ایک پاکستان میں۔ یہاں کی اشرافیہ نے وسائل پر قبضہ کر رکھا جس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے 800 امیر ترین خاندان جو ایکسپورٹ کے کاروبار میں ہیں ، حکومت کو بلیک میل کرکے سالانہ ایک ارب ڈالر کی سبسڈی ہتھیا لیتے ہیں ،یہ سبسڈی انہیں بجلی اور گیس کے رعایتی نرخوں کی صورت میں دی جاتی ہے ۔دوسری مثال عالیشان کلبوں کی ہے جن سے ہماری اشرافیہ کے شاہانہ طرز زندگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ اسلام آباد کلب 353 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے اور یہ قیمتی زمین حکومت نے صرف27ہزارروپے سالانہ کرائے پر دے کر رکھی ہے جبکہ لاہور جمخانہ کے پاس 128 ایکڑ زمین ہے جو شہر کے قلب میں واقع ہے اور اس کا سالانہ کرایہ فقط 5 ہزار روپے ہے ،باقی شہروں کے سول اور فوجی کلب اِس کے علاوہ ہیں جو شاید کھربوں روپیوں کی حکومتی سبسڈی پر پل رہے ہیں -جہاں کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے رہ رہے ہوں وہاں ریاست کا اشرافیہ پر کھربوں روپے خرچ کرنا ایک مجرمانہ فعل ہے اگر ان زمینوں کو فروخت کر دیا جائے تو کھربوں روپے حاصل ہو سکتے ہیں جن سے ہسپتال اور اعلیٰ تعلیمی یونیورسٹیوں بن سکتی ہے جو صرف اورصرف سائنس اور جدید ترین ٹیکنالوجی پر تعلیم دیں-وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے قلب میں 352؍ ایکڑ پر مشتمل زمین کا ایک بہت بڑا حصہ ہے جسے 1967 میں 57؍ سال قبل لیز دی گئی تھی۔ اس زمین پر اسلام آباد کلب قائم ہے جہاں عام شہریوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ سماجی سرگرمیوں کے ساتھ یہ کلب تجارتی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہے۔اتنا بڑا کلب قومی خزانے کو کتنا کرایہ دیتا ہے؟ ماہانہ تین روپے فی ایکڑ۔ سرکاری وسائل کا یہ مفت استعمال کلب کے گزشتہ پانچ سال کے دوران مالی آڈٹ کی صورتحال، کلب کی پراپرٹیز اور ان سے حاصل ہونے والی آمدنی، رجسٹرڈ ارکان کی تعداد اور کھیلے جانے والے کھیلوں کے نام کیا ہیں تو اس شاندار کلب کا کہنا تھا کہ وہ عوام کو جوابدہ نہیں ہے۔ سی ڈی اے نے کلب کو زمین کی لیز دی تھی اور لیز کی رقم سالانہ بنیادوں پر وصول کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ اسلام آباد کلب کی سالانہ لیز کی رقم 14؍ ہزار 700؍ روپے جبکہ پولو گرائونڈ کی لیز کی رقم سالانہ 12؍ ہزار 300؍ روپے ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کلب اور پولو گرائونڈ دو علیحدہ زمینیں ہیں۔
کلب کی ویب سائٹ کے مطابق اس کی زمین 352؍ ایکڑ پر مشتمل ہے جس کا مطلب ہوا کہ کلب والے زمین کا ماہانہ 3؍ روپے کرایہ دیتے ہیں۔ پولو گرائونڈ کتنی زمین پر محیط ہے؛ یہ نہیں بتایا گیا۔ 1967 میں سی ڈی اے نے کلب انتظامیہ کو 244؍ ایکڑ زمین لیز پر دی تھی اور اس وقت رعایتی نرخوں یعنی ایک روپیہ فی ایکڑ پر یہ لیز 10؍ سال کیلئے دی گئی تھی۔ معاہدے کے تحت دس سال بعد کرایے پر نظرثانی ہونا تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس کی بجائے مزید 108؍ ایکڑ دے کر کلب کو وسیع عریض بنا کر اسے 352؍ ایکڑ تک پھیلا دیا گیا- صوبائی دارالحکومت میں سرکاری رقبہ پر تعمیر کردہ ایک پرائیویٹ کلب، لاہور جم خانہ، کرایہ کے طور پر 417 روپے ماہانہ ادا کر رہا ہے۔
لاہور میں اپر مال پرانتہائی قیمتی سرکاری اراضی پر قائم لاہور جم خانہ کلب ریاست کو صرف 417 روپے ماہانہ بطور لیز ادا کرتا ہے۔
پنجاب حکومت کی جانب سے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر لاہور اور لاہور جم خانہ کلب کے سیکرٹری کے درمیان 1996 میں لیز کے معاہدے پر دستخط ہوئے، جس کے تحت 1,000 کنال سے زائد سرکاری اراضی 50 سال کے لیے 5,000 روپے سالانہ کرایہ پر لیز پر دی گئی، جو کہ 417 روپے ماہانہ بنتا ہے۔
معاہدے میں لکھا گیا ہے کہ ”کرایہ پر لینے والا (Leasee ) 5,000 روپے سالانہ کے ٹوکن ریٹ پر کرایہ ادا کرے گا،“ معاہدے میں یہ بھی کہا ہے کہ کرایہ دار زمین کے لیے تمام قابل اطلاق ٹیکس ادا کرنے کا ذمہ دار ہے۔
معاہدے میں مزید کہا گیا ہے کہ ”کرایہ دار مذکورہ زمین پر جم خانہ کلب قائم کرے گا تاکہ پبلک سیکٹر میں سہولیات فراہم کی جاسکیں۔“
لیز 2000 سے لاگو ہے اور 2050 تک رہے گی۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے 26 اگست 2020 کو کلب کو سال 2011 کے بعد کرایہ کی عدم ادائیگی کے حوالے سے ایک نوٹس سے ہوئی، جس میں 1,133 کنال، ایک مرلہ اور 80 مربع فٹ رقبہ کو 2050 تک 5,000روپے سالانہ کرایہ پر لیز کی شرائط کا اعادہ کیا گیا تھا۔
یہ سوال اٹھایا
5 مئی 2024کو حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رکن صوبائی اسمبلی (MPA) نے پنجاب اسمبلیاں
اب اتے ہیں حقائق کی دنیا میں
ایک ہزار کنال کا مطلب ہے 20 ہزار مرلے اگر ایک کروڑ روپے کم از کم 1 مرکے کا لگایا جائے تو اس جگہ کی کل قیمت دو کھرب روپیہ بنتی ہے-2 کھرب کی زمین کا کرایہ صرف 417 روپے مہینہ
جم خانہ لاہور کی ممبرشپ کی سرکاری فیس اس وقت 28 لاکھ روپے ہے-یہ ایک ہزار کنال کی قیمت اس وقت مارکیٹ کے مطابق تقریبا دو کھرب روپیہ بنتی ہے جس سے کئی یونیورسٹیز کئی ہسپتال بنائے جا سکتے ہیں لی امرا مراعات یافتہ طبقے کو عیاشیاں مختصر کار کی طرف سے دکھایا کی جاتی ہیں جس نے اس طرح کے کلب بنانے ہیں اپنی زمین خرید کر جو مرضی کرے ریاست کی زمین عوام کی ملکیت ہوتی ہے یہ ممکن نہیں ہے عوام بے چینی کمپسیری کی حالت میں ہو ان کی راتوں کی نیند مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے غائب ہو جائے دوسری طرف مراعات یافتہ طبقے زیادہ سے زیادہ کی طرف سے اولیات کو متفندوز ہو اور اس کے مفت سہولیات ملیں کوئی ملک ظلم کی بنیاد پر تو قائم رہ سکتا لیکن نا انصافی کی بنیاد پر کوئی ملک قائم نہیں رہ سکتا یہ زمین فروخت کر کے عوام کے کئی مسائل حل ہو سکتے ہیں ایک چیز اور اعداد و شمار کے حوالے سے دیکھنی ہے سول افراد کے لیے ممبرشپ کی فیس تقریبا 28 لاکھ سرکاری افسران کے لیے 2 لاکھ 52 ہزار روپیہ ہے اور کارپورٹ کے لیے 25 لاکھد ہزار روپیہ ہے ان کے بچوں کے لیے ریگولر ممبرشپ بھی 17 لاکھ سات ہزار روپیہ ہے فارن افراد کی بیرون ملک رہنے والے افراد کے لیے 650 ڈالر اس کی فیس ہے اور اس کے علاوہ یہاں پر کئی فنکشن کا انعقاد کیا جاتا ہے جن میں سے فن فیر جیسے فنکشن جس میں سے مہمان سے 400 روپیہ انٹری فیس لی جاتی ہے اور سٹال کے لیے کم از کم فیس 10 ہزار سے لے کر 30 ہزار تک فیس ہوتی ہے-اس طرح کے کلب نہ صرف لاہور میں بلکہ فیصل اباد میں جناب کلب جس کی ممبرشپ کی فیس 80 لاکھ روپیہ ہے اس طرح اسلام اباد کلب اس طرح کراچی میں اور مختلف شہروں میں موجود ہیں جن کو اگر ہم بیچ دیں تو کم یا فروخت کر دیں تو کم از کم کھربوں روپے میں ہم ان کی قیمت وصول کر سکتے ہیں اس کے علاوہ اس کا یہ حل بھی ہے کہ کسی کو ڈویلپر کو وہ جگہ دے دی جائے اس سے ماہانہ کرایہ اربوں روپے میں وصول کیا جا سکتا ہے-مارکیٹ کی شرح کے حساب سے اگر ہم کرایہ لگائیں تو مارکیٹ میں پوائنٹ تھری پرسنٹ 0.3% فیصد سے لے کر0.5% فیصد تک اس کی کل مالیت کا کرای ماہانہ ہوتا ہے اگر اس حساب سے اس کی قیمت کےصرف سے لاہور جم خانہ کی مالیت کے ساتھ سے کرایہ لگائیں اور یا اس کو ڈویلپر کو دیکھ کے اس کو تعمیرات کرنے کی اجازت دے کر اس سے ماہانہ کرایا کم از کم 66 کروڑ روپیہ ماہانہ کرایہ بنتا ہے اور سال کا سات ارب 92 کروڑ روپیہ صرف لاہور جم خانہ کا اور باقی شہروں کا اس کے علاوہ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں ہم صرف کرائے کی مد میں ہم کئی یونیورسٹی اور ہسپتال بنا کر عوام کو ان کے لیے مفت سہولیات دے سکتے ہیں۔

بشکریہ فیس بک وال
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں