انیس اشفاق- دُکھیارے سے ہیچ تک/نادیہ عنبر لودھی

انیس اشفاق کا ناول نگاری کا فن ماضی پرستی ،قدامت پسندی اور لکھنؤ تہذیب کی عکاسی کا نمائندہ ہے انیس اشفاق افسانہ نگار شاعر اور نقاد ہیں چار ناولوں کے مصنف ہیں پیشے کے لحاظ سے استاد ہیں شعبہ تعلیم سے وابستہ رہ چکے ہیں انیس اشفاق نے ۲۰۱۴ میں دکھیارے ناول لکھا جسے ادبی حلقوں میں بے حد پذیرائی ملی اس ناول پر اخبار ڈان میں انتظار حسین نے تبصرہ نما مضمون بھی لکھا – یہ ناول سوانحی رنگ لیے ہوئے ہے اس کی اہم کرداروں میں بڑے بھیا ،ماں ، منجھلے بھیا خود مصنف ،سائرہ شمامہ ،نواب آغا ، حکیم وغیرہ شامل ہیں – بڑے بھیا بچپن سے دماغی خلل میں مبتلا ہیں مزاجاً متلون مزاج ہیں – ٹک کر کام نہیں کرسکتے پھر ماں کی وفات کے بعد گھر سے چلے جاتے ہیں اور یہاں وہاں بھٹکتے رہتے ہیں – مصنف نے امام باڑوں اور پرانی حویلیوں کو بھی شاملِ ناول کیا ہے – لکھنو کی مٹتی ہوئی تہذیب اور نوابوں کی جاتی ہوئی جاہ وحشمت جیسے عناصر کو ملا کر ناول کی بُنت تیار کی گئی ہے – بڑے بھائی امام باڑوں کی صحنچیوں میں رہنے لگتے ہیں – بیمار ہوجاتے ہیں اور ایک دن وفات ہوجاتے ہیں یہی پر ناول کا اختتام ہوجاتا ہے – ناول کی فضا اداسی کا گہرا تاثر لیے ہوئے ہے یہ اداسی افراد کے اندر بھی ہے اور مجموعی معاشرتی فضا میں بھی – ناول کے کردار معاشرے میں رہنے والے عام افراد ہیں – جو مختلف مسائل و مصائب کا شکار ہیں – جزیات نگاری میں انیس اشفاق صاحب کو کمال حاصل ہے – انیس اشفاق کا دوسرا ناولخواب سراب ہے “جس میں فلیش بیک کی تیکنیک استعمال کر کے تکنیکی تجربہ کیا گیا ہے ۔اس ناول میں بین المتونیت،فنی مخلوطہ(پیسٹج)خط کی تکنیک ،شعورکی رو،تاریخی بیانیہ (ہسٹوریوگرافک میٹافکشن)،جادوئی حقیقت نگاری،زمانی انتشار (ٹیمپورل ڈسٹورشن وغیرہ کے تجربات کیے گئے ہیں یہ ایک تخلیقی بیانیہ ہے یہ ناول مرزا ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کا سیکوئیل ہے یعنی تسلسل – علی حیدر شمیلہ، سبیلہ، سردارجہاں،جہاں داربیگم،سلیمن،ہینگا،کمو،تقیہ بیگم ، حکیم احمد رضا وغیرہ ناول کے کردار ہیں – ناول کا آغاز یوں ہوتا ہے ’’کربلائیں، درگاہیں، مسجدیں، امام باڑے، باغ، روضے، سیرگاہیں اور محل سرائیں میں انہی میں زندہ ہوں اور میرا نام لکھنؤ ہے۔ ‘‘ اس ناول خواب سراب کا مرکزی کردارعلی حیدر مرزا ہادی دسوا کے ناول امراؤجان کے غیر مطبوعہ مسودے کی تلاش کی کوشش میں سرکرداں ہے اوراس کی اس تلاش کے نتیجے میں امراؤ جان ادا اور فیض کی بیٹی کے بارے میں معلومات ملتی ہے اور امراؤ کی اگلی نسلوں کا پتہ چلتا ہے – پھر ان کرداروں یعنی شمیلہ خانم اور سبیلہ خانم کی کہانی ناول میں شامل ہوجاتی ہے – لکھنؤ تہذیب کا زوال اس ناول کا بنیادی تھیم ہے -طوائفیں ،مٹتی ہوئے تہذیب ،انہدام ہوتی حویلیاں ، اونچے طبقے کے افراد خصوصا خواتین کے مسائل بیان کیے گئے ہیں یہ ناول متن پر متن تخلیق کرنے کی عمدہ روایت ہے – اس ناول میں نسوانی کردار چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں تانیثیت کی رو سے بھی یہ ناول اہمیت کا حامل ہے -معاشرے میں خواتین کے کرداروں کو نسل درد نسل ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے -علی حیدر کی محبت میں مبتلا خواتین کے جذبات ، بڈھی ٹھڈی بیگمات کے احساسات وغیرہ ناول کو رومانیس کی میٹھی کسک سے دوچار کرتے ہیں – ناول کو ناول نگار نے خاصی عرق ریزی کے بعد مرتب کیا ہے لباس سے لے کر موسیقی کے علم تک ، مجرے سے رقص کے فن تک اُس معاشرے کے رسوم ، رواج ، مزہبی روایات ، محرم کا جوش و خروش سب کچھ ناول کے صفحات میں سمیٹ دیا گیا ہے -ناول میں کرداروں کی زبان و بیان کے حوالے سے بھی تجربات کیے گئے ہیں – لکھنؤ کی زبان پر ناول نگار کو بہت فخر ہے – وراثت کا نئی نسل تک منتقل نہ ہونا ، کرداروں کی اموات ،ا چکن اور شیروانی کا باہمی فرق سب علامات ہیں جنہیں زوال کی نشانیوں کے طور پر لیا گیا ہے – تیسرا ناول پری زاد اور پرندے نئیر مسعود کے افسانے چمن طاؤس رنگ کا سیکوئیل ہے – نواب واجد شاہ کے طاؤس چمن سے کالے خان نامی ملازم ایک پہاڑی مینا چرا لیتا ہے اور پکڑا جاتا ہے اسے سزا ہوجاتی ہے اس کی بیٹی فلک آرا کی بیٹی فرش آرا سے کہانی شروع ہوتی ہے جو پنجرے بنا کر بیچتی ہے چند کرداروں پر مبنی یہ ناول سادہ بیانیہ لیے ہوئے ہے فرش آرا یہ جاننا چاہتی ہے کہ اس کے نانا کالے میاں کے ساتھ کیا ہوا – اس ناول پری ناز اور پرندے میں انیس اشفاق ’طاؤس چمن کی مینا‘ کی فلک بوس بلندیوں کو تو نہیں چھو پائے البتہ اردو ادب میں فسانہ سے ناول لکھنا کے تسلسل کو لے کر نیا تجربہ کر گئے ہیں – تینوں ناولوں میں آصف الدولہ اور واجد علی شاہ کے زمانے کے لکھنؤ کی گلیوں، بازاروں اور تہذیب و ثقافت کی جھلک ہے۔ قاری کو گمان ہوتا ہے کہ وہ مصنف کی انگلی پکڑ کر ان کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے۔انیس اشفاق کے ناولوں مین جادوئی منظر نگاری ،لکھنؤ کی بربادی ،کتب خانوں ، علم، امام باڑوں، مجلسوں، مسجدوں اور مندروں کا ذکر ہے۔ انیس اشفاق کے ناول لکھنؤ کی مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہیں لیکن تہذیبیں تو بنتی اور مٹتی رہتی ہیں یہ ہی زندگی کا چلن ہے -ہر عروج کو زوال ہے – فرنگیوں کی ہندوستان پر حکومت اس لیے قائم ہوسکی تھی کہ ہندوستان میں بنیادی انفراسٹرکچر نہیں تھا عوام کے لیے صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں نہیں تھیں خود نواب تو سونے کے برتنوں میں کھانا کھاتے تھے اور عوام شدید گرمی میں لائن میں کھڑے ہوکر نواب صاحب کی سواری کا نظارہ کرتے تھے – یہ ہی تفریح ان کے لیے بہت معانی رکھتی تھی – عام انسان غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے تھے جب کہ بادشاہ ، راجا ، مہاراجہ ، نواب وغیرہ عیش و عشرت کی زندگی اختیار کیے ہوئے تھے ان کی حرم عورتوں سے آباد تھی اور طوائفوں بھی ان کی وظیفہ خوار تھیں – ان ناولوں کو جو کہ لکھنو کی تاریخ و تہذیب پر لکھے گئے پڑھ کر ایسا لگتا ہے جیسے مسلمان نوابوں ، حاکموں اور بادشاہوں کو سوائے عیش پرستی کے کوئی کام نہیں تھا – اس لکھنو کے نوابوں نے تو عوام الناس کو بھی عیش پرستی کا اذن ِعام دے رکھا تھا – یہ ہی وجہ ہے کہ لکھنؤ کے کوچہ و بازار جنس سے آراستہ ہوگئے ان کی محل سرائیں نگار خانے بنتی گئیں اور یوں لکھنؤ پر ایک جنسی ثقافت erotic culture کی چھاپ نظر آنے لگی – لکھنؤ کی تہذیب میں طوائف تہذیبی علامت بن گئ – واجد علی شاہ رنگیلے پیا جان عالم خواتین کا لباس پہن کر رقص کرتا تھا اسُ کے پری خانہ میں تین سو خواتین تھیں – ایسے عیاش نواب کو فرنگیوں نے جب محل سے نکالا تو روتا ہوا نکلا – نواب واجد شاہ کو مٹیا برج کلکتہ جلا وطن کردیا گیا -حضرت محل نے بہادری کا ثبوت دیا اور انگریزوں سے ٹکر لی – انگریزوں نے حضرت محل سے دشمنی کرتے ہوئے لکھنو میں عمارات کا انہدام کیا – املاک کو نقصان پہنچایا – ایک سو ستر سال پرانا لکھنو اپنی اصل حالت میں برقرار رہتا یہ تو ممکن نہیں ہوسکتا تھا – وقت کے ہاتھوں تغیر لازم ہے – بدلتی ہوئی زمانے کی روش کا ساتھ دینے والے ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں – مسلمان ہمیشہ سے ماضی پرست رہے ہیں – اسی وجہ سے ہندو ؤں کے مقابلے میں انگریز مسلمانوں کو دشمن سمجھتے تھے – ماضی کے راگ الاپنے سے تو قومیں ترقی نہیں کرتی – کلچر اس قوم کا ہوتا ہے جو اقتدار میں ہو – مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں ہیں -ہندو سرکار کو مسلمانوں کی تاریخی عمارات سے کوئی دلچسپی نہیں ہے انگریزوں نے ہندو ستان کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا بہت ظلم کیا لیکن انہوں نے مڈل کلاس بھی پیدا کی – سرکاری نوکریوں کے ذریعے افراد کی مالی حالت بہتر ہوئی – ریلوے کی سہولت دی ہسپتال سکول ، کالج بنائے – امراؤ جان ادا ، خواب سراب ناول کی تہزیب طوائف کے گرد گھومتی ہے یہ طوائفیں مسلمان ہیں نواب بھی مسلمان ہیں یعنی مسلمانوں کی تہذیب عیش پرستی ہے ؟ یہ ہی لیلا بھنسالی نے اپنی نیٹ فلیکس سیریز “ہیرا منڈی ” میں دکھایا ہے – ایسی تہزیب کو ناول کی شکل میں پیش کرکے نئی نسل کو کیا پیغام دیا جارہا ہے – وہ نسل جو دین سے ویسے ہی دور ہے “نیٹ “جس کا اوڑھنا بچھونا ہے -سنیپ چیٹ، انسٹاگرام، فیس بک اور مائیکرو بلاگنگ کے سحر میں گم نئی نسل ماضی سے نظریں چراتی ہے – حال سے بیزار ہے – مستقبل سے ناامید ہے – کسی شہر کی تاریخ کو ناول کی صورت میں محفوظ کرنا بہت اہم کام ہے قابل ستائش ہے – لیکن ایسا معاشرہ جس میں اسلامی کی بنیادی اقدار کی کوئی اہمیت نہ ہو اس معاشرے کو اغیار غلام بنا لیتے ہیں پھر فرنگیوں کی معاشرتی اقدار بے پردگی ، مخلوط محفلیں ، گرل فرینڈ کلچر وغیرہ بھی معاشرے کے اقدار کا جزو بن جاتے ہیں – لیکن جس معاشرے کو ہم ناول میں پڑھ رہے ہیں وہ تو پہلے ہی بہت ماڈرن ہے – طوائفوں کے کو ٹھے پر شرفا کے بچے شین قاف درست کرنے جاتے ہیں – پھر یہ ہی بچے بلوغت کے بعد طوائفوں کے گاہک بن جاتے ہیں – یہ کون سا اسلام ہے ؟ انیس اشفاق کا چوتھا ناول “ہیچ ” ہے یہ ناول تقسیم ِ ہندوستان کے بعد کے حالات پر مبنی ہے موجودہ عصری صورت حال بھی اس ناول میں دکھائی گئی ہے – یہ ناول تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں اور ہجرت نہ کرنے والے مسلمانوں کے مسائل پر روشنی ڈالتا ہے اس سے پہلے بھی کئی ادیب پروین طلحہ ، قرت العین ، عبداللہ حسین شوکت صدیقی، خدیجہ مستور، انتظار حسین، مستنصر حسین تارڑ، احمد ندیم قاسمی ہجرت کے موضوع پر لکھ چکے ہیں – تقسیم ہندوستان کے بعد ہندوستان میں مسلمان اقلیت بن کر رہ گئے تھے اس اقلیت کو اکثریت نے ہر میدان میں دبانے کی کوشش کی – وہ اپنی زمین پر اجنبی بن کر رہ گئے – لکھنو میں آج کوئی بورڈ اردو زبان میں نہیں ہے صرف انگریزی اور ہندی زبان میں آپ کو سائن بورڈ دکھائی دیتے ہیں ناول سے اقتباس “اردو وہ کوئی بھی حکومت ہو اس کے حلق سے نہیں اترتی۔ اس ادارے کو فقط ہماری آپ کی منہ بھرائی کے لیے بنایا گیا ہے۔ اردو کو اس کا حق دینا ان کو گوارا نہیں”۔ زبان کے علاوہ بھی مسلمانوں کو ملازمتوں کے یکساں مواقع حاصل نہیں ہیں – مسلم تہذیب و ثقافت ہندوستان میں اجنبیت کا شکار ہے – مشرف ذوقی بھی اپنے ناولوں میں ان مسائل کا تذکرہ کرتے رہے ہیں – کہانی لکھنؤ کے پرانے محلے بنجاری ٹولہ کی کی ہے – جہاں تقسیم نے اپنوں کے بیچ ایک لکیر کھینچ دی ہے۔ کوئی لکیر کے اُس پار جارہا ہے تو کوئی لکیر عبور کرنے کا ذکر تک سننا گوارا نہیں کرتا۔ دراصل بن پروں والوں کے لیے زمینیں زنجیریں ہی تو ہوتی ہیں – تقسیم ہندوستان کے بعد ہجرت نے مسلمانوں کو مزید غم ناک کردیا خاندان کے آدھے افراد ہجرت کر گئے آدھے ہندوستان میں رہ گئے -جو چلے گئے وہ تو گئے سو گئے جو رہ گئے ان کے لیے ان کا اپنا محلہ اپنا علاقہ اجنبی بن گیا – ناول میں ہندوستان کے اور پاکستان کے سیاسی حالات کو بھی شامل کیا گیا ہے – بےشمار قربانیوں کے بعد پاکستان کا وجود عمل میں لایا گیا تھا ۔ جو ملک مسلمانوں کے لیے بنایا گیا تھا – مسلمانوں کو ہجرت کرکے اسے آباد کرنا چاہیے تھا – لاکھوں مسلمانوں نے ہجرت کی تو ہندوستان کے اقلیت کہلانے والے مسلمان بھی ہجرت کر لیتے – قیام پاکستان کے کئی برس بعد تک بھی مسلمان ہجرت کرتے رہے ہیں – مسائل ہر معاشرے میں ہوتے ہیں وقت کے ساتھ سب کچھ بدل جاتا ہے یہ ہی زندگی کی حقیقت ہے –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply