زندگی کی شاہراہ پر چلتے ہوئے اکثر لوگ ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں۔ بھیڑ کے ساتھ چلنا آسان ہوتا ہے، کیونکہ وہاں فیصلے خود نہیں کرنے پڑتے، سوالات کی زحمت نہیں ہوتی، اور ضمیر کی خلش سے آزادی ملتی ہے۔ لیکن کیا کبھی سوچا ہے کہ اکثریت کی سمت ہی ہمیشہ درست کیوں سمجھی جاتی ہے؟ کیا صرف زیادہ لوگوں کے ماننے سے کوئی چیز حقیقت بن جاتی ہے؟
اگر ہم تاریخ کے صفحات الٹ کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ بڑے انقلابات، بڑی فتوحات، اور بڑی تبدیلیاں ہمیشہ ایک محدود گروہ یا تنہا افراد نے برپا کیں۔ وہ جو ہجوم سے الگ سوچنے کی ہمت رکھتے تھے، وہ جو بھیڑ چال کا حصہ بننے سے انکار کرتے تھے، وہ جو عقل کے چراغ کو اندھی تقلید کی آندھی میں بجھنے نہیں دیتے تھے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب اسلام دنیا میں اجنبی تھا، تو اس کی حکمرانی نصف دنیا پر تھی؟ کیا یہ محض حادثہ تھا کہ جب امت مسلمہ اپنی فکری، علمی اور عملی بنیادوں پر کھڑی تھی، تو پوری دنیا پر اس کا دبدبہ تھا؟ نہیں! درحقیقت، جب ایک قوم اجنبی ہو، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کچھ ایسا کر رہی ہے جو عام نہیں، جو منفرد ہے، جو قابل تقلید ہے۔
لیکن جب کوئی تحریک، کوئی نظریہ، کوئی عقیدہ اکثریت میں تبدیل ہو جاتا ہے، تو وہ اپنی اصل کو کھو دیتا ہے۔ جیسے ہی اکثریت کسی چیز کو اپناتی ہے، وہ اس کی اصل روح کو مسخ کر دیتی ہے۔ یہ قانونِ فطرت ہے کہ جو چیز زیادہ ہو، وہ عام ہو جاتی ہے، اور جو عام ہو جائے، وہ قیمتی نہیں رہتی۔
دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں، سب سے بڑے جرائم، سب سے بڑی گمراہیاں، سب سے بھیانک مظالم اکثریت کے فیصلوں کے تحت ہوئے۔ سقراط کو زہر دینے کا فیصلہ اکثریت نے کیا تھا۔ گلیلئیو کو مرتد قرار دینے والی اکثریت تھی۔ جنگوں کو جائز قرار دینے والے بھی اکثریت تھے۔ ہر دور میں، ہر معاشرے میں، سچ ہمیشہ اقلیت میں رہا، اور باطل اکثریت میں۔
سچائی ہمیشہ ایک سنسان راستہ رہی ہے جس پر چلنے والے کم ہوتے ہیں۔ جو لوگ بھی اس پر چلتے ہیں، انہیں پہلے اجنبی سمجھا جاتا ہے، پھر پاگل، پھر خطرناک، اور آخرکار، جب تاریخ ان کے حق میں فیصلہ دے چکتی ہے، تو وہی لوگ رہنما بن جاتے ہیں۔
دنیاداری کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ لوگ اس میں شامل ہونے کے لیے اپنی اصل کو بھلا دیتے ہیں۔ وہ جو اس دوڑ میں شامل نہ ہوں، وہ اجنبی کہلاتے ہیں۔ ایک کاروباری دنیا میں اگر کوئی شخص نفع سے زیادہ اخلاقیات کی پرواہ کرے، تو وہ ناسمجھ قرار پاتا ہے۔ ایک سیاست میں اگر کوئی سچ بولنے کی ہمت کرے، تو وہ ناکام سیاستدان کہلاتا ہے۔ ایک تعلیمی نظام میں اگر کوئی استاد رٹے کے بجائے سوچنے کی دعوت دے، تو وہ قابلِ اعتراض بن جاتا ہے۔
جو لوگ بھیڑ چال کے خلاف جاتے ہیں، انہیں ہمیشہ سرپھرا کہا جاتا ہے۔ لیکن انہی سرپھروں نے دنیا کو بدلا ہے۔ ابنِ رشد، جابر بن حیان، نیوٹن، آئن اسٹائن، اقبال، قائداعظم۔۔۔ یہ سب وہ لوگ تھے جو عام روش سے ہٹ کر سوچتے تھے۔ انہوں نے اکثریت کی پرواہ نہیں کی، بلکہ وہ کیا جو صحیح تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہتے ہیں، وہ ابتدا میں تنہا ہوتے ہیں، لیکن وقت کے ساتھ ان کے نظریات ہی معیار بن جاتے ہیں۔ کیونکہ وقت ہمیشہ سچ کا ساتھ دیتا ہے، اور سچ ہمیشہ اقلیت میں ہوتا ہے۔
یہ سوال کہ “کیا اکثریت کی سمت درست ہو سکتی ہے؟” درحقیقت اس بات پر منحصر ہے کہ اکثریت کیا کر رہی ہے۔ اگر اکثریت اندھی تقلید میں ہے، اگر اکثریت مفاد پرستی کا شکار ہے، اگر اکثریت سچ سے دور بھاگ رہی ہے، تو یقیناً وہ راستہ غلط ہے۔
لیکن اگر کوئی ایسی اکثریت ہو جو سچائی، تحقیق، اخلاقیات اور اصولوں پر چل رہی ہو، تو وہ ایک مختلف بات ہوگی۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی اکثریت تاریخ میں کبھی نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سچائی کے متلاشی ہمیشہ اقلیت میں رہے، ہمیشہ اجنبی سمجھے گئے، اور ہمیشہ حق و باطل کی جنگ میں اپنا منفرد کردار ادا کیا۔
آخر میں فیصلہ آپ کا ہے: بھیڑ چال کا حصہ بننا ہے یا سچائی کے راستے کا مسافر بننا ہے؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں