مارکسی تناظر میں ابلیس کا “نظامِ کہن” اور جدلیاتی مادیت
اقبال کے ابلیس کی فکر کا بنیادی محور “نظامِ کہن” کی بقا ہے۔ وہ اپنے مشیروں کو یقین دلاتا ہے کہ اگر پرانی سماجی، سیاسی اور معاشی روایات برقرار رہیں تو انقلاب محض ایک خواب رہے گا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نظامِ کہن سے مراد کیا ہے؟
1. سرمایہ داری کا تسلط
2. جاگیرداری اور ملوکیت کا دوام
3. مذہب کو استحصالی قوت کے طور پر استعمال کرنا
4. پرولتاریہ کے اندر بغاوت کی روح کو دبانا
اقبال کے ابلیس کا یہ بیان:
“ہے مرے دستِ تصرف میں جہانِ رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمانِ تُو بتُو”
دراصل جدلیاتی مادیت کے بنیادی اصولوں سے متصادم ہے۔ مارکس کے نزدیک کوئی بھی قوت ہمیشہ کے لیے اقتدار پر قابض نہیں رہ سکتی کیونکہ ہر سماجی ڈھانچے میں اپنے زوال کے بیج موجود ہوتے ہیں۔
1. تاریخی مادیت اور ابلیس کا خوف
اقبال کا ابلیس اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ سماج مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہے۔ مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھیں تو معاشرتی تغیر کی تین بنیادی قوتیں ہوتی ہیں:
معاشی تضاد (Economic Contradiction): ہر نظام اپنی معیشت کے اندر ایسے تضادات رکھتا ہے جو اسے اندر سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ سرمایہ داری میں یہ تضاد محنت اور سرمائے کے درمیان ہے۔
جدلیاتی کشمکش (Dialectical Struggle): تاریخ میں ہر طبقہ اپنے مفادات کے لیے جدوجہد کرتا ہے، اور بالآخر ایک نئے نظام کی بنیاد رکھتا ہے۔
انقلابی تبدیلی (Revolutionary Change): جیسے جاگیرداری کے بعد سرمایہ داری آئی، ویسے ہی سرمایہ داری کے بعد اشتراکی انقلاب آنا طے ہے۔
ابلیس کہتا ہے:
“جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے یدِ بیضا ہے پیرانِ حرم کی آستیں”
یہاں اقبال نے مذہبی قیادت کو بھی استحصالی نظام کے حامیوں میں شمار کیا ہے، جو کہ مارکسی تنقید سے بہت قریب ہے۔ لینن اور ٹراٹسکی نے بھی یہی نکتہ اٹھایا تھا کہ مذہب کو اکثر حکمران طبقہ عوام کو غلام بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
لیکن اقبال اور مارکس کے درمیان فرق یہ ہے کہ اقبال مذہب کے اس استحصالی استعمال کو رد تو کرتے ہیں، مگر مذہب کو بطورِ محرکِ انقلاب تسلیم کرتے ہیں۔ جبکہ مارکسی جدلیاتی مادیت کے مطابق مذہب ایک غیر مادی حقیقت ہے اور انقلابی تبدیلی کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
2. جمہوریت، اشتراکیت اور ابلیس کی حکمتِ عملی
ابلیس اپنے مشیروں سے خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے:
“جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے!”
یہاں “مزدکیت” درحقیقت اشتراکیت (Socialism) کی طرف اشارہ ہے۔ مزدک، جو ایران میں طبقاتی ناانصافی کے خلاف بغاوت کا علمبردار تھا، ایک طرح سے مارکس کا پیش رو سمجھا جا سکتا ہے۔
ابلیس اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ طبقاتی استحصال کے خلاف سب سے بڑا خطرہ مذہبی شعور نہیں بلکہ مزدکیت (یعنی اشتراکی فکر) ہے۔ لیکن چونکہ اقبال اشتراکیت کو بھی مغربی فتنہ سمجھتے ہیں، اس لیے وہ اسلام کو مزدکیت کے مقابلے میں بطور متبادل پیش کرتے ہیں۔
یہاں پرولتاریہ نقطۂ نظر سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں:
کیا واقعی اسلام میں کوئی ایسا معاشی ماڈل موجود ہے جو سرمایہ داری کو چیلنج کر سکے؟
کیا تاریخی طور پر اسلامی حکومتوں نے کبھی اشتراکی اصولوں پر عمل کیا ہے؟
اگر اسلام اور مزدکیت میں بنیادی تضاد ہے، تو کیا مذہب سرمایہ داری کے خلاف پرولتاریہ کی جدوجہد میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟
مارکسی تجزیے کے مطابق، سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کے لیے ایک واضح مادی، سائنسی اور طبقاتی نظریہ ضروری ہے، جبکہ مذہب کو اکثر ایسی مبہم اصلاحات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو حقیقی انقلابی تبدیلی کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہیں۔
3. پرولتاریہ انقلاب اور ابلیس کا آخری خوف
نظم کے آخر میں ابلیس انتہائی پریشانی کے عالم میں اعلان کرتا ہے:
“جانتا ہے جس پہ روشن باطنِ ایام ہے
مزدکیت فتنۂ فردا نہیں، اسلام ہے!”
یہ مصرع فکری تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ اگر مزدکیت یعنی اشتراکیت ہی اصل خطرہ ہے، تو اسلام کو اس کے متبادل کے طور پر پیش کرنے کی منطق کیا ہے؟
مارکس کے نزدیک کسی بھی انقلاب کے لیے طبقاتی شعور (Class Consciousness) ضروری ہے۔ اگر محنت کش طبقہ مذہبی، قومی یا نسلی نعروں میں الجھا رہے، تو وہ حقیقی انقلاب برپا نہیں کر سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ مارکس نے کہا تھا:
“مزدور کا کوئی وطن نہیں ہوتا!”
جب ابلیس اسلام کو مزدکیت کا متبادل قرار دیتا ہے تو وہ دراصل سرمایہ داری کی حکمتِ عملی کو بیان کر رہا ہوتا ہے—یعنی لوگوں کو حقیقی انقلاب سے ہٹانے کے لیے مذہب کا استعمال کرنا۔
نتائج اور اختتامی تجزیہ
1. اقبال کے ابلیس کا سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ پرولتاریہ اپنی زنجیروں سے آزاد ہو جائے گا۔
2. سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ قوتیں مذہب، جمہوریت، اور قومی بیانیے کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں تاکہ مزدور طبقہ بیدار نہ ہو سکے۔
3. مزدکیت (اشتراکیت) کو “فتنہ” قرار دینا دراصل حکمران طبقے کی خوفزدہ ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، جو کسی بھی حقیقی انقلابی تبدیلی کو روکنے کے لیے مذہب کو ایک آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
4. اقبال کا بیانیہ انقلابی ہونے کے باوجود مارکسی جدلیات سے مختلف ہے، کیونکہ وہ طبقاتی کشمکش کو ایک “روحانی جدوجہد” کے طور پر دیکھتے ہیں، جبکہ مارکس کے نزدیک یہ سراسر مادی عوامل پر مبنی جدوجہد ہے۔
حتمی سوالات
کیا پرولتاریہ انقلاب کے لیے مذہب کو ایک مثبت قوت کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، یا یہ محض استحصالی حکمرانوں کے لیے ایک آلہ ہے؟
کیا مشرقی اقوام کے لیے اشتراکیت اور سوشلزم ایک بہتر ماڈل ہو سکتا ہے، یا ہمیں کسی نئے “اسلامی سوشلزم” کی ضرورت ہے؟
اگر “نظامِ کہن” کے خاتمے کا وقت آ چکا ہے، تو اس کا متبادل کیا ہوگا—مارکس کا اشتراکی انقلاب یا اقبال کا اسلامی احیا؟
یہ وہ سوالات ہیں جو “ابلیس کی مجلسِ شوریٰ” کے بین السطور میں چھپے ہوئے ہیں، اور جو آج بھی ہمارے معاشرتی اور فکری مکالمے کا حصہ ہونے چاہئیں.
جاری ہے
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں