انگریزی لفظ ’ریٹائرمنٹ‘ کے مقابلے میں ، اردو میں رائج فارسی لفظ ’سبک دوشی‘ کہیں بہتر لفظ ہے۔
لفظ ریٹائر، اوّل اوّل retreat کے معنوں میں رائج ہوا۔
اس کا ابتدائی معنی فوج کے پیچھے ہٹ جانے کا تھا۔ آگے بڑھنے ، لڑائی جاری رکھنے کے بجائے، واپس خیموں یا بیرکوں میں چلے جاناتھا۔ بعد میں اس کا مفہوم کسی بھی فعل سے دست بردار ہوجانا ،اورنجی جگہ پر استراحت(ریٹائرنگ روم ) کے لیے جانا ہوگیا۔یہی مفہوم مزید وسیع ہوا ۔کسی کاروبار، ملازمت وغیرہ سے الگ ہوکر ’گھر بیٹھ رہنے‘ ،تنہائی اختیار کر نے ،سماج سے کٹ جانے کو بھی ریٹائرمنٹ کا نام دیا گیا۔
حرکت وعمل اور ذمہ داریوں سے بھر پور زندگی سے الگ ہوجانے اور سماج میں تنہا وبے کار ہوجانے کا لازمی مفہوم، لفظ ریٹائرمنٹ میں مضمر ہے۔ اسی بنا پر یہ لفظ ریٹائرمنٹ مدت ِ ملازمت ،مکمل کرنے والوں کو خوف زدہ کرنے کا اچھا خاصا سامان رکھتا ہے۔
اس کے مقابلے میں سبک دوشی کا بنیادی مفہوم، کاندھوں کے بوجھ کا ہلکا ہوناہے۔ کاندھوں پر بوجھ ہو تو چلنا دشوار ہوا کرتا ہے، قدم قدم پر احتیاط برتنا پڑتی ہے، آپ اپنی مرضی سے ہر راستے پر نہیں چل سکتے۔ کچھ مخصوص راستوں پر ہی ، آپ کو پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوتے ہیں۔ کندھوں کا بوجھ،سب سے زیادہ ذہن پر سوار رہتا ہے۔
آ پ کئی سمجھوتے کرنے پر خود کو مجبور پاتے ہیں۔
اپنی مرضی اور مزاج کی ملازمت بھی بوجھ ہوا کرتی ہے۔آپ یہ لفظ پسند کریں یا نہ کریں، ہر ملازمت ،یہاں تک کہ تدریس بھی ، غلامی کی ایک صورت ہے۔
پہلے آدمی کسی ایک شخص کا غلام ہوا کرتا تھا، اب کئی آقاؤں کا بہ یک وقت غلام ہوتا ہے۔ خود آپ کے آقا بھی آگے کسی کے غلام ہوتے ہیں۔کیسا ستم ہے کہ غلام ، غلام پر حکم چلاتا ہے۔
چناں چہ چہ سبک دوشی، غلامی کے بوجھ سے آزادی ہے۔ ’غلام آقاؤں ‘ کی اطاعت کیے چلے جانے ،اور ان کی خوش نودی کی خاطر مصلحت سے کام لینے کے جبر سے آزادی ہے۔
سبک دوش ہونا: عمل وحرکت ترک کرنا اور کسی گوشہ عزلت میں سمٹ کر رہ جانا نہیں ہے۔
میرے عزیز دوست،اور اردو کے ممتاز ترین فکشن نگار خالد جاوید کو سبک دوشی مبارک ہو۔
وہ کل عید کے دن ، اکتیس مارچ کو جامعہ ملیہ سے ، بہ طور اردو پروفیسر سبک دوش ہوئے ہیں،اور انھیں برادرم سرورالہدی ٰ نےا یک دن پہلے کیا عمدہ خراج تحسین پیش کیا ہے۔
ایک ادیب کے لیے ملازمت، محض کندھوں کا بوجھ نہیں ، کئی بار اس کے ذہن وضمیر کے لیے بھی بوجھ بن جایا کرتی ہے۔وہ آزادی سے سب کچھ نہیں لکھ سکتا۔جہاں بولنا ہو ،وہا ں ادیب خاموش ہوجائے تو اس کی زبان پر ضرور چھالہ پڑ جایا کرتا ہے۔ اس کی زبان میں لکنت آجاتی ہے۔
اس لیے ایک ادیب کی ملازمت سے سبک دوشی ، اسے آزادی سے لکھنے کا موقع دیتی ہے۔ بجا کہ اسے سماج وریاست کے خوف کا اب بھی سامنا ہوتا ہے، مگر کم از کم وہ فوری جواب دہی کے آقائی سلسلے سے تو سبک دوش ہوجاتا ہے۔
خالد جاوید، سے پہلا تعارف ’‘اوراق‘‘ کے صفحات پر ۱۹۹۰ء کی دہائی میں ہوا تھا۔ ان سے کئی ملاقاتیں دہلی میں، شمیم حنفی صاحب کےگھر اور دوسری جگہوں پر ہوئیں، مگر ایک مسلسل ملاقات ان کے فکشن اور ان کی تنقیدی تحریروں سے چلی آتی ہے۔
خالد جاوید بلاشبہ ، صف ِ اول کے فکشن نگار ہیں۔ یہ درست ہے کہ آزادی سے کام لیے بغیر ،اوّل درجے کا ادب نہیں لکھا جاسکتا ، مگر اس بات سے خود انھیں انکار نہیں ہوگا کہ انھیں دوران ِ ملازمت کئی سمجھوتے کرنے پڑیں ہوں گے۔ ہم سب کو ، کم زیازیادہ ،سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔کبھی ان کا اثر خود ہمارے ادب پر پڑتا ہے، کبھی ہماری ادبی شہرت پر۔ پہلا اثر زیاد ہ خوف ناک ہواکرتا ہے۔
خالد جاوید کے کسی سمجھوتے کا اثر،ان کے فکشن پر نہیں پڑا۔ صاف لفظوں میں انھوں نے مقبول ِ عام نہیں ، صدمہ انگیز فکشن لکھا ہے۔وہ محظوظ کرنے کے لیے نہیں، ایک جھٹکے سے جگانے کے لیے لکھتے ہیں۔ ان کی تحریریں ہمیں غنودہ نہیں کرتیں، ہمارے وجو دکے منجمد سمندر پر تیشے کی مانند برستی ہیں۔
انھوں نے کوئی افسانہ یا ناول ، روزمرہ کی سیاسی زندگی ، مشہور تاریخی واقعات، روایتی رومانوی موضوعات پر نہیں لکھا۔انھوں نے اپنے فکشن کے موضوعات اخبار ، تاریخ کے مباحثوں ، کافی ہاؤسوں، ادبی میلوں سے اخذ نہیں کیے۔
انھوں نے اپنے فکشن کو کسی اور شے کا ترجمان نہیں بنایا، خود فکشن کو اپنی زبان میں اپنے اظہار کا موقع دیا ہے۔انھوں نے پہچانا ہے کہ فکشن ، اپنی اصل میں ایک اختراع ، ایک ایجا د ہے۔ ہمارے زمانے میں خالد جاوید سے زیادہ کسی نے نہیں واضح کیا کہ فکشن ، بیداری کو نہیں،خواب اور موت کو لکھتا ہے۔ موت جو ہر لمحہ ہمارے تعاقب میں ہے، سانسوں میں اور خون کی روانی میں۔
ان کے افسانے اور ناول قاری کو باور کراتے ہیں کہ ہماری روزمرہ زندگی کا طور ، اپنی ہی بنیادی سچائی سے فرار کی منطق پر استوار ہے۔ فرار اور فراموشی ، ہماری عام زندگی کے غالب رویے ہیں۔ تاریخ ، فلسفے ، تعلیمی تصورات، مذاہب، اخلاقیات ، سیاسی نظام ، فرار اور فراموشی کی حمایت کرتے ہیں۔
انسانی زندگی کا بڑا حصہ دہشت، تاریکی، جہنم ، آتش فشانی حالتوں سے عبارت ہے، مگر ہمیں مسلسل خوش کن ،امیدافزا، پرشکوہ ،مثالی تصورات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایک ناقابلِ برداشت بوجھ کو برداشت کرنے اور مصائب کو مسرت کی تمہید سمجھنے پر ہمیں قائل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ انھیں انسانوں کی اکثریت قبول بھی کرلیتی ہے، مگر اس سے اصل انسانی صورتِ حال اوجھل ہوتی ہے یعنی مزید گھمبیر ہوجاتی ہے، تبدیل نہیں ہوتی۔ خالد جاوید کا فکشن بتاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں انسانی زندگی طرح طرح کے تضادات، پیچید گیوں ، الجھنوں اور قول ِ محال اور سب سے زیادہ حماقت اور مضحکہ خیز ی کی حامل ہوجاتی ہے۔
ہم جن چیزوں کو مسلسل فراموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خالد جاوید اپنے فکشن میں اسے ہمارے روبرولاتے ہیں۔
ہم موت کو فراموش کرتے ہیں۔خالد جاوید کا فکشن، ہمیں مسلسل موت کے روبرو لاتا ہے۔ دیگر نظام موت کو بھولنے کی تعلیم دیتے ہیں یا اسے ریشنلائز کرنا سکھاتے ہیں،یا اس کے ثمرات کی طرف متوجہ کرتے ہیں ، خالد جاوید اس کی دہشت و تاریکی ومضحکہ خیز ی یعنی اس کی حقیقت کے روبرو لاتے ہیں۔۔ خالد جاوید کی جمالیات ترفع انگیز نہیں ، ترفع شکن ہے۔
انھوں نے موت کی چار کتابیں(ناول ) لکھی ہیں : موت کی کتاب ، نعمت خانہ ، ایک خنجر پانی میں، ارسلان اور بہزاد۔
ان سب کو اردو کے ممتاز نقادوں کی توجہ اور عالمی پذیرائی ملی ہے۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔
خالد جاوید کو پڑھنا آسان نہیں ہے۔ اپنے ہی وجود کی سچائی کے بوجھ کو محسوس کرنا، آسان ہی کہاں ہوا کرتا ہے۔
لیکن اسے ایک چیز آسان بناتی ہے۔ خالد جاوید کا اسلوب ۔ اتنا تخلیقی ،مئوثر اور دل وذہن میں ، نشتر کی مانند کھب جانے والا اور پھر پھول کی مانند کھل اٹھنے والا اسلوب، اس وقت اردو کے کسی فکشن نگار کے پاس نہیں ہے ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں