلق اچھی شاعری یا اچھی نثر سے ہے ۔ مذکورہ شعر عبداللہ ندیمؔ کا ہے ، جو ایک شاعر کی حیثیت سے معروف اور مشہور تو ہیں ، لیکن انہیں جس طرح سے جانا جانا چاہیے ، ویسے نہیں جانا جاتا ۔ انہیں جاننے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ان کے شعری کائنات کا طواف کیا جائے اور ان بے شمار کیفیات اور محسوسات کا ، جو اس میں پائی جاتی ہیں ، ادراک کیا جائے ۔ عبداللہ ندیم ؔکا مجموعۂ کلام ’ بوئے دوست ‘ ، جو غزلوں پر مشتمل ہے ، کچھ مہینے پہلے ہی منظر عام پر آیا ہے ۔ غزلوں کا یہ ان کا پہلا مجموعہ ہے ، لیکن شعر و شاعری کا شوق انہیں بچپن ہی سے رہا ہے ، جسے ان کے ماموں اختر حسین عرفی آفاقی نے مہمیز کیا ، جو خود ایک بہترین شاعر تھے ( اس مجموعے کا انتساب انہی کے نام ہے ) ۔ مزید یہ کہ معروف عالمِ دین مولانا عبدالسلام ندوی کے خاندان سے ہیں ، اس لحاظ سے شعر و ادب ان کا خاندانی ورثہ ہے ۔ عبداللہ ندیم ؔکی شخصیت میں ایک ساتھ کئی طرح کے انسان سمائے ہوئے ہیں ؛ وہ جامعۃ الفلاح سے فارغ عالم و فاضل ہیں ، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویٹ ہیں ، یعنی دین اور دنیا دونوں ہی سے ان کے دامن بھرے ہوئے ہیں ۔ صحافی رہے ہیں اور کیمرے کی آنکھ سے دیکھنے کے فن سے خوب واقف ہیں ۔ اور ڈاکیومینٹری فلمیں بھی بناتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ پردے پر تصویریں اتارتے ہیں ( اور کاغذ پر بھی اپنے قلم سے شعر کی صورت میں ) ۔ اتنے متنوع مزاج کا شخص جب شاعر ہوگا تو اس کی شاعری بھی اتنی ہی متنوع طرز کی ہوگی ۔ اور متنوع ہے بھی ۔ لیکن طرح طرح کے رنگوں کے باوجود یہ شاعری ایک ایسی وحدت میں ڈھلی ہوئی نظر آتی ہے ، جس کا بنیادی موتیف ’ عقل ‘ نہیں ’ محبت ‘ ہے ’ عشق ‘ ہے؎
سر نیاز درِ عقل پر جھکا دیتے
ندیم پاس نہ ہوتا جو آستانۂ عشق
لاکھ سکھلاتی رہی عقل جہاں کے انداز
سر میں سودائے جنوں ہم نے برابر رکھا
معروف شاعر ارشد عبدالحمید اس مجموعہ کے پہلے فلیپ میں ، لکھتے ہیں : ’’ غزل مشرقی صنف شاعری ہے اور عبداللہ ندیمؔ مشرق مزاج شاعر ہیں لہذا غزل سے ان کا میلان فطری ہے ۔ اسی میلان کے تحت ان کی غزل کا مرکز و محور حسن و عشق اور اس کے متعلقات ہیں ۔‘‘ وہ مزید لکھتے ہیں : ’’ فکری سطح پر ان کی غزل کا مرکزی کردار ایک نوع کے آفاقی حزن سے نبرد آزما ہے تو دوسری طرف اس میں ایک ایسی پختگی بھی نظر آتی ہے جو استقامت کو راہ دیتی ہے ۔‘‘ یقیناً حسن و عشق اور اس کے متعلقات سے سامنا کرنے والا ، حزن سے نبرد آزما بھی ہوگا اور یہ نبرد آزمائی اسے استقامت بھی عطا کرے گی ۔ اور حوصلہ بھی ؎
کیا ستم ہے کہ جسے دیکھ کر ہم جیتے تھے
اس سے اب قطع تعلق کی ہے ٹھانی ہم نے
دیکھنا وہ بھی کھنچے آئیں گے اک روز ندیمؔ
عشق مجبور ہے پر اتنا بھی مجبور نہیں
وہ سمجھتا ہے کہ برباد کیا ہے اس نے
ہم کہ آباد ہوئے جاتے ہیں ویرانی میں
عبداللہ ندیمؔ کی غزلوں اور ان کے منتخب اشعار کے مطالعہ کے بعد ، معروف شاعر اور مبصر سہرام سرمدی کی اس بات پر – جو انہوں نے اس مجموعہ کے دوسرے فلیپ میں لکھی ہے – یقین نہ کرنا ممکن نہیں ہے : ’’ عبداللہ ندیمؔ نے اردو شعری فضا کی جس طرح باز سازی کی ہے وہ دلچسپ ہے اور قابلِ ذکر بھی ۔‘‘ سہرام سرمدی کا ماننا ہے ، کہ عبداللہ ندیمؔ ہر طرح سے سخن کی لاج بچانے میں کامیاب ہیں ۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ، جن کے مطالعہ سے صاحب مجموعہ کے شعری رویّے کا بھی اندازہ ہو جائے گا اور اس کا بھی ، کہ وہ خوب آزمائے یا پامال مضامین کو ایک نیا رنگ ، ایک نیا طرز دینے میں کس قدر کامیاب ہیں ؎
اک روز بڑھ کے آپ ہی پردہ اٹھا دیا
اک آن میں سلجھ گیا جھگڑا حجاب کا
پھر یوں ہوا کہ اک دن ، یہ جون ہی بدل دی
اکتا گیے تھے رہ کر ہم ایک ہی بدن میں
ڈھونڈ لائی ہے ہوا ریت پر پیروں کے نشاں
یعنی دیوانہ کوئی اور یہاں تھا پہلے
نہ کوئی قیس ، نہ محمل ، نہ غزالوں کا ہجوم
آنکھ بھر آئی مری دشت کی ویرانی پر
یہ آنکھوں کا علاقہ ہے ، یہاں بچ کر قدم رکھیے
کہ دل جیسے شناور کو بھی یہ غرقاب کرتا ہے
کشتے اٹھائے پھریے گا گلیوں سے آپ پھر
اتنا نہ اپنے آپ کو تلوار کیجیے
عمیر منظر کا ’ عبداللہ ندیمؔ : ایک توانا تخلیقی آواز ‘ کے عنوان سے اس مجموعہ میں ایک تفصیلی مضمون ، شاعر اور مجموعہ کے تعارف میں ، شامل ہے ، وہ لکھتے ہیں : ’’ عبداللہ ندیمؔ کی غزلیں پرکشش اسلوب کی حامل کہی جا سکتی ہیں ۔ اس کشش کا اصل حسن وہ سادگی ہے جسے انہوں نے تحت بیانی کے ہنر سے آراستہ کر رکھا ہے ۔ لفظوں کے استعمال میں ان کے یہاں خاصا محتاط رویہ پایا جاتا ہے ۔ بھاری بھرکم الفاظ سے گریز شعوری نہ سہی مگر ہے ۔‘‘ بات سچ ہے ، مثلاً ان اشعار کو دیکھیں ؎
بس گیا ہے مرے احساس میں صحرا کوئی
کس لیے وجد میں آنے کو ہے دریا کوئی
یہ ترا فیض کہ پھرتا ہے گلی کوچوں میں
ہجر کا بوجھ اٹھائے ہوئے تنہا کوئی
بن کے آنکھوں سے لہو ٹپکے ، رگوں میں دوڑے
غم اسی جسم میں رہتا ہے جدھر بھی جائے
آنکھ کی راہ کیوں بہاؤں سب
کچھ تو سینے میں بھی غبار رہے
عبداللہ ندیمؔ ’ اقبالیہ بیان ‘ میں اس مجموعہ کی غزلوں کو کووڈ کے دور کی آمد بتاتے ہیں ، ممکن ہے ، مگر اس مجموعہ کی غزلیں ایسا کوئی اشارہ نہیں کرتیں ، اور یقیناً شاعر کا کمال ہے کہ وبا کو اپنے سخن پر حاوی نہیں ہونے دیا ، بلکہ وبا پر خود حاوی ہو گیے ۔ اس کا نتیجہ اچھی شاعری کی صورت میں نکلا ہے ۔ وہ لکھتے : ’’ شاعری کیا ہے ؟ اپنی آگ میں جلنے اور نکھرنے کا نام ہے ۔‘‘ وہ وضاحت کرتے ہیں : ’’ کائنات میں موجود استعاروں کو اپنی ذات کے توسط سے دریافت کرنے کا نام شاعری ہے ۔‘‘ ان کے کلام میں ذات کے توسط سے کائناتی استعارے دشت ، صحرا ، خاک ، پانی ، سیل وغیرہ اور وجودی استعارے بدن ، آنکھ ، دل ، گھر ، دیوار وغیرہ بار بار مختلف رنگ روپ میں آتے ہیں ، اور پڑھنے والوں پر ایک گہرا تاثر چھوڑ جاتے ہیں ۔ تمام تر حزن اور شکشت و ریخت کے باوجود ’ بوئے دوست ‘ شاعر کو ہرا رکھتی ہے ۔ مجموعے میں کتاب کے عنوان سے مطابقت رکھنے والے دو شعر ہیں ؎
غم سے آنکھیں سفید ہوتی ہیں
خوشبوئے یار رہ گئی ہے کہاں
خوشبوئے یار نے پکارا ہے
سر کے بل آگئے ہیں چلتے ہوئے
یقیناً یہ شاعری آمد ہے ، جیسا کہ خود عبداللہ ندیمؔ کا ماننا ہے ، کہ دور سے آنے والی نامعلوم صداؤں کو الفاظ کا جامہ پہنا دیا ہے ؎
ہم ایک عالم ہو میں تھے خیمہ زن لیکن
کوئی صدا سی کہیں دور سے ابھرتی رہی
آخر میں چار اشعار ملاحظہ فرمائیں ، ان میں ایک ایک شعر حمد اور نعت کا ہے ( افسوس کہ مجموعہ میں بس یہ دو ہی شعر حمد اور نعت کے ہیں ) اور ایک شعر ایک غزل کا؎
میں نے ہر لفظ میں زباں رکھی
تیری عظمت مگر بیاں نہ ہوئی
کیوں نہ خوشبو مرا طواف کرے
اسمِ احمدﷺ کا ورد کرتا ہوں
اور یہ دو شعر ؎
دل سے اٹھتے دھوئیں کا ماتم کیا
ہم نے دیکھے ہیں شہر جلتے ہوئے
ویرانے کو گھر کہتے جی اس لئے ڈرتا ہے
ویرانہ تو بس جائے اور ہاتھ سے گھر جائے
دل اور ذہن کو گرفت میں لینے والی ، کیفیات اور محسوسات کی پُرتاثر شاعری کے لیے عبداللہ ندیمؔ کو بہت بہت مبارک ہو ۔ کتاب معنوی طور پر تو خوبصورت ہے ہی ’ بازگشت بکس ، نئی دہلی ‘ نے کتاب کو صوری طور پر بھی جاذب بنا دیا ہے ۔ سرورق پر شاعر کا اسکیچ خوب ہے ۔ کتاب 160 صفحات کی ہے، قیمت 250 روپیے ہے ۔ حاصل کرنے کے لیے موبائل نمبر 7738451200 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں