یہ دریا اب میرا ہوا/شاہد عزیز انجم

مئی سن پچاس میں کسی دن ریل میں بیٹھے کے اور ٹھنڈی ریت پہ چل کے باڑ میر سے میں کھوکھر و پار، پھر حیدر آباد کے محلے ہیر آباد آیا تھا۔ یہیں رہنے ، بسنے اور ہو سکے تو یہیں مٹی میں مٹی ہو جانے کو۔
میں اپنا وہ دریا پیچھے چھوڑ آیا تھا جس کے بریجوں پر میرے پرکھے ڈھائی سو برس آسودہ ہوئے تھے۔ میں یہاں آیا اور پہلی بار میں نے ماہ مئی کی آسائش میں لہرتے ، اینڈتے ہوئے اس مٹیالے دیوتا۔۔۔۔ سندھ دریا کو دیکھا۔
میں نے قصباتی حیرت سے ندیوں کے اس سمراٹ کو دیکھا اور سوچا، یہ مجھے کیوں منھ لگانے لگا؟ ایسی تو کوئی امید نظر نہیں آتی کہ دریا مجھے پیتالے گا۔
(دریاؤں کا ایسا ہے کہ کوئی دو سو برس میں وہ آدمی کو دوست بناتے ہیں ، اس سے پہلے نہیں۔ )
میں اپنے پرکھوں کے ڈھائی سو برس نربداندی کے پتنوں میں چھوڑ کے آیا تھا۔
سترہ ساڑھے سترہ سال کا یہ آدمی خالی ہاتھ آیا تھا یہاں۔
میں نے سوچا بہت جیوں گا تو پچاس پچپن برس اور جی لوں گا ۔ دریا تو اب مجھے نہیں ملنے کا۔
پر سچی بات کہوں؟ … دریا کو میں نے اپنے اور اپنے پیاروں کے دکھوں، تکلیفوں میں اور آسائشوں محرومیوں میں اور جشنوں رتجگوں میں تہی دامانیوں میں پالیا۔
دریا کو میں نے اس آشوب میں پالیا کہ جس سے ہماری زمین گزر رہی ہے ۔
جس آشوب میں ہم جی رہے ہیں۔
میں آیا تھا اور پہلی بات میں نے دریا سے یہ کہی تھی کہ “پردیساں پندھ کری ھلی آیو ھوں” اور اس نے میرا جی بہلانے ، ہمت بندھانے کو ایک محفل سجادی تھی گورے چٹے ، کالے، مٹیالے، منموہنے، سانولے چہروں کی۔ ان میں جہازوں سے بوریاں اتارتے آخری شفٹ کے مزدور تھے جو ریت کو فرش مخمل کیے، دیوار کی ٹیک لگائے مجھے اِکتارہ اور چَنگ سناتے تھے۔
وہ گایک ، رقاص اور عالم اور صاحبِ دل درویش تھے۔
ان میں بلاول بیلجیم تھا، بلبل ترنگ والا اور کتاب کا کیڑا عبد الغفور بلوچ بھی ( خدا رکھے ) جو اس وقت گوسوامی تلسی اور مارکس اور پکتھال کو پڑھتا پڑھاتا کھڈا ، نو آباد میں سلامت اپنے دوستوں کی نظمیں فرانسیسی میں ترجمہ کرتا رہتا تھا۔
تو پھر میں نے کہا: ”یہ زمین ، یہ دریا اب میرا ہوا۔“

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply