سوچ کا ایک نیا زاویہ ہے، ملاحظ کیجیے/حسین رضا

“کتابوں کا مُوشِگافیانہ علم بمقابلہ تجرباتی اسباق کا عَملی علم
ایک سینئر صحافی کے ساتھ جنوبی پنجاب جانا ہوا۔ سفر کی بوریت ختم کرنے کے لیے کتابی اور تجرباتی علم پر تبادلہ خیال ہوا۔
میری رائے یہ تھی کہ کتابی علم بتاتا ہے کہ منوسمرتی کا ذات پات کا نظام (جس میں ایک ذات سے دوسری ذات میں منتقلی ممکن تھی) ایک ظالمانہ نظام تھا۔ لیکن تجرباتی علم بتاتا ہے کہ منوسمرتی کا نظام اس خطہ پر ایک نعمت تھا۔ وہ نظمِ اجتماعی اور امن و امان کی علمداری کا ایک بندوبست تھا۔
ایک چھوٹی سی مثال سمجھ لیں۔
منوسمرتی نظام کے تحت نچلی ذاتوں کے گھڑسواری پر پابندی اس لیے تھی کہ ان کے لونڈے لپاڑے گھڑسواری کے آداب سے عاری ہوتے تھے اور شرفا گھرانوں کو کچل دیتے تھے۔
آج آپ کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی کے بڑے شہروں میں دیکھ لیں۔ نچلی ذاتوں کے لوگ جن کی رسائی میں موٹرسائیکل خریدنا آگیا ہے وہ کیسے موٹرسائیکل چلاتے ہیں:-
ہائی سپیڈٹریک پر موٹر سائیکل چلاتے ہیں!
بغیر ہیملٹ اور بیک مررز موٹرسائیکل چلاتے ہیں!
سائلنسر کی بجائے شور مچانے والی چمنی والا موٹرسائیکل چلاتے ہیں!
زیبراکراسنگ پر موٹرسائیکل لاکھڑا کرتے ہیں!
گنجان آبادی/پیدل چلنے والی جگہوں پر تیز موٹرسائیکل چلاتے ہیں!
ایک موٹرسائیکل پر چھ کے قریب سوار ہوکر ڈولتا چلاتے ہیں۔
اوورلوڈنگ کرکے موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
لہرا لہرا کر زگ زیگ موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
رانگ سائیڈ پر موٹرسائیکل چلاتے ہیں اور اندھیرے اور بارش میں بھی رانگ سائیڈ پر موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
ہیڈلائٹ، بیک لائٹ اور انڈیکیٹرز کے بغیر موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
بےوجا ہارن بجاتے جاتے ہوئے موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
اپنی لائن بائیں طرف رہنے کی بجائے عین درمیان موٹرسائیکل چلا کر ٹریفیک کی روانی میں مخل ہو کر موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
موٹرسائیکل چلاتے سمے بریک اور رفتار پر قابو نہیں رکھ پاتے۔
اشارے کی بتی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
فاصلہ رکھے بغیر تیز رفتاری سے موٹرسائیکل چلاتے ہیں۔
یہ لوگ جب گھریلو/دفتری ڈرائیور یا نجی پبلک/مال بردار ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور بنتے ہیں تو گاڑی ٹرک وین بس کیری ڈبہ بھی ایسے ہی چلاتے ہیں۔
اب چونکہ اس برصغیر میں انگریز کا امتحانی لائسنس والا نظام ہے اس لیے وقتی طور پر جس نے ٹریفیک نشانات کے یاداشتی جوابات اور سرکسی کرتب بازی میں گاڑی آگے پیچھے چلانے کا وقتی امتحان پاس کرلیا وہ قانوناً متعلقہ سواری کو چلانے کا اہل ہوجاتا ہے! لیکن سواری چلانے کے لیے جو نسل در نسل اہلیت اور خاندانی تربیت لازمی ہوتی ہے وہ صرف منوسمرتی کا نظام ہی دیتا ہے۔
اگر پاکستان بھارت بنگلادیش میں برصغیر کا منوسمرتی نظام ہوتا تو کسی نچلی ذات کو تب تک کوئی ایسی سواری استعمال کرنے کی اجازت نہ ملتی جب تک وہ اپنے طور طریقہ مہذب اور تربیت یافتہ نہ کرتا۔
اب اکثر لوگ کہیں گے کہ بگڑے امیرزادے بھی ایسے کرتے پائے گئے ہیں۔ تو ان کی غلط فہمی کی تصحیح یہ ہے کہ جو واقعات مسلسل، متواتر اور کثرت کے ساتھ ہوتے ہیں وہ ہمارے معمول کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم انہیں نظر انداز کرنے کے عادی ہو جاتے ہیں یا ہم ان کے مواخذے میں پڑنے کو خسارہ سمجھتے ہیں۔ اب چونکہ نچلی ذاتوں کی سڑکوں پر بدتہذیبی معمول بن چکی ہے اس لیے وہ میڈیا میں نہیں آتی۔
جبکہ دوسری طرف پہلی بات تو یہ ہے کہ قانون اور آداب کی خلاف ورزی ہر اونچی ذات کا نہیں کرتا۔ نچلی ذاتوں سے ہی منتقل ہونے والے نودولتی امیرزادے یا تنخیئے امیرزادوں کی محدود تعداد میں بگڑی اولاد کرتی ہے۔ اگر آٹے میں نمک کی ماترا برابر کسی بگڑے امیرزادے نے موٹرسائیکل یا گاڑی غافلانہ انداز سے چلائی تو ہمیں وہ نمایاں نظر اس لیے آتا ہے کہ ایسے واقعات شاذونادر ہوتے ہیں اس لیے وہ “خلافِ معمول” ہونے کی وجہ سے میڈیا پر نمایاں نظر آتے ہیں۔ معمول میں یہ ہوتا ہے کہ اقوامِ جرائم پیشہ سے جڑی نچلی ذات اور قبائل کے لوگ جب سڑکوں پر نکلتے ہیں تو کسی سفید پوش مڈل کلاس یا کسی ثروتمند کی گاڑی یا موٹرسائیکل کو لاٹھوکتے ہیں اور پھر کہتے ہیں “پا جی میں غریب آں” (بھائی صاحب میں غریب ہوں)۔
کتابوں کا مُوشِگافیانہ علم بمقابلہ تجرباتی اسباق کا عَملی علم کا ایک فرق یہ بھی ہے کہ کتابوں میں جاگیردار، سردار، وڈیرے، خان، نواب، ملک وغیرہ ہمیں “استحصالی” اور “ظالم” کردار بتائے جاتے ہیں۔ جبکہ تجرباتی اسباق کا عملی علم یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ علاقے جہاں ریاست کی عملداری کمزور، مفقود یا برائےنام ہوتی ہے وہاں یہی جاگیردار، سردار، وڈیرے، چوہدری، خان، نواب ملک وغیرہ ہوتے ہیں جنہوں نے نظمِ اجتماعی اور امن و امان کو اپنی سخت مزاجی اور ڈنڈاگری سے قائم رکھا ہوتا ہے۔ اقوامِ جرائم پیشہ سے جڑے قبائل اور نچلی جاتیوں کے جو لوگ جب اپنے آبائی علاقوں میں ہوتے ہیں وہ ان نام نہاد ظالم سردار، وڈیرے، چوہدری وغیرہ کے ڈر سے چلتے بھی اتنی شرافت سے ہیں کہ کھیتوں کے بیچ کی پگ ڈنڈی بھی نہیں ٹوٹتی لیکن جب یہی لوگ شہروں میں آتے ہیں تو پولیس، رینجرز اور بلدیاتی نمائندے ان سب کے سامنے بےبس نظر آتے ہیں۔ جبکہ شہروں میں صاحب جائیداد اور ٹیکس دہندہ شرفا گھرانے گھروں میں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔
ایک اور مثال لے لیں۔ جب شہروں میں ثروتمند گھرانے مفت میں راشن اور لنگر تقسیم کرتے ہیں تو یہی اقوامِ جرائم پیشہ سے جڑے قبائل اور نچلی ذاتیں محنت مزدوری کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور چوری ڈکیتی پر لگ جاتے ہیں۔ نیز یہ کہ لنگر اور راشن کے حصول میں “جس کے زیادہ بچے اس کے لیے زیادہ راشن زیادہ لنگر” کی بانٹ چلتی ہے اور جب لنگر راشن نہ ہو تب سٹریٹ کرائمز اور چوریاں ڈکیٹیاں۔ جبکہ دیہات اور قبائلی علاقہ جات میں جاگیردار، سردار، وڈیرے، خان، نواب، ملک وغیرہ ان آبادیوں کو کھیتوں، مویشیوں، کان کنی، مال برداری اور بھٹوں سے جڑی پیداواری سرگرمیوں میں مصروف رکھتے ہیں۔
ایک اور مثال لیجیے۔ منوسمرتی کے تحت اجتماعی سزا کا نظام تھا۔ اس نظام کے تحت گھرانوں کو یا تو اپنے پریوار کے جرائم پیشہ کرداروں کو قابو میں رکھنا ہوتا تھا یا پھر ان سے سماجی مقاطعہ کرنا ہوتا تھا ورنہ پھر پورے پریوار کو سزا سہنے کے لیے تیار ہونا ہوتا تھا۔ آج بھی دیہات میں جب کوئی اشتہاری مجرم سر کی قیمت لگانے سے بھی پکڑائی نہ دے تو تب پولیس کی جانب سے اجتماعی سزا کے حربوں سے خود تھانہ یا عدالت میں سرنڈر کرتا ہے۔ قبائلی علاقوں میں جب تک فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن کا قانون تھا تب تک قبائلیے اپنی حد میں رہتے تھے اور اب جب سے انہیں “مغربی بنیادی حقوق” ملے ہیں تب سے راولپنڈی لاہور کراچی اسلام آباد تک جرائم پھیل گئے ہیں۔
اسلام جیسا دین جب برصغیر میں آیا تو شیعی اسلام اور سنی اسلام اس کی ناگزیریت کا انکار کیے بغیر نہ رہ سکے۔ البتہ شیعی اسلام نے اسے سادات کی کمائی کا “سید امتی” کا کاروباری بندوبست بنایا جبکہ سنی اسلام نے نظم اجماعتی اور امن و امان کی ضروریات کے تحت “اشراف اجلاف اور ارزال” کی منوسمرتی سے مماثل نظم اجتماعی کا بندوبست بنایا۔ حتیٰ کہ انگریز جیسی تعقل پسند قوم نے بھی “اقوامِ جرائم پیشہ” کی فہرست تیار کی۔ علاقوں بارے گزٹس میں قبائل اور ذاتوں کے اوصاف لکھے۔ جبکہ فردِ پتہ میں “ذات/قوم” کو شامل کیا۔
راقم الحروف جب نیا نیا کتابی علم کی موشگافیوں میں پڑا تو اسے سرسید احمد خان کی ذات پات کے حق میں آرا پر ان سے علمی عناد ہوا لیکن جب تجرباتی اسباق سے حاصل عملی علم کی گتھیاں کھلیں تو تب یہ پتا چلا کہ سرسید احمد خان کے مغربی مساوات بارے تحفظات درست تھے۔”

بشکریہ فیس بک وال

julia rana solicitors london

pc;chris legg

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply