عید، آزادی اور سچ بولنے کی خطرناک جسارت ایک طنزیہ خاکہ/محمد عامر حسینی

عید کی نماز ختم ہوئی۔ لوگ خوشبو میں بسے، تازہ استری شدہ کپڑوں میں ملبوس، روحانی مسرت کے ساتھ صفوں میں بیٹھے۔ مولانا منبر پر چڑھے اور خطبہ دیا۔ روایتی ترتیب کے مطابق خطبہ رفتہ رفتہ دعاؤں کی جانب مڑ گیا۔

“یا اللہ! فلسطین کے مسلمانوں کو آزادی عطا فرما!”
“یا اللہ! کشمیریوں کو ظلم سے نجات دے!”
“ہندوستان کے مظلوم مسلمانوں پر رحم فرما!”

دعا کی آواز بلند ہوتی گئی، لب و لہجے میں لرزش، آنکھوں میں آنسو، آواز میں ہمدردی کی مجسم تصویر۔ تین بار، نہیں، چار بار یہی دعائیں دہرائی گئیں۔
پوری صفیں آہوں اور آمین کی بازگشت سے گونج اٹھیں۔
سروں کو جھکایا گیا، آنکھیں بند کی گئیں، ہاتھ بلند ہوئے — خدا کی طرف یا عادت کی سمت، یہ اندازہ لگانا مشکل تھا۔

میں پہلی صف میں بیٹھا تھا۔ دل میں ایک خلش تھی۔
سو میں نے ذرا بلند آواز سے دعا میں اپنا حصہ ڈالنے کی جسارت کی:

“یا اللہ! بلوچستان سمیت پاکستان بھر سے جبری طور پر لاپتا افراد کو بازیاب کرا!
ظالموں کی کمر توڑ دے!
اور ہمیں ظاہری آزادی نہیں، حقیقی آزادی عطا فرما!”

ایک لمحے کو فضا منجمد ہو گئی۔

مگر یہ وہ خاموشی نہ تھی جو دل کو جھنجھوڑ دیتی ہے،
بلکہ وہ تھی جو مسجد کے اندر کسی اجنبی یا ناپسندیدہ سچ کے داخل ہو جانے پر طاری ہوتی ہے۔

مولانا کی زبان لڑکھڑائی، چہرے پر ایک خفیف سی حیرت جھلکی۔ گویا وہ دعا کے متن میں سے اس جملے کا مقام ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہوں — مگر ایسا کچھ نہ ملا۔ چنانچہ فوراً اپنے محفوظ اسکرپٹ کی طرف لوٹے:

“اور یا اللہ! ہماری افواج، ہمارے محافظ، ان کی حفاظت فرما۔ آمین!”

پیچھے کی صفوں میں بیٹھے، صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس کچھ حضرات نے مجھے یوں گھورا جیسے میں نے قبلہ کی سمت بدل دی ہو۔

میرے برابر بیٹھے بھائی کی ہنسی چھوٹ گئی۔ کہنی مارتے ہوئے بولا:
“کیا مرواؤ گے بھائی جان؟ آپ تو پھر بھی زیرِ زمین ہو جاؤ گے، ہمیں تو ‘نامعلوم’ والے اٹھا لیں گے! احمد نورانی کے بھائیوں کے ساتھ کیا ہوا، بھول گئے کیا؟”

آہ… نامعلوم — ہمارا قومی ضمیر، جو ہر اُس آواز پر لپکتا ہے جو ریاستی بیانیے کے پردے کو چیرتی ہو۔

لیکن خیر، میں نے عید کو یادگار بنا دیا۔
اور آخر عید ہے کیا؟
سوائے اس کے کہ مظلوم خاموش رہیں، اور ظالموں کے لیے دعائیں مانگی جائیں۔

شاید اگلی عید گھر میں ہی پڑھوں — اور صرف دل میں دعا مانگوں۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply