• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • جھوک فنا دی ہئے: ایک شخص، ایک زمانہ، ایک جدوجہد/محمد عامر حسینی

جھوک فنا دی ہئے: ایک شخص، ایک زمانہ، ایک جدوجہد/محمد عامر حسینی

ہجرت کبھی اختیاری نہیں ہوتی، یہ ہمیشہ جبری ہوتی ہے، چاہے اس کے جواز کتنے ہی معقول ہوں۔ مہاجر جس دھرتی پر جا کر بستے ہیں، وہاں کی شناخت کو اوڑھنا پڑتا ہے، اور اس انجذاب میں اختیار نہیں، جبر غالب ہوتا ہے۔ اور وہ جو ہمارے خیالوں میں ہمیشہ مہکتے رہتے ہیں، جن کے جذبات کی مہک ہمارے احساس کی دیواروں سے ٹکرا کر ہمیں زندہ رکھتی ہے، ان کی جدائی کا تصور بھی دل کو دہلا دیتا ہے، چہ جائیکہ وہ خبر واقعی آ جائے جو مرگ یوسف کی طرح صدمہ دیتی ہے۔ آج دو دن سے میں سکتے میں بیٹھا ہوں، سرائیکی وسیب سے جو خبر آئی، وہ جسم کی رخصتی کی نہیں، ایک عہد کے چلے جانے کی تھی۔ میں نہیں سمجھ پا رہا کہ تعزیت نامہ کیسے رقم کروں، کہاں سے شروع کروں، اور کہاں ختم۔ یاد آتا ہے وہ دن جب ڈیرے اڈے پر سٹیزن سینیما کے سامنے ایک گلی میں ایک کشادہ بنگلہ ہوا کرتا تھا، جہاں مارچ کی نرم ہوا میں کرسیاں بچھی ہوتیں، قہقہے گونجتے اور پرانی ہنڈا CD70 پر سوار کامریڈ رضو شاہ مجھے وہاں لے جایا کرتے۔ وہ بنگلہ سرسبز لان سے گھرا ہوتا، جس کے ایک کونے میں صوفہ نما کرسی پر وہ لحیم شحیم شخص بیٹھا ہوتا، جس نے کھدر کی شلوار قمیص پہنی ہوتی، سفید داڑھی اور فوجی کٹ بال، گول چہرہ، آنکھوں میں ذہانت اور شرارت کا امتزاج، کشادہ پیشانی، اور ہاتھ میں جگ سے پانی انڈیلتے ہوئے وہ یوں نظر آتے جیسے کوئی استاد کسی درویش کی صورت میں زندگی کا سبق پڑھا رہا ہو۔ میرے ساتھ سہیل جاوید اور ایک معروف سرائیکی شاعر بیٹھے تھے، جن کی نظموں کی کتاب “بھوندی بھوئیں تے” میں ایک نظم اسی شخص کے نام تھی۔ اسی مجلس میں میری پہلی ملاقات محمود نظامی اور شمیم عارف قریشی سے ہوئی، جن کی گفتگو ہر بوجھل لمحے کو ہنسی میں بدل دیتی۔ رضو شاہ نے ان سے میرا تعارف کرایا، مگر وہ بول پڑے: “رضو، چپ کر، حسینی کو خود بتانے دو!” جب میں نے ادب عالیہ، بالخصوص ٹالسٹائی کا ذکر کیا تو وہ یکدم جیسے بیدار ہو گئے، اُنہوں نے وار اینڈ پیس کی سطریں اپنی گونج دار آواز میں سنائیں، حرکات و سکنات سے جملے کو ایک اداکاری کا رنگ دیا اور بتایا کہ وہ ایف سی کالج کی ڈرامیٹک سوسائٹی میں ایک بار اسٹیج پر بھی جا چکے ہیں۔ ایک بار تو انھوں نے مجھے وہی سطر روسی، انگریزی، اور اردو میں تلفظ سمیت سنا کر حیران کر دیا: “پتریوتیزم و ییوو پراستیئشِم، یاسنم ای نِپاکالیبی مام زناچینی…” اور پھر کہا، “تم آئی اے رچرڈز کے ٹون، اوورٹون، انڈرٹون سے متاثر ہو، بتاؤ اس اقتباس پر اس کا اطلاق کرتے ہو؟” میں نے اپنی نااہلی کا اعتراف کیا، اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ تنقیدی زاویہ شاعری پر زیادہ سودمند ہے، جیسے اگر آپ میر کے شعر کو دیکھیں: “اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میرؔ / پھر ملیں گے اگر خدا لایا”، تو اس کی ٹون رخصتی کی خاموشی سے لبریز ہے، اوورٹون میں حسرت اور انکار کی دھیمی لہر ہے، اور انڈرٹون میں تقدیر کے سامنے تسلیم کا وہ لمحہ ہے جہاں انسان بےبس ہو جاتا ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یہی زاویہ فکشن پر بھی قابلِ اطلاق ہے۔ اس کے بعد کی گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ قوم پرستی کو وہ تسلیم نہیں کرتے، لیکن قومی سوال کو طبقاتی تضاد کا زیریں تضاد مانتے ہیں۔ ان کی باتوں سے یہ واضح ہوا کہ وہ صرف نظریاتی آدمی نہیں، بلکہ وہ عمل کے میدان میں بھی کسی سپاہی سے کم نہ تھے۔ میں اندازہ لگا سکتا ہوں کہ وہ ستر کی دہائی میں نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہوئے ہوں گے، اور پھر جب یہ جماعت زوال کا شکار ہوئی تو وہ خورشید حسن میر کی عوامی جمہوری پارٹی، صوبہ سرائیکی محاذ، پاکستان سرائیکی پارٹی، انقلابی کونسل، اور پھر واپس پاکستان سرائیکی پارٹی تک جا پہنچے۔ ان کا سیاسی سفر ایک عمر پر محیط تھا، اور یہ عمر انھوں نے اس دھرتی کے نام کر دی جسے وہ ماں کہتے تھے۔ انھوں نے اپنی وراثت، اپنی زمین، اپنی آسائش، سب کچھ ایک خواب پر قربان کر دیا — ایک الگ صوبے کا خواب۔ ان سے گفتگو میرے لیے ایک تربیت گاہ جیسا تجربہ ہوتی، چاہے وہ ہجرت، نیشنلزم، مارکسزم، نسل، تہذیب، یا ثقافت ہو — ہر بات میں ان کے پاس علم، تجربہ اور دانائی کا وہ امتزاج ہوتا جو صرف وقت دیتا ہے۔ ان سے آخری ملاقاتیں گارڈن ٹاؤن کینٹ میں ہوئیں، جب وہ ڈیرہ اڈا چھوڑ چکے تھے۔ میں روزنامہ خبریں میں کالم لکھنے لگا، اور جب بھی سرائیکی وسیب یا قومی سوال پر کچھ لکھتا، ان کا فون ضرور آتا۔ کبھی داد، کبھی سوال، کبھی تنقید، اور کبھی دعوتِ ملاقات۔ مگر وہ لکھنے سے کتراتے تھے، حالانکہ ان کے پاس وہ علم تھا جو نسلوں کی رہنمائی کر سکتا تھا۔ وہ سوشل میڈیا سے دور رہتے، جیسے ان کا وقت محض کتابوں، محفلوں اور مکالموں میں گزرتا تھا۔ وہ سچ مچ وادی سندھ کی اس روایت کے نمائندہ تھے جسے ہم مقامی دانش کہتے ہیں۔ پھر کورونا آ گیا، اور میں ملتان میں ہو کر بھی ان سے کٹ گیا۔ سہیل جاوید نے بتایا کہ وہ اب پریس کلب کم آتے ہیں، صحت اجازت نہیں دیتی۔ اور پھر وہ وقت آیا جب وہ خود بھی کہیں آ جا نہ سکے، اور یوں ایک دن وہ اس سفر پر روانہ ہو گئے جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔ میں اکثر سوچتا ہوں، ملتان کی گلیاں، ان کے دوست، وہ محفلیں، جن میں بیٹھ کر وہ مسکراتے، دلیل دیتے، ہنستے، کب کی اجڑ گئیں۔ وہ خود ایک ایسی منزل پر پہنچ گئے جہاں انسان جسم کے عارضوں سے نہیں، تنہائی کی تھکن سے ہار جاتا ہے، جہاں صرف دل چاہتا ہے کہ کوئی ہو جو حالِ دل سمجھے، اور وہ مقام، وہ وقت، “جھوک فنا دی ہئے” کا لمحہ بن جاتا ہے۔ میں ان کی رخصتی پر نہ روحانی تشریحات باندھنا چاہتا ہوں، نہ عالمِ مثال کی طرف سفر کی فرضی تصویر گری، کیونکہ وہ مابعدالطبیعیات کے قائل نہ تھے۔ اگر ہوتے تو میں شاہ ولی اللہ کے “تفہیمات الٰہیہ” کا نیا باب لکھتا، یا ابن عربی کے “فصوص الحکم” میں ایک نیا فص جوڑتا۔ مگر ان کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ مادی تاریخ کے بیٹے تھے، ایک ایسے بیٹے جو دھرتی ماں کی آغوش میں سر رکھ کر سو گیا، اور دھرتی نے خوشی سے اسے اپنے اندر جذب کر لیا۔ محمود نظامی اور منصور کریم سیال کی طینت دھرتی سے جڑی تھی، اور اب وہ دونوں دھرتی کی خامشی کا حصہ بن چکے ہیں۔ کامریڈ منصور کریم سیال کو سرائیکی وسیب کی بے لوث خدمت، دانش، اور مزاحمتی محبت کے لیے لال سلام۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply