اپنا اور روح کا فرق سمجھنے کے لیے بس ایک ہی نُکتہ سمجھ لینا کافی ہے اور وہ یہ ہے کہ میرا نفس ہی میں ہوں، یا یوں کہہ لیجیے کہ نفس میری وہ حقیقی ذات ہے جو اس دنیا میں اپنے اظہار کے لیے دنیاوی جسم کی محتاج ہے، میری ذات اپنے احساسات کے اظہار کے لیے جنت میں کسی دوسرے جسم کی محتاج ہو گی، برزخ میں کسی اور جسم کی۔ یعنی میری حقیقی ذات درحقیقت بے جسم ہے۔
کسی بھی جسم کے بغیر میں ویسا ہوں گا جیسا خواب کی حالت میں خود کو محسوس کرتا ہوں۔
یہ تو طے ہے کہ نفس یعنی میں آنکھ کے بغیر دیکھ بھی سکتا ہوں کان کے بغیر سُن بھی سکتا ہوں۔
ماں کے پیٹ میں پلتے حیوانی لوتھڑے میں کسی دوسرے جہان سے اسی نفس کی منتقلی میری پیدائش کا باعث بنتی ہے،
میرے جسم سے میری اسی ذات کی کہیں اور منتقلی میرے انتقال کا باعث بنے گی،
نیند اور موت کے دوران بقولِ قرآن اسی نفس کو قبضے میں لیا جاتا ہے۔
جبکہ روح اللہ کی ذات سے میرے ساتھ کیا گیا وہ امر ہے جو بوقتِ ضرورت نفس کو الہامی قُطب نما کا کام بھی دیتا ہے، بعض اوقات الہامی آئینے کا بھی اور بعض صورتوں میں الہامی دوربین کا بھی۔
گویا روح میرے قلب میں فِٹ وہ آئینہ ہے جو کسی بھی وقت مجھے نہ صرف میری موجودہ حقیقی تصویر دکھاتا رہے بلکہ یہ بھی بتاتا رہے کہ اپنے نفس کے دائرے میں رہتے ہوئے بھی درحقیقت میں کتنا خوبصورت بن سکتا ہوں۔
دنیاوی جسم میں ہماری پیدائیش کے وقت سے نفس اور روح دونوں ہی قلب میں ایک دوسرے کے کافی قریب موجود ہوتے ہیں، انکے درمیان بس لطیف سا ایک پردہ موجود ہوتا ہے،
بڑے ہوتے ہوئے اگر ہماری جہالت بڑھتی رہے تو نفس اور روح کے درمیان موجود پردہ گہرا اور کثیف ہوتا چلا جاتا ہے،
نفس علمِ نافع کے حصول میں لگا رہے تو یہ پردہ لطیف تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
حاصل شدہ علمِ نافع نفس کے عمل میں ڈھلنا شروع ہوتے ہی نفس اور روح آمنے سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ نفس اللہ کی روح سے آنکھیں ملا کر یہ دیکھ پائے کہ اُسکے موجودہ مقام اور منزل کے درمیان کتنا فاصلہ اور کیسی رکاوٹیں موجود ہیں۔
علم نفس کے لیے اتنا ہی ضروری ہے جتنا جسم کے لیے غُسل،
نفس جسم کے تجربات اور مشاہدات کے ذریعے بھی علم حاصل کرتا ہے اور روح کی قربت سے بھی،
دونوں ہی قسم کے علوم اپنی اپنی جگہ اہم تو ہیں لیکن روح کے ذریعے حاصل شدہ علم میں دھوکے کا امکان نہیں ہوتا کیونکہ روح کا تعلق بہرحال انسانوں کے خالق سے ہے۔ آپ اس بات کو ایک مثال سے سمجھیے،
تضحیک سے بے نیاز ہو جانا اتنا مشکل کام نہیں جتنا مشکل کام تعریف سے بے نیاز ہو جانا ہے۔
بندے کو تضحیک و تنقید سے بے نیاز وہ علم کرتا ہے جو وہ دنیا میں حاصل کرتا ہے، جبکہ تعریف کو اپنا راستہ کھوٹا کرنے دینے سے روکنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے اور وہ ہے روح کی آنکھ سے خود کو دیکھنا۔
گویا نفس وہ پالِش شدہ آئینہ ہے جو تعریف کے پیشِ نظر ہمیں ہمارے حقیقی قد سے بڑا بھی دکھا سکتا ہے تضحیک کے زیرِ اثر ہمارے قد سے چھوٹا بھی۔
جبکہ روح ایک غیرپالش شدہ آئینہ ہے۔
یعنی روح اُس وقت بھی ہمیں ہماری حقیقی تصویر دکھائے گی جب نفس سراب کے حقیقت ہونے پر قائل ہو چکا ہو اور اُس وقت بھی جب نقصان، غم یا مشکل حالات کے زیرِ اثر ہم خود کو اپنی حقیقت سے کم قامت دیکھ رہے ہوں۔
جہالت سے اٹے انسان اور جانور میں بنیادی مماثلت یہی ہے کہ انہیں کوئی ایسا آئینہ مُیسر نہیں ہوتا جو انہیں انکی حقیقی تصویر دکھا سکے، انکا نفس ہی انکا قُطب نما بن جاتا ہے۔
علم اور روح سے بہت فاصلے پر موجود نفس وہ بدترین قطب نما ہے جو نہ رکاوٹ دکھا سکے نہ خطرہ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں