سہارنپور اور اس کے محلے /ناصرالدین مظاہری

حالانکہ سہارنپور شہر کے محلوں کے نام ایک سے بڑھ کر ایک فارسی آمیز اور خوب صورت ہیں، یہاں کے بے شمار محلے اتنے پیارے ناموں پر مشتمل ہیں کہ ممکن ہے محلہ والوں کو بھی ان ناموں کی خوب صورتی اور ندرت کا علم نہ ہو مثلا ایک محلہ نیچہ بندان ہے ، نئی عمر والے نیچہ سے ہی واقف نہیں ہوں گے تو انھیں حقہ تک لے جانا ہی بے کار ہے ، قطب شیر ، داؤد سرائے ، شاہ مدار، مبارک شاہ ، سرائے حسام الدین وغیرہ ہر نام اپنے پیچھے مستقل تاریخ رکھتا ہے ، خود سہارنپور کا نام بھی اصل میں حضرت شاہ ہارون کی طرف منسوب ہے جن کا مزار مظاہرعلوم وقف سے قریب ایک غیر مسلم محلہ میں مسجد شاہ ہارون کے بالکل قریب واقع ہے پھر مرور ایام اور زمانے کے بدلتے منظر نامے اور نئی نسلوں نے خدا جانے کب شاہ ہارون پور سے سہارنپور کردیا۔اب اسی بدلے ہوئے نام کا فائدہ اٹھاکر تاریخ مسخ کرنے کا ٹھیکہ لینے والوں نے سارنگ پور بتانے کی کوشش و سازش شروع کردی ہے اور کوئی بعید نہیں ہے کہ بمبئی اور کلکتہ کی طرح کبھی اس خوب صورت نام کے بدلنے کی سوجھ جائے۔
یہاں آتش بازان ، نخاسہ بازار ، آہن گران جیسے نام بھی ہیں ، ذرا سوچیں آتش بازان نام لیتے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہاں پٹاخے اور گولے وغیرہ بنتے ہوں گے۔ نخاسہ بازار کتنا پیارا نام ہے ہمارے لکھنؤ میں بھی نخاس کے نام سے بھی ایک محلہ ہے۔فارسی میں آہن کے معنی لوہے کے ہیں اور گران گر کی جمع بنادی گئی ہے یعنی لوہاروں کا رہن سہن اس محلہ میں ہوگا۔ خمران ، کمبوہان ، بنجاران سے برادریوں کی طرف اشارہ ہے تو چوب فروشان ، نیچہ بندان ، کمنگران سے کاروبار کی طرف اشارہ ہورہا ہے۔
اب اس مختصر تمہید کے بعد ایک پر لطف واقعہ بتاکر بات ختم کئے دیتا ہوں۔
ایک مرتبہ رمضان المبارک کے مہینہ میں مشہور مقرر اور خطیب حضرت مولانا مفتی شکیل احمد سیتاپوری مظاہرعلوم وقف سہارنپور تشریف لائے ، میں ملاقات کے لئے مہمان خانے پہنچا تو کہنے لگے مفتی صاحب مجھے رات والی ٹرین سے لکھنؤ جانا ہے حضرت ناظم صاحب سے ملاقات بھی ضروری ہے ، میں نے ناظم صاحب کو فون کیا تو ناظم صاحب نے بتایا کہ میں بھنگی کالونی کی طرف ایک مسجد میں تراویح میں کلام اللہ شریف مکمل ہونے پر دعا کے لئے حاضر ہوا ہوں۔میں نے مفتی صاحب سے بتایا کہ ناظم صاحب تو بھنگی کالونی کسی مسجد میں دعاکے لئے گئے گئے ہیں ، سوچیں لکھنؤ میں رہنے بسنے والا امین آباد ، چار باغ ، عالم باغ ، حضرت گنج، نشاط گنج، حسین آباد جیسے نہایت ہی شیریں اور خوب صورت محلوں کے درمیان زندگی گزارنے والا جب بھنگی کالونی سنے گا تو اس کے منہ کا ذائقہ تو بدلنا ہی تھا ، نہایت حیرانگی سے کہنے لگے “بھنگی کالونی”؟یہ کیسا نام ہے ؟اور وہاں مسجد کاکیا کام ہے ؟میں نے کہا کہ پہلے سے وہاں بھنگی ہی رہتے تھے پھر مسلمانوں نے پوری کالونی خرید لی اور رہنے لگے ، مسجدیں بھی بن گئیں نام پرانا ہی چل رہا یے۔سنا ہے اب گولڈن کالونی نام ہوگیا ہے۔واللہ اعلم
خیر تھوڑی دیر کے بعد پھر کہا کہ اب پوچھو ناظم صاحب کہاں پہنچے ہیں ، میں نے پھر فون ملایا اور پوچھا تو جواب ملا کہ کہ کمیلہ کالونی کی طرف کسی مسجد پہنچ گئے ہیں۔یہ نام پہلے سے کچھ کم بدنام نہیں ہے یہاں شہر کا سب سے بڑا مذبح خانہ بھی واقع ہے ، عجیب سا منہ بناکر بولے کیا یہاں ایسے ہی نام ہیں محلوں کے؟
میں نے کہا بالکل نہیں یہ اتفاق ہے کہ آپ کے سامنے یہ دونام آگئے ورنہ یہاں حسین بستی ، نور بستی، محلہ قضاۃ، خان عالم پورہ، سرائے مردان جیسے پیارے نام بھی ہیں کہنے لگے واہ یہ ہیں نام ، نام سن کر بھی طبیعت کو سکون ملتا ہے۔
بہرحال یاد پڑتا ہے کہ مفتی صاحب کی ٹرین کا وقت ہوگیا اور ناظم صاحب کے پہلے سے طے شدہ نظام اور پروگرام کی وجہ سے اس سفر میں ملاقات نہیں ہوسکی۔
اس کے بعد بھی مفتی صاحب متعدد بار آئے بھی ، بلائے بھی گئے ،ہر ملاقات پر نہایت مسرور ہوتے تھے ،انھوں نے مظاہرعلوم وقف کی شاخ خلیلیہ گھنٹہ گھر میں ایک سال پڑھا بھی تھا۔
بہرحال اپنی کالونی اور محلے و شہر کے نام بھی ایسے رکھیں کہ زبان پر ادائیگی کے وقت بھی لذت محسوس ہو، کانوں کو بھلا لگے۔بھنگی کالونی، اندرا کالونی، طوطا چوک، بھٹیار خانہ ، بوچڑ خانہ بھلا یہ بھی کوئی نام ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ فیس بک وال

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply